پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ سیلاب‘ اندھی‘ طوفان‘ گلیشیرز کا پگھلنا‘ غذائی قلت‘ شدید گرمی‘ شدید سردی اور خشک سالی جیسی آفات مسلسل عوام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں انسانی سرگرمیوں اور زمینی و فضائی تبدیلیوں کے باعث جنم لیتی ہیں۔ کچھ کا اثرجلد نظر آجاتا ہے اور کچھ میں اثرات دیر سے نظر آتے ہیں۔ چونکہ یہ خطہ اس زون میں آتا ہے جہاں زلزلے بکثرت آتے ہیں‘ لہٰذا اکثر و بیشتر عوام زلزلے کے جھٹکے بھی محسوس کرتے رہتے ہیں۔ میں اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں اور اپنی زندگی میں کم ازکم چار بار شدید زلزلہ دیکھ چکی ہوں۔ زلزلے بہت خوفناک ہوتے ہیں۔ زلزلہ آنے کے بعد انسان سر میں چکر اور ٹانگوں میں درد محسوس کرتا ہے۔ کچھ لوگ تو اس کے بعد بہت دن تک انزائٹی محسوس کرتے رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ زلزلوں کے جھٹکوں کے بعد بہت دن تک پریشان رہتے ہیں۔ میں نے جو چار بدترین زلزلے دیکھے ان میں 2005ء کا زلزلہ بہت تباہی لایا تھا۔ آزاد کشمیرکا ایک حصہ تباہ ہوگیا تھا‘ بالاکوٹ مکمل تباہ ہو گیا تھا‘ اسلام آباد میں بھی ایک رہائشی ٹاور منہدم ہوگیا تھا اور ہزاروں لوگ اس زلزلے کے سبب لقمہ اجل بن گئے تھے۔ عمارتیں منٹوں میں مٹی کا ڈھیر بن گئی تھیں‘ ہزاروں افراد امعذور ہوگئے تھے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے جن کی بحالی پر بہت سال لگ گئے تھے اور بہت سے لوگوں کی مدد ہی نہیں ہوسکی تھی کیونکہ ہمارے معاشرے میں کرپشن عام ہے۔ یہاں پر امداد اور بحالی کے نام پر آنے والے فنڈز بھی غبن کر لیے جاتے ہیں‘ اسی لیے زلزلہ متاثرین کی مکمل بحالی نہیں ہوسکی۔ انہی جگہوں پر ویسی عمارتیں دوبارہ بن گئیں جن کے دوبارہ مہندم ہونے کا خطرہ ہے۔ سیلاب میں بھی ہم نے دیکھا کہ دریا پر گھر بنے ہوئے تھے اور جب سیلاب آیا تو عمارتوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ اس کی وجہ کمزور
انفراسٹرکچر اور دریائی راستے میں بلڈنگیں بنانا تھا۔ جب قواعد کی خلاف ورزی ہوگی‘ جب تعمیراتی سامان میں ملاوٹ ہوگی تو نقصان لازمی امر ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں زلزلہ اورسیلاب آنے کا امکان ہر وقت رہتا ہے‘ تو ہم پہلے سے تیاری کیوں نہیں کرتے؟ زلزلوں کے بارے میں تو یہ بھی نہیں بتایا جاسکتا کہ وہ کب آئیں گے‘ اسی طرح گلیشیر کب پگھل جائیں اور کب دریائوں میں طغیانی آجائے‘ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ بارش کے بارے میں پہلے پیشگوئی ہوسکتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والے سیلاب کے بارے میں کسی حد تک بتایا جاسکتا ہے مگر کلائوڈ برسٹ بھی انسانی علم کی دسترس سے باہر ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اطلاعات و خدشات کے باوجود عوام اور حکام کچھ نہیں کرتے۔ ہم نے 2005ء کے زلزلے میں نقصان اٹھایا‘ پھر 2010ء کے سیلاب میں تباہی دیکھی پھر گزشتہ سال آدھا ملک سیلاب کے پانی میں ڈوب گیا۔ اب 2023ء میں پھر ہولناک زلزلہ آیا ہے جس سے کچھ عمارتوں میں دراڑیں آگئی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ترکیہ کا منظر ذہن میں تازہ ہو گیا۔ جس طرح سے وہاں تباہی ہوئی‘ وہ بہت خوفناک منظر تھا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ عمارتوں کی عمارتیں منٹوں میں منہدم ہوگئیں اور لوگوں کو عمارتوں سے باہر نکلنے کا بھی وقت نہیں ملا۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں اور بجلی و پانی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوگئے اور پچاس ہزار سے زائد جاں بحق ہو گئے۔ البتہ وہاں پر تیزی سے بحالی کا کام شروع ہو گیا اور اب تک سڑکیں تعمیر ہو چکی ہیں جبکہ لوگوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جانوروں تک کوریسکیو کیا گیا تھا۔ متاثرین کی بحالی کے ساتھ فوری طور پر سڑکوں کی تعمیر پر توجہ دی گئی اور عمارتوں کا ملبہ ہٹایا گیا۔ اب ان ایریاز میں‘ جہاں فالٹ لائنز ایکٹو ہیں‘ بلند عمارتوں کی تعمیر پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔ ترکیہ کے صدر رجیب طیب اردوان خود زلزلہ متاثرین کے پاس گئے اور بحالی کے کاموں میں حصہ لیا۔ پوری دنیا بھی ترکیہ کی مدد کیلئے آگئی۔ دوسری طرف جب ہمارے ملک میں سیلاب آیا تو عالمی برادری نے وعدے کرنے پر انحصار کیا‘ اتنی امداد اور توجہ نہیں ملی جس طرح دنیا ترکیہ کی مدد کو سامنے آئی۔
اس کی وجہ شاید ہمارے ملک میں کرپشن کا بہت زیادہ ہونا ہے۔ امداد دینے والے بھی یہ سوچتے ہوں گے کہ امداد متاثرین تک جائے گی یا نہیں۔ جس وقت عمران خان‘ مریم نواز اور بلاول بھٹو جلسوں میں مصروف تھے‘ معروف گلوکارہ حدیقہ کیانی نے زلزلہ متاثرین کے گھروں کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا۔ قوم کے لیڈر سیاست میں لگے رہے اور قوم کی ایک بیٹی سیلاب متاثرین کیلئے کام کرتی رہی۔ حدیقہ نے دکھا دیا کہ جب عزم ہو تو بڑے سے بڑا کام کیا جا سکتا
ہے۔ جذبہ ہو‘ تو ہی لوگ کام کرتے ہیں‘ جب جذبہ ہی نہ ہو تو کوئی کیوں کام کرے گا۔ جب ہمارے ملک میں حکومت کی جانب سے‘ سیاستدانوں کی طرف سے متاثرین کی مدد نہیں کی جاتی تو عالمی ادارے کیوں دلچسپی لیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ امداد زیادہ نہیں آتی۔ حکومتیں کیا‘ یہاں تو این جی اوز بھی امداد میں گھپلا کرجاتی ہیں۔ ترکیہ کی مدد کیلئے سب آگئے لیکن پاکستان کیلئے کوئی نہیں آیا‘ جس کی بڑی وجہ کرپشن ہے۔ جب تک کرپٹ لوگ ہم پر مسلط رہیں گے‘ پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ رہی سہی کسر قدرتی آفات پوری کردیتی ہیں۔ سیلاب اور زلزلے ہر وقت خطرے کی طرح ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ کسی بھی وقت آسکتے ہیں اور ہم انہیں روک نہیں سکتے؛ البتہ ان کے نقصان کی شدت کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اتنی شدت کا زلزلہ آیا ہے لیکن ابھی تک حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بہت سی بلڈنگز میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ فوری طور پر تمام بلند عمارتوں کا معائنہ کیا جانا چاہیے۔ اسلام آباد میں کچھ عمارتوں میں زیادہ نقصان ہوا ہے اور شہری اپنے گھروں میں واپس نہیں جاپارہے۔ کسی بھی بڑے زلزلے کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگر اگلے جھٹکے سے خدانخواستہ یہ عمارتیں گر گئیں تو کون ذمہ دار ہو گا؟ اس لیے ایک دن بھی ضائع کیے بنا بلند عمارتوں کا سروے کریں‘ نقصان کا تخمینہ لگوائیں اور شہریوں کو ریلیف دیں۔
بدھ کو آنے والے زلزلے کے جھٹکے اتنے خوفناک تھے کہ سب لوگ پریشان ہوگئے‘ گھر کی دیواریں ایسے ہل رہی تھیں کہ لگ رہا تھا کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا؛ تاہم اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور سب محفوظ رہے جبکہ ہم وطنوں کا بھی کم نقصان ہوا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ زلزلے کی گہرائی 180کلومیٹر تھی اور زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اب بلند عمارتوں کا معائنہ فوری طور پر ہونا چاہیے‘ ورنہ ان میں پڑنے والی دراڑیں مستقبل میں مشکلات کھڑی کرسکتی ہیں۔ ہمارے ہاں انسانی جان کی کوئی قیمت یا وقعت نہیں ہے‘ لوگ مر جاتے ہیں مگر حکام کی ترجیحات میں جگہ نہیں بنا پاتے۔ ہم نے ترکیہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘ نہ ہی سیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسے شہر جہاں زلزلے آنے کا خطرہ ہو‘ وہاں بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ وہاں صرف دو یا تین منزلوں تک تعمیر ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں زلزلے یا سیلاب کی صورت میں مدد کیلئے کس سے رابطہ کریں‘ کن ہیلپ لائنز پر فون کریں‘ یہ بات عوام کو پتا ہونی چاہیے۔ حالیہ زلزلے کے جھٹکے اتنے خوفناک تھے کہ سب ہل کر رہ گئے لیکن ان لوگوں کے ضمیر نہیں جاگے جنہوں نے کام کرنا ہے‘ جن کے ذمے عوام کی خدمت ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح تقسیم کی سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ ترکیہ تیزی سے اپنے زلزلہ متاثرین کی بحالی میں مصروف ہے اور ہمارے ملک میں سیلاب تو دور‘ زلزلہ متاثرین بھی پوری طرح بحال نہیں ہو سکے۔ زمین کی جانب سے اس سخت وارننگ کے بعد سب کو محتاط ہوجانا چاہیے اور کسی بھی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کیلئے پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں‘ وگرنہ حادثات کو سانحات میں تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved