میں نے کتاب رکھ دی اور بے تابی سے قلم اٹھا لیا۔
میں مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا کہ 1408صفحات کا مطالعہ مکمل کروں اور اس کے بعد آپ کو اس تحیر انگیز کتاب سے متعارف کراؤں۔ یہ بے تابی اس دن سے میری ہم سفر تھی جس دن سے میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔ میں نے خود کو روکے رکھا‘ ورنہ ہر سطر میری بے چینی کو مہمیز دیتی تھی۔ کبھی معلومات۔ کبھی اسلوبِ نگارش۔ سب سے بڑھ کر آج کے حالات سے حیرت انگیز مماثلت۔ اب میں اس بے تابی کو مزید نہیں تھام سکتا۔
''مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا‘‘ جناب الطاف حسن قریشی کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو 1964ء اور 2000ء کے درمیانی عرصہ میں لکھی گئیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ اچانک پیش نہیں آیا۔ وقت نے کیسے برسوں اس حادثے کی پرورش کی‘ الطاف حسن قریشی صاحب نے ہمیں بہت ہی تفصیل سے بتا دیا ہے۔ بتا تو انہوں نے بروقت دیا تھا مگر افسوس کہ وہ لوگ اس پر دھیان نہ دے سکے‘ ملک کی حفاظت جن کی ذمہ داری تھی؛ تاہم اس میں استثنا بھی تھا‘ جیسے ایئر مارشل نور خان۔ قریشی صاحب کی گواہی ہے کہ انہوں نے ''مجھ سے ستمبر میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اگر پاک بھارت جنگ ہوئی تو ہم یقینی طور پر ایک ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوں گے‘‘۔
کتاب کا پیغام یہ بھی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے ذہن کو کسی فردِ واحد کے پاس گروی رکھ دیتی اور اپنی باگ جذبات کے ہاتھ میں دے دیتی ہے تو پھر ایک خوفناک انجام اس کے انتظار میں ہوتاہے۔ یہ انجام عوام ہی کا مقدر نہیں بنتا‘ خود لیڈر بھی اپنی لگائی آگ میں خاکستر ہوجاتا ہے۔ جب کسی قوم میں شیخ مجیب الرحمن اور الطاف حسین جیسے لیڈر پیدا ہو جائیں تو اسے بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ افسوس یہ ہے کہ اس کا احساس‘ اس وقت ہوتا ہے جب نتیجہ نکل آتا ہے۔ مجیب الرحمن پاکستان کے ایک لیڈر تھے۔ ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ پاکستان کے حوالے سے لیا جائے گا۔ انہوں نے جس نئے ملک کی بنیاد رکھی‘ اس میں وہ چند سال بعد قتل کر دیے گئے۔ ان کی داستانِ حیات دو لفظی ہے: سقوطِ ڈھاکہ اور قتل۔ بنگلہ دیش کی موجودہ ترقی میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔
مشرقی پاکستان کے باب میں دو سوالات نے مجھے ہمیشہ بے چین رکھا: وہ کیا اسباب تھے جنہوں نے اس حادثے کو جنم دیا؟ شیخ مجیب الرحمن کیا ملک دشمن سیاستدان تھے؟ بہت سے تجزیہ کاروں اور مؤرخین نے ان سوالات کو اپنی تحقیق اور مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ الطاف حسن قریشی ان میں سے ایک اور سب سے نمایاں ہیں۔ پہلے سوال کا جواب انہوں نے کتاب کے مقدمے میں دے دیا ہے۔ کتاب کے سینکڑوں صفحات‘ اس مقدمے کی تائید میں ناقابلِ تردید واقعاتی شہادتوں کا مجموعہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے مطالعے سے ''اس ماحول کی تیرگی کا بھی اندازہ ہو سکے گا جس میں تاریخ سے بے خبر حکمرانوں سے ہمالیہ ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں‘ جبکہ سیاستدان حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کے باوجوداپنی اَنا کے خول میں بند رہے۔ واقعات سے یہ بھی آشکار ہوا کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں جن پہ سالانہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں‘ وہ کس قدر حقائق سے دور اور فہم و فراست سے تہی دامن تھیں اور ان کے گمراہ کن تجزیے اور غلط معلومات‘ حکومت کی تباہ کن پالیسیوں کی اساس بنیں۔ یہ دل خراش حقیقت بھی انتہائی خوفناک شکل میں ظاہر ہوئی کہ طاقت کا اندھا دھند استعمال معاشرے میں انارکی پھیلاتا‘ بھائی کو بھائی کا دشمن بناتا اور سلامتی کے راستے بند کر دیتا ہے‘‘۔
اب آئیے دوسرے سوال کی طرف۔ مجیب الرحمن کی شخصیت میرے لیے ہمیشہ معمہ رہی۔ میں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو وہ رخصت ہو چکے تھے۔ کتابوں ہی سے ان کے بارے میں جانا۔ کیا وہ پاکستان سے فی الواقع الگ ہونا چاہتے تھے؟ میں کبھی اس سوال کا حتمی جواب تلاش نہ کر سکا۔ کتابوں نے ان کے بارے میں متضاد تصورات کو جنم دیا۔ جناب الطاف حسن قریشی ہی نے ان کا ایک انٹرویو کیا تھا‘ جو جولائی 1969ء کے اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا۔ اس سے بھی کچھ اس طرح کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ پھر سقوطِ ڈھاکہ میں ان کا کردار کیا تھا؟
میرا احساس یہ ہے کہ وہ پاکستان توڑنا نہیں چاہتے تھے مگر ان کی دوکمزوریاں تھیں جن کا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا۔ ایک اقتدار کے حصول کی بے کنار خواہش۔ اس میں وہ منفرد نہیں۔ شاید ہی کسی سیاستدان کا دل اس سے خالی ہو۔ دوسرا جذبات کی سیاست۔ انہوں نے بنگالی نوجوانوں میں ہیجان اور نفرت پیدا کی۔ پھر وہ وقت آیا کہ قیادت ان کے ہاتھ سے نکل کر ہیجان کے ہاتھ میں چلی گئی اور وہ بے بس ہوگئے۔
قریشی صاحب نے جی او سی ڈھاکہ میجر جنرل خادم حسین راجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ''انہوں نے 6 مارچ 1971ء کی رات ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا کہ شیخ مجیب الرحمن کے دو قریبی ساتھی رات دو بجے شیخ مجیب کا پیغام لائے کہ اس پر انتہا پسندوں کی طرف سے مارچ کے جلسے میں آزادی کا اعلان کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے جبکہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہونا نہیں چاہتے۔ شیخ صاحب نے آپ سے درخواست کی ہے کہ فوج انہیں آج رات گرفتار کر لے تاکہ جلسے سے خطاب کی نوبت ہی نہ آئے... انہوں نے مجیب کا پیغام لانے والوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم ایسی صورت میں ٹینکوں پہ آئیں گے اور پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے والے کچل دیے جائیں گے‘‘۔
15اگست 1975ء کو شیخ مجیب الرحمن کا قتل ہو گیا۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے اس موقع پر ان کے زوال کے اسباب کی ایک فہرست بنائی جس کی تفصیل ستمبر کے ''اردو ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوئی۔ میں جب آج کے حالات کے تناظر میں اس فہرست کو دیکھتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔ ''احتجاج‘ آمرانہ طور طریقے کی حاکمیت‘ خطابت کے لہجے میں مبالغہ آمیز باتیں‘ غلط اعداد و شمار کے ذریعے عوام کے اندر منفی تحریک کی پرورش‘ فوج کے خلاف شدید نفرت‘ بیوروکریسی پر مکمل گرفت کا جنون‘‘ان کے زوال کے چند بڑے اسباب تھے۔
ایقان حسن قریشی نے جس محنت سے ان مضامین کو مرتب کیا ہے‘ وہ ان کی خوش ذوقی و سنجیدگی کا مظہر ہے۔ عبدالستار عاصم صاحب اور فاروق چوہان صاحب نے اس کو جس اہتمام سے شائع کیا‘ اس پر یہ ہمارے شکریے کے مستحق ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی مانع ہے ورنہ میں اس کتاب کی خوب صورت نثر کے چند نمونے بھی پیش کرنا چاہتا تھا کہ قریشی صاحب نے اردو صحافت کو جس طرح تجزیے اور ادب کے امتزاج سے متعارف کرایا‘ وہ انہی کا حصہ ہے۔ چند جملے مگر میں نقل کرنے سے رہ نہیں سکتا: ''ڈھاکہ کا موسم خنک اور خوش گوار تھا۔ اُودی گھٹائیں دبے پاؤں یوں چلی آ رہی تھیں جیسے یادوں کے قافلے اچانک دل کی پہنائیوں میں اتر آتے ہیں اور صبرو قرار کے کنول چن کر لے جاتے ہیں... وہ کنول جو آنسوؤں کی جھیل میں کھِلتے ہیں۔ دوشیزہ فطرت ابھی ابھی بن سنور کر باہر نکلی تھی۔ خبر نہیں اس کے عزائم کیا تھے۔ اچھے کیا ہوں گے؟ یوں سرِ بازار کون باہر نکلتا ہے؟ مشتاقانِ جمال خیر مقدم کے لیے آگے بڑھے اور پھر وہی منظر دیکھا جسے شاعر کی نگاہ ایک صدی پہلے دیکھ چکی تھی:
یاں لعلِ فسوں ساز نے باتوں میں لگایا
دے پیچ اُدھر‘ زلف اڑا لے گئی دل کو‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved