تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     24-03-2023

پگھلی ہوئی چاندی

مارچ کے مہینے میں ویسے تو عورتوں کے عالمی دن کا شور سب سے زیادہ ہوتا ہے (اس سال یہ شور شرابہ سیاسی شور میں دب کر رہ گیا) تاہم عورتوں کے عالمی دن کے علاوہ 21 مارچ کو جنگلات کا عالمی دن اور 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے‘ جو 1993ء سے منایا جا رہا ہے۔ پانی کا پہلا عالمی دن '' زندگی کے لیے پانی‘‘ کے نام سے منایا گیا تھا اور اس کی وجہ صاف پانی کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو واضح کرنا تھا۔ جنگلات کی اہمیت تو واضح ہے کہ انسانی بقا کے لیے درکار سب سے ضروری شے‘ یعنی سانس لینے کے لیے بنیادی ضرورت آکسیجن کا سب سے بڑا ذریعہ جنگلات ہیں۔ آکسیجن کے بعد انسانی زندگی کے لیے سب سے ضروری اشیا میں پانی کی باری آتی ہے ۔ ماضی میں پانی کا لفظ مفت اور بہ آسانی ملنے والی چیز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب بین الاقوامی سٹاک مارکیٹ میں خرید و فروخت والی ایک نئی جنس (Commodity) کا اضافہ ہو چکا ہے ۔ مائع شکل میں یہ تیل کے بعد پائی جانی والی دوسری بڑی چیزہے جس کی تجارت شروع ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کی تجارت عنقریب تیل کی تجارت کو پیچھے چھوڑ دے گی اور یہ نئی برائے فروخت چیزپانی ہے ۔ تیل کو مات دینے کی وجہ یہ ہے کہ تیل کے کئی متبادل ذرائع آچکے ہیں جو بتدریج تیل کی اہمیت اور تجارت کو کم کر رہے ہیں مگر پانی کا متبادل صرف پانی ہے۔ دنیا میں کسی بھی ملک کی دولت اور اہمیت کا اندازہ جن بنیادوں پر لگایا جاتا ہے‘ ان میں بھی اب پانی کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں لوگ ہجرت سے پہلے ممکنہ منزل پہ جس چیز کو مد نظر رکھاکریں گے‘ وہ پانی کی آسان دستیابی اور اس کا معیار ہوگا، بلکہ کئی علاقوں کے حوالے یہ وقت آچکا ہے۔ یورپ کے جو افراد جنوبی ایشیائی ملکوں میں سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں‘ انہیں دی جانے والی تجاویز میں ایک بڑی وارننگ نما تجویز یہ ہوتی ہے کہ کھلے نل سے پانی مت پینا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پانی پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہے اور جلد بین الاقوامی تجارت میں چاندی کو مات دیدے گا ۔ یاد رہے‘ اس سے پہلے تیل کو ''پگھلا ہوا سونا‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔
مسئلہ صرف پانی کی دستیابی نہیں بلکہ محفوظ پانی کا حصول ہے ، جو بھیانک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ محفوظ یا صحت بخش پانی کا معیار اپنایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی آبادی کی کثرت اس سے محروم ہے ۔ اپنے ملک کی بات کریں تو انکشاف ہوتا ہے کہ 75 فیصد سے زائد علاقوں کا پانی صحت مند نہیں ہے ۔ ماضی میں جن علاقوں کا پانی محفوظ سمجھا جاتا ہے‘ آج وہاں کا پانی بھی آلودہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں لاہور سرِ فہرست ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔ شہر کے اندر رہائشی کالونیاں انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ جب زیرِ کاشت رقبے کی جگہ پختہ عمارتیں تعمیر ہو جائیں تو بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتاجس کے نتیجے میں زیرِ زمین پانی کی سطح نہ صرف نیچے گر تی جاتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ پانی ناپید ہونے لگتا ہے۔ اس طرح کاشتکاری والے علاقوں میں مصنوعی کھادوں اور کیمیکلز کا استعمال اتنی بے دردی سے کیا جاتا ہے کہ اس کے اجزا زمین میں جذب ہونے سے پانی میں آرسینک شامل ہو جاتا ہے جو اس کو آلودہ کر دیتا ہے ۔ لاہور شہر‘ جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا‘ فضائی آلودگی کے اعتبار سے اب دنیا میں سر فہرست آچکا ہے۔ فضا میں موجود آلودگی بارش ہونے پر واپس زمین پر آجاتی ہے جس سے زمین اور پا نی‘ دونوں کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح زیر کاشت علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کسان برساتی نالوں کا گندا پانی اور گائوں کے باہر موجود جوہڑ کا پانی بھی فصلوں اور سبزیوں کے کھیتوں کو لگادیتے ہیں جس سے اگنے والی غذایقینا غیر محفوظ ہوتی ہے۔ ایسے تمام علاقوں کے لوگ Water Born بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اسی لیے ان علاقوں کے لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اب روٹی ، کپڑااور مکان کی بنیادی ضرورتوں کے بجائے صاف پانی ، ہوا اور دھوپ کی بنیادی ضرورتیں انسانی بقا کے لیے نیا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہیں۔ اس سال پانی کے حوالے سے جاری عالمی کانفرنس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی آدھی آبادی کو سال میں کم از کم ایک ماہ کے لیے پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ نکاسیٔ آب کے مناسب اقدامات بھی اس سال کے ماٹو کا حصہ ہیں۔
کسی بھی انسان کے معیارِ زندگی کے حوالے سے بات کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کے لیے پانی وہی حیثیت رکھتا ہے جو ایک گاڑی کے لیے تیل کی حیثیت ہے۔ ہر انسان کو اپنے جسم کی حرکت برقرار رکھنے اور زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پانی اس خوراک کو ہضم کرنے میں اہم ترین معاون جزو کی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہم خوراک میں جو بھی دال ، سبزی اور جنس کھاتے ہیں‘ اس کو اگانے کے لیے دھوپ اور مٹی کے بعد تیسرا لازمی جزو پانی ہی ہے۔ جیسے پہلے ذکر ہوا کہ زمین میں اُگنے والی ہر چیز کے معیار کو طے کرنے والا اہم ترین عنصر پانی ہے ۔ اسی طرح گوشت یا دودھ کے معیار کا تعین بھی جانور کو فراہم کیے جانے والا پانی کرتا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی جسم کا ستر فیصد پانی پر مشتمل ہے ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ کی صحت کیسی ہو گی‘ اس کا تعین پانی کرتا ہے ۔ ہمارے ہاں مصنوعی کھادوں کا استعمال چونکہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اب بہت سارے علاقوں میں زیر زمین پانی میں آرسینک نامی زہریلا مادہ پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے پانی کا ذائقہ اور معیار‘ دونوں ہی خراب ہو رہے ہیں۔
ہم تشبیہ اور موازنہ کر رہے ہیں پانی اور تیل کا ، تو اس ضمن میں تذکرہ کرتے ہیں تیل کی طرح اب پانی کی بھی متعدد اقسام مارکیٹ میں موجود ہیں۔ تالابوں سے حاصل کردہ پانی، خام یعنی غیر محفوظ پانی ، سادہ پانی ، فلٹر شدہ پانی، پہاڑی چشموں سے حاصل کردہ پانی، منرل پانی وغیرہ ۔ واضح رہے کہ پانی کی ان اقسام کی قیمتیں بھی مختلف ہیں ۔ پاکستان جیسے ممالک کی اشرافیہ بالخصوص سیاسی شخصیات کی بڑی تعدا د امپورٹ کردہ اعلیٰ قسم کا پانی نوش فرماتی ہے ۔ پانی کی بہتر اقسام کی قیمت فی لٹر 14ڈالر سے شروع ہوتی ہے اور یہ قیمت بڑھتے بڑھتے ہزاروں ڈالر تک جاتی ہے ۔ فرانس کی کئی کمپنیوں کا پانی ہمارے یہاں کے مہنگے مہنگے مشروبات سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ آپ بلا وجہ پریشان نہ ہوں‘ صاف اور صحت بخش پانی کے حصول کے لیے ایک آسان سا نسخہ اپنائیں۔ مٹی کابنا گھڑا یا کولر نہ صرف پانی کو محفوظ بناتا ہے بلکہ یہ باسی پانی میں بیکٹیریا پیدا ہونے سے بھی بچاتا ہے ۔ واضح رہے کہ پانی کی بڑی بوتل میں موجود پانی پہلی دفعہ بوتل کھلنے کے بعد باسی ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس میں بیکٹیریا پیدا ہونے لگتے ہیں‘ اس لیے اسے محفوظ نہیں کہا جا سکتا ۔صاف پانی کے لیے ضروری ہے کہ پانی کو پلاسٹک کی بوتل میں مت رکھیں ۔ گھر پر فلٹر لگانے کے علاوہ آپ پانی کو ابال کر مٹی کے گھڑے یا مٹی کے کولر میں رکھ سکتے ہیں۔ اس سے پانی محفوظ رہتا ہے ۔ راقم یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہے کہ پانی پیتے ہوئے آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ کیا پی رہے ہیں‘ جیسے آپ یہ دیکھتے کہ گاڑی میں آپ نے کیا ڈلوایا ہے ڈیزل ، پٹرول، یا ہائی اوکٹین؛ اسی طرح پانی اپنے معیار کے لحاظ سے مختلف خاصیت اور اثرات رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں صاف اور معیاری پانی‘ کھانے کی خصوصی ڈشوں پر لگنے والے چاندی کے ورق سے بھی زیادہ قیمتی سمجھا جائے گا۔ جیسے پہلے ذکر ہوا کہ عنقریب ملکی اور عالمی ہجرت کی ایک بڑی وجہ ماحول کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں پانی کا معیار اور اس کی مقدارہو گی‘ اس حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ اس طرز کی ہجرت کے متمنی افراد میں جنوبی ایشیائی باشندے سرِ فہرست ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved