تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     25-03-2023

اسلام آباد میں جان و مال کی ارزانی

اسلام آباد میں انسانی جان کی قیمت ایک موبائل فون کے برابر ہے اور میں یہ بات پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ چند روز پہلے ہمارے سیکٹر جی 13میں 21سالہ حسنین عباس سے عشا کے بعد فون چھیننے کی کوشش کی گئی۔ اُس نے مزاحمت کی اور قتل کر دیا گیا۔ حسنین ڈینٹل سرجری کا طالب علم تھا، اس کے والد اسلام آباد میں ڈینٹل سرجن ہیں‘ تعلق فیصل آباد کے قصبے تاندلیانوالہ سے ہے۔ میں فاتحہ کے لیے گیا تو کہنے لگے: ہم لوگ 2014ء میں یہاں شفٹ ہوئے تھے‘ خیال تھا کہ اسلام آباد پاکستان کا محفوظ ترین شہر ہے۔
آج جرائم میں اسلام آباد کراچی کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ جرائم کے اعتبارسے آئی ٹین اور جی 13ٹاپ پر ہیں اور وجوہات سے پولیس خوب واقف ہے مگر تدارک کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ جی 13میں چھوٹے چھوٹے جرائم تواتر سے ہو رہے ہیں۔ علی الصباح لڑکے موٹر سائیکلوں پر آتے ہیں اور سیوریج کے ڈھکنے اور بچوں کے سائیکل تک اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ہو تو بجلی کے تار کاٹ لیے جاتے ہیں۔ G-13 میں پولیس سٹیشن بن چکا ہے لیکن جرائم کی شرح میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ جی 13کا ایک وفد آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان کو ملنے گیا تھا۔ میں بھی ملاقات میں موجود تھا۔ آئی جی صاحب کا کہنا تھا کہ اشرافیہ کے سیکٹرز میں جرائم نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ ستر فیصد جرائم جی اور آئی سیکٹرز میں ہوتے ہیں جہاں مڈل کلاس رہائش پذیر ہے۔ پوش علاقوں میں پرائیویٹ گارڈز ہیں‘ سکیورٹی کیمرے ہیں‘ لہٰذا مجرموں کا فوکس جی اور آئی سیکٹرز پر ہے۔ آئی جی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں اسلام آباد میں نووارد ہوں‘ ابھی صورت حال کو سٹڈی کر رہا ہوں لیکن اب تو یہ عذر بھی نہیں رہا۔ دارالحکومت کا رقبہ مختصر سا ہے لیکن جرائم پیشہ لوگوں کی جنت ہے کیونکہ چند کلو میٹر پر پنجاب اور خیبر پختونخوا شروع ہو جاتے ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام آباد پولیس کا معیار مطلوبہ لیول کا نہیں۔ آئی ٹین کے پاس ہی راولپنڈی کے وہ علاقے ہیں جہاں جرائم زیادہ ہیں مثلاً پیرودھائی‘ یہاں جرم کر کے راولپنڈی میں غائب ہونا آسان ہے اور وہ علاقے آئی جی پنجاب کے انڈر آتے ہیں‘ وہاں سے مجرم کو لانے میں قانون کو فالو کرنا پڑتا ہے۔ جی تیرہ کے ملحقہ سیکٹر جی 12 کو سی ڈی اے نے کئی سال پہلے از سر نو آباد کرنا تھا مگر یہ نہ ہو سکا۔ اس سیکٹر میں میرا آباد ا ور میرا جعفر کے گاؤں بھی ہیں۔ یہاں نہ گلیوں کے نمبر ہیں اور نہ مکانوں کے۔ کرائے باقی شہر کی نسبت بہت کم ہیں۔ کرایہ دار کو پولیس کے پاس اکثر رجسٹر بھی نہیں کرایا جاتا۔ یہاں اجنبی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ جرم کی تکمیل کے بعد غائب ہو جاتے ہیں‘ لہٰذا یہ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ پولیس افسران کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ہم یہاں آپریشن کریں گے، لیکن ایک دو آپریشن کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہاں چونکہ ووٹروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے‘ لہٰذا سیاست دان بھی ضرورت سے زیادہ صرفِ نظر کرتے ہیں لیکن اسلام آباد کے شہریوں کے لیے یہ علاقہ دردِ سر بن چکا ہے۔
اسلام آباد میں جرائم کے اعتبار سے 2021ء بدترین سال تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت حکومت کس کی تھی، لہٰذا جرائم کو کسی سیاسی پارٹی سے منسوب کرنا صحیح نہیں۔ جرائم پیشہ لوگ اپنے تحفظ کے لیے ہر صاحبِ اقتدار کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔2021ء میں عثمان مرزا کا کیس سامنے آیا‘ جو خواتین کی عریاں تصویریں بنا کر انہیں بلیک میل کرتا تھا۔ نور مقدم کا بہیمانہ قتل ہوا۔ ہمارے ہی سیکٹر کے ایک اور نوجوان اسامہ ستی کو اسلام آباد پولیس نے سفاکانہ طریقے سے کسی بے بنیاد شبہ کی بنا پر قتل کیا اور یہ اسلام آباد پولیس کی کمزور ٹریننگ کا شاخسانہ تھا۔ اب ثابت ہو چکا ہے کہ اسامہ شہید بے گناہ تھا‘ اس جرم میں ملوث پولیس اہلکاروں کو کیا سزا ہوئی‘ یہ مجھے معلوم نہیں۔ اسی سال اسلام آباد کی مصروف ترین ہائی وے پر وفاقی محتسب برائے ہراسگی کشمالہ طارق کے کاروں کے قافلے نے چار معصوم شہریوں کو کچل ڈالا۔ کسی کو سزا نہ ہوئی، مقتولین کے بے چارے لواحقین بھی خاموش ہو گئے۔ دراصل ہمارا نظام بہت مجرم فرینڈلی ہے۔ ایک قتل کے کیس کی شنوائی میں اوسطاً گیارہ سال لگتے ہیں۔ اکثر سزائے موت بھی عمر قید میں تبدیل ہو جاتی ہے اور قاتل جیل سے باہر آ جاتے ہیں۔ پھر چہ عجب کہ لوگوں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں قانون بنا کہ خواتین کے قتل کے علاوہ کوئی بھی جرم کریں‘ ان میں ضمانت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح نابالغ لڑکے‘ لڑکیاں بہت کم سزا پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چھوٹے جرائم میں اکثر نابالغ لڑکے ملوث پائے گئے ہیں۔ یہی وہ لڑکے ہیں جو اسلام آباد میں علی الصباح سیوریج کے ڈھکنے چوری کرنے نکلتے ہیں۔
پاکستان کے مقابلے میں خلیجی ممالک میں جرائم بہت کم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عدالتوں میں فیصلے جلد ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں فوجداری مقدمات میں وکیل نہیں کیا جا سکتا۔ مدعی خود عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ پاکستان میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وکلا ملزم کا دفاع کرنے کے علاوہ تاریخوں پر تاریخ لیے جاتے ہیں۔ قتل کا جرم ثابت ہونے کی صورت میں سعودی عرب میں سزائے موت ہوتی ہے‘ جو سرِعام دی جاتی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے افسر اکثر وسائل کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے متعدد سپاہی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد سڑک پر کھڑے گزرتی کاروں سے لفٹ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ نفری کی کمی کا عذر بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے میڈیا میں یہ بھی آیا تھاکہ پولیس کا ایک حصہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے گھروں میں اردلی کا کام کرتا ہے۔ نفری میں جوانوں کی جسمانی فٹنس بھی مشکوک ہے اور اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ پروفیشنل ازم کی کمی‘ اس پرمستزاد یہ کہ جب 14مارچ کو حسنین عباس کا قتل ہوا تو اسلام آباد پولیس‘ زمان پارک لاہور فتح کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھی۔
جی 13اور جی 14کے مکین اتنے پریشان ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ یہاں متعدد چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ کبھی کوئی ڈاکو پکڑا نہیں گیا‘ کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ خلیجی ممالک میں جرائم کی میڈیا میں تشہیر نہیں ہوتی؛ البتہ مجرم کیفرِ کردارتک پہنچتے ہیں تو پوری تفصیل بیان ہوتی ہے‘ اسی لیے وہاں جرائم بہت کم ہیں مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ اسلام آباد پولیس کی کارکردگی میرے ساتھ پیش آئے ڈکیتی کے اس وقوعے سے عیاں ہے جو مئی 2010میں ہوا تھا۔مسروقہ موبائل فونوں کی مدد سے ڈاکو ٹریس کر لیے گئے ان کا سرغنہ نصیر ولد مجنوں تھا جو اٹھمقام آزاد کشمیر کا رہائشی ہے‘ چار ڈاکوؤں میں سے ایک بشیر ولد اکبر گرفتار بھی ہوا مگر جلد ہی رہا ہو گیا۔ اڈیالہ جیل میں مَیں نے اور میری بیوی نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ جس دن اسلام آباد کی ایک عدالت سے اس کی ضمانت ہوئی‘ مجھے گولڑہ پولیس کی طرف سے اطلاع ہی نہ دی گئی کہ آج کیس لگا ہے۔
حسنین عباس شہید کے والد ڈاکٹر زاہد بتا رہے تھے کہ پولیس خاصی مستعدی سے کیس فالو کر رہی ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ پولیس شروع میں بڑی دلچسپی ظاہر کرتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔ کیس داخل دفتر ہوجاتے ہیں پھر ہم سوچنے لگتے ہیں کہ اگلے جہاں میں اللہ تعالیٰ مجرموں کو جہنم واصل کریں گے؛ البتہ زندہ قومیں اپنے مجرموں کو اسی دنیا میں سزا دلاتی ہیں‘ ہم زندہ قوم تھوڑی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved