تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-03-2023

لطف ہاتھ سے نہ جائے

عملی زندگی کے بنیادی تقاضے کئی ہیں۔ سنجیدگی بھی ایک بنیادی تقاضا ہے اور بھرپور دلچسپی بھی بنیادی تقاضے کا درجہ رکھتی ہے۔ پروفیشنل اپروچ کے ساتھ کام کرنے والے کامیاب رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عملی زندگی ہم سے پروفیشنل اپروچ بھی مانگتی ہے۔ پروفیشنل اپروچ کیا ہے؟ غیر جانب داری کے ساتھ اپنے کام سے کام رکھنا اور کسی بھی طرح کا غیر ضروری اور لاحاصل جھکاؤ اپنائے بغیر اپنا کام مطلوب جاں فشانی سے کرنا۔ کام سے بھرپور لطف کشید کرنا ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ خواہش بلا جواز نہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب اپنی محنت سے لطف محسوس ہوتا ہے تب کام زیادہ اور ''اچھے سے‘‘ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کام کے حوالے سے انتہائی بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ انسان ذہن پر ذرا سا بھی بوجھ محسوس نہ کرے یعنی کام اِس طور ہو کہ قدم قدم پر لطف محسوس ہو۔ مغرب کے آجر اس بات کو سمجھتے ہیں کہ انسان اُسی وقت ڈھنگ سے کام کرتا ہے جب وہ کام سے لطف محسوس کر رہا ہو۔ ایک زمانے سے مغرب میں ورک پلیس یعنی مقامِ کار کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنانے کی کاوشیں جاری ہیں۔ آجروں کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ تمام اجیر کام کا غیر ضروری دباؤ محسوس کیے بغیر کام کریں۔ اس کے لیے اوقاتِ کار معقول رکھے گئے ہیں۔ کام کے دوران زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جاتی ہیں تاکہ کوئی بھی کام کو بیگار سمجھ کر نہ کرے بلکہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
کیا ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے سے کام اچھی طرح ہو پاتا ہے؟ کوئی بھی انسان کام کب اچھی طرح کرتا ہے؟ کیا اُس وقت جب اُسے سہولتیں دی جائیں یا پھر اُس وقت جب اُس کا دل کِھلا ہوا ہو، کام اچھا لگ رہا ہو؟ اِس آخری سوال کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اُسی وقت اچھی طرح کام
کرسکتا ہے جب وہ اپنے کام سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ انسان اپنے کام سے لطف اندوز کب ہوتا ہے؟ اُسی وقت جب اُس پر کسی بھی حوالے سے کسی بھی قسم کا اور بالخصوص غیر ضروری دباؤ نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان غیر ضروری دباؤ کب محسوس کرتا ہے۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کی خرابی انسان کو اندر ہی اندر الجھاتی رہتی ہے۔ صحت کی خرابی بھی کام سے لطف اندوز ہونے سے روکتی ہے۔ انسان اگر نیند کے معاملے میں خسارے سے دوچار ہو تو اپنے کسی بھی کام یعنی معاشی سرگرمی سے بھرپور لطف کشید نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی انسان توانائی کی سطح برقرار رکھے بغیر اچھی طرح کام نہیں کرسکتا۔ قابلیت اور مہارت اپنی جگہ اور توانائی اپنی جگہ۔ ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے انسان کو بھرپور جوش و جذبہ بھی درکار ہوتا ہے۔ بھرپور جوش و جذبہ اُسی وقت یقینی ہوتا ہے جب انسان کی صحت کا گراف بلند ہو۔ صحت مند انسان ہی میں مطلوب تناسب سے توانائی پائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ صحت کے حوالے سے بعض چھوٹی موٹی پیچیدگیاں بھی انسان کو الجھا دیتی ہیں اور وہ ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہیں رہ پاتا۔ معمولی بیماریاں بھی انسان کو چڑچڑا بنادیتی ہیں اور یوں کام میں من نہیں لگتا۔
کام سے محظوظ ہونا متعلقہ فرد پر منحصر ہوتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جو کام زندگی بھر کرنا ٹھہرا وہ بھی اچھا نہیں لگتا۔ جب ایک کام کرتے ہی رہنا ہے تو اُسے دل سے قبول کیوں نہ کیا جائے؟ کام بدلا بھی جاسکتا ہے مگر صرف اُس وقت جب موجودہ کیفیت کو دل سے قبول کیا جائے۔ جو لوگ معاشی سرگرمیوں کو مکمل بدلنے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ بھی راتوں رات ایسا نہیں کرسکتے۔ جس کام سے وہ بیزار ہوچکے ہیں اُسے بھی گٹھڑی کی طرح سر سے اتار پھینکنا ممکن نہیں ہوتا۔ کام یعنی معاشی سرگرمیوں سے محظوظ ہونے پر ہی ہم اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرسکتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تو ہمیں پوری شعوری کوشش کے ساتھ ساتھ خوش رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تب کام کا معیار بھی بلند ہوتا ہے اور ہم یہ بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری صلاحیت یا سکت ضائع ہوگئی۔ کام سے بھرپور لطف کشید کرنے کا ایک اچھا نسخہ یہ ہے کہ کیریئر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ وہی کام زندگی بھر کے لیے منتخب کیا جائے جو اچھا لگتا ہو، دل کو بھاتا ہو، بوجھ محسوس نہ ہوتا ہو۔ معاشی سرگرمی کے طور پر ہم جو شعبہ منتخب کرتے ہیں وہ چونکہ زندگی بھر ہمارے ساتھ رہتا ہے اس لیے لازم ہے کہ یہ انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے۔
دنیا بھر میں عملی زندگی کا ایک نیا رجحان یہ ہے کہ کام کو کام سمجھ کر نہ کیا جائے بلکہ مشغلے کے طور پر لیا جائے۔ جب کسی کام کو ذہن پر سوار نہیں کیا جاتا تب اُس سے لطف کشید کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں نتائج خاصے خوش گوار ہوتے ہیں۔ کام کا معیار بلند کرنے اور اداروں کو حقیقی و پائیدار کامیابی سے ہم کنار رکھنے کی خاطر ماہرین تحقیق کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کرنے پر زور دیتے رہتے ہیں کہ کام کرنے والوں کو زیادہ الجھن یا دباؤ کا سامنا نہ ہو۔ ایک طرف تو انہیں مطلوب سہولتیں دی جاتی ہیں اور دوسری طرف صلاحیت، مہارت اور سکت کا گراف بلند کرنے پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ مراعات کے ذریعے کام کرنے والوں کو کام میں دلچسپی لیتے رہنے کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ تمام ملازمین یا اجیر خوش گوار ماحول میں کام کریں، کام سے محظوظ ہوں تاکہ مطلوب نتائج کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔
مشاغل کو ذریعۂ معاش بنانے والے بالعموم کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ جو کام ایک زمانے تک مشغلے کے طور پر کیا ہو اُسی سے گھر کا چولھا جلتا رکھنے کا اہتمام کیا جائے تو دل پر زیادہ جبر نہیں کرنا پڑتا۔ ہم اپنے ماحول کا بغور جائزہ لینے پر یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ محض زیادہ آمدنی کے لیے ایسا کام بھی کرتے ہیں جو اُنہیں زیادہ پسند نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں کام کے دوران ذہن الجھا ہوا رہتا ہے، دل پر دباؤ مرتب ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ ہمیشہ ہنستے مسکراتے دکھائی دیتے ہیں جو اپنی پسند کے کام کو ذریعۂ معاش بناتے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ معاشی جدوجہد کرنا ہی پڑتی ہے۔ یہ جدوجہد اگر ڈھنگ سے کی جائے تو انسان بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ جو کام ہر حال میں کرنا ٹھہرا وہ خوش دِلی سے کرنا انسان کو بہت کچھ دے سکتا ہے۔ خوش دِلی اور خوش مزاجی سے کیا جانے والا ہر کام طبیعت کو بلندی سے ہم کنار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کام کے دوران طبیعت کو کِھلی ہوئی حالت میں رکھنا بہت سے عوامل پر منحصر ہے۔ اگر ہم کام ادھورے نہ چھوڑتے ہوں تو کام کرنے کا لطف زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ کام مرضی اور پسند کا ہو تو سمجھ لیجیے کشتی پار ہوئی۔ زندگی کا معاشی پہلو مزاج سے ہٹ کر ہو تو اچھے خاصے امکانات بھی بے ثمر ثابت ہوتے ہیں۔
ہر دور کے انسان نے چاہا ہے کہ عملی زندگی زیادہ سے زیادہ آسان ہو۔ یہ کام بہت مشکل سہی‘ ناممکن ہرگز نہیں۔ جو لوگ عملی زندگی یعنی معاشی جدوجہد کو پوری دانائی کے ساتھ آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں اُنہیں بہت کچھ ملتا ہے۔ یہ سب کچھ منصوبہ سازی بھی چاہتا ہے اور سنجیدگی بھی۔ جب ہم اپنے معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے سنجیدہ اور اپنی شخصیت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں مخلص ہوتے ہیں تب پورا ماحول ہماری معاونت پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ عملی زندگی کی سطح کو ہموار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ کوئی بھی ایسا کام نہ کیا جائے جو دل پر جبر کا باعث بنتا ہو۔ اگر آپ اپنے معاشی معاملات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ہشاش بشاش رہتے ہوئے معاشی عمل جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں تو ناگزیر ہے کہ کام کا ماحول اپنے مرضی کے سانچے میں ڈھالیں۔ اگر ملازمت بدلنا پڑے تو پوری تیاری کے ساتھ ایسا کیجیے تاکہ کوئی رخنہ نہ آئے، مالی معاملات نہ بگڑیں۔ اس تبدیلی میں آپ کی سوچ اور قوتِ ارادی دونوں بہت اہم ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved