تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     23-03-2023

پلے نئیں دھیلا، تے کردی میلہ میلہ

اس وقت وطن عزیز اپنی تاریخ کے مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے، شاید اتنا سنگین اقتصادی بحران قیامِ پاکستان کے وقت بھی درپیش نہیں تھا۔ آزادی کے پہلے سال مقامی کرنسی کی قدر موجودہ دور کے مقابلے میں بہت بہتر تھی۔ ابتدائی سالوں میں ہمسایہ ملک کے ساتھ جنگیں بھی ہوئیں اور جب کوئی ملک حالتِ جنگ میں ہوتا ہے تو ہر طرف ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے لیکن قوم نے دورانِ جنگ بڑی جوانمردی اور حوصلے کے ساتھ تمام حالات کا مقابلہ کیا۔ لوگوں کے پاس جو کچھ تھا‘ سب کچھ وطن کی مٹی پر قربان کرنے کے لیے پیش کر دیا گیا۔ اور عوام خود افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ ہم نے کئی بار قیامت خیز زلزلوں، سیلابوں اور دیگر سانحات کا مقابلہ بھی کیا لیکن کبھی قوم کا حوصلہ اتنا پست نہیں ہوا اور نہ ہی ایسی مشکلات دیکھیں‘ جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔ ماضی میں جب بھی ہنگامی حالات پیش آئے تو قوم متحد نظر آئی جبکہ حکمرانوں (خواہ کوئی بھی حکومت ہو) نے عوام کی درست رہنمائی کی اور ہم مکھن سے بال کی طرح بحرانوں سے نکل آئے۔ ماضی قریب میں بھی ہمیں سیلاب سمیت مختلف ہنگامی حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی شدت اور نقصانات کا تخمینہ اتنا نہیں تھا کہ قوم متحد ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر پاتی۔
قومی سیاست پر نظر ڈالیں تو آج بھی نوے فیصد وہی روایتی سیاستدان ملک کے عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں اور خود کو ہماری قسمت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں جو ماضی میں ہمارے حکمران رہے ہیں۔ وہی سیاسی جماعتیں ہیں، وہی ان کی پالیسیاں اور منشور ہیں اور عوام بھی وہی ہیں‘ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ ہم موجودہ معاشی و اقتصادی بحران کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں؟ آج ہمارا انحصار سو فیصد غیرملکی قرضوں اور امداد پر کیوں ہے؟ کیا ہماری قوم کے اندر جذبہ ختم ہو چکا ہے یا پوری قوم خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے؟ پہلے کبھی حالتِ جنگ میں بھی مہنگائی و بیروزگاری اس قدر بے قابو نہیں ہوئی تھی، روپے کی اتنی بے قدری تو تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی، قوم کی اکثریت کو پہلے دو وقت کی روٹی کے لیے کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا گیا۔ آج ایسی کون سی قیامت آ گئی ہے کہ لوگ دس کلوگرام آٹے کے تھیلے کے لیے چھینا جھپٹی کر رہے ہیں اور مفت آٹے کا ایک تھیلا حاصل کرنے کی جدوجہد میں کئی لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کیا ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے خاندان، محلے یا علاقے کے کسی انتہائی غریب کو‘ اس کے بچوں اور خاندان کے لیے آٹے کا ایک تھیلا بھی باعزت طریقے سے نہیں دے سکتے؟ ہم نے 8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے بعد لاکھوں متاثرین کو بحال کیا تھا، ان کی خدمت کی تھی اور دور دراز علاقوں تک لوگوں کو اشیائے ضروریہ اور راشن پہنچایا تھا۔ ہم نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران‘ جب سارے کاروبار بند ہوچکے تھے‘ لوگوں کو مفت راشن فراہم کیا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ راشن دینے والے زیادہ نظر آتے تھے اور لینے والے کم دکھائی دیتے تھے، کیونکہ حکومت اور انتظامیہ بھی مخیر حضرات کی رہنمائی کر رہی تھیں اور قوم بھی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر میدانِ عمل میں نکل آئی تھی۔
آج بھی وہی سیاست دان، وہی امیر و غریب ہیں لیکن آج ہم اپنے معاشی بحران کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ غریب آدمی تو مہنگائی کی چکی میں ہمیشہ ہی پستا رہا ہے لیکن اب تو حکمران طبقہ اور اربابِ اختیار بھی اس مہنگائی اور بیروزگاری کے سیلاب کے سامنے سر جھکائے نظر آتے ہیں‘ جیسے انہوں نے ان حالات کے مقابل شکست تسلیم کر لی ہو۔ کیا اب ہمارے ملک میں ایسے مخیر حضرات نہیں رہے جو ماضی میں اپنی مدد آپ کے تحت غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے؟ کیا اب پاکستان میں اجناس کی اتنی کمی واقع ہو گئی ہے کہ لوگ آٹے کا ایک تھیلا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے پر تیار ہو گئے ہیں؟ کیا اب سرکاری خزانہ واقعی اتنا خالی ہو چکا ہے کہ عوام کی معمولی سی تعداد کو آٹے کا ایک تھیلا اور چند لٹر سستا پٹرول دینے کیلئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ نہیں‘ ایسا ہرگز نہیں ہے! ہمارے ملک میں آج شاید ماضی کے مقابلے میں امیر لوگوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ قوم کا جذبہ بھی زندہ ہے، مخیر حضرات کی کمی بھی نہیں، اور سرکار کا خزانہ بھی شاید خالی نہیں کیونکہ اگر واقعی خزانے میں کچھ نہ ہوتا تو وہ سب سے پہلے عوام کو بھوک و افلاس سے بچانے کا سوچتی۔ ہمارے حکمران قوم کی صحیح رہنمائی کرتے، خور و نوش سمیت ضرورت کی تمام اشیا پر ٹیکس ختم کرتے تاکہ ہر غریب کی ان اشیا تک پہنچ ممکن ہو سکے اور لگژری اشیا پر ٹیکس بڑھاتے۔ ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ دیگر بڑی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کرتے اور ان کی جگہ روزمرہ عام استعمال کی اشیائے ضروریہ کی پیداوار اور درآمد پر توجہ دی جاتی۔ قصہ مختصر‘ خزانے کا اتنا بُرا حال نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے۔
بلاشبہ اس وقت ملک سخت ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے لیکن اگر حکمران صدقِ دل سے قوم کی درست رہنمائی کریں اور سب سے پہلے اپنی عیاشیاں اور غیر ضروری سرگرمیاں ختم کریں تو آج بھی یہ قوم اپنی مدد آپ کے تحت سنبھل سکتی ہے۔ ہماری معیشت دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور آٹے کے ایک تھیلے کیلئے بزرگوں اور خواتین کو دھکے کھانے کی ضرورت
نہیں رہے گی۔ آج بھی ہم باعزت طریقے سے اپنے علاقے کے غریب و مستحق لوگوں کے گھروں میں رمضان المبارک کیلئے راشن پہنچا سکتے ہیں، لیکن شاید ہمارے سیاستدانوں (حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں) کی ترجیحات میں اب ملک کی معیشت یا عوام کی خدمت بہت پیچھے چلی گئی ہے۔ اب شاید عوام کے اوپر اتنی ترجیحات آ گئی ہیں کہ معاشی بحران کا حل سوچنے کا بھی ان کے پاس وقت نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ایک طرف ہمارے حکمران یہ رونا رو رہے ہیں کہ قومی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، خزانہ خالی ہے، تنخواہیں دینے کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں، توانائی بچت پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے اور عوام کو اپنے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے گا اور دوسری طرف حکومت نے رمضان المبارک میں مہنگائی پر قابو پانے کے بجائے 'جشن بہاراں‘ کے میلے منعقد کرنے پر زور دے رکھا ہے۔ جن غریب خاندانوں کے کفیل آٹے کی قطاروں میں مر رہے ہیں‘ انہیں یہ ثقافت اور ناچ گانا بالکل بھول چکا ہے لیکن شاید حکمرانوں اور ان کے دائیں بائیں موجود لوگوں کا ایسے ہی میلے سجانے میں فائدہ ہے۔ ان سخت معاشی حالات میں بھی جشن بہاراں کی محفلیں سجائی جا رہی ہیں اور بھاری رقوم لٹائی جا رہی ہیں‘ موجودہ حالات میں جن کی قوم متحمل نہیں ہو سکتی۔ راولپنڈی کے اقبال (نواز شریف) پارک میں چند روز قبل جشن بہاراں کے نام پر سجائی گئی ایک ایسی محفل پکڑی گئی جہاں منشیات سمیت غیر قانونی دھندے ہو رہے تھے۔ تقریباً سارے ہی محکمے اپنے اصل کام اور رمضان المبارک کی تیاریاں چھوڑ کر ''پلے نئیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ‘‘ کے مصداق ایسے غیر ضروری پروگراموں کے انعقاد میں لگے ہوئے ہیں جو غریب عوام کے ساتھ سنگین مذاق سے کم نہیں۔ کوئی حکومت سے پوچھے کہ قوم کو توانائی بچت پالیسی کے بڑے بڑے فائدے گنوائے گئے تھے‘ پھر اس پر عملدرآمد کیوں روک دیاگیا؟ کوئی یہ بھی بتائے کہ اگر موجودہ معاشی بحران پر قابو پانا ہے تو اپنی ترجیحات بدلیں، قوم کی درست رہنمائی کریں اور لایعنی محفلیں سجانے کے بجائے بجلی، پٹرول اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرنے پر توجہ دیں اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں جس سے مہنگائی میں حقیقی کمی واقع ہو اور عوام کو ریلیف میسر آ سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved