تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     25-03-2023

کامیابی بھی تباہی لاتی ہے

سیمیول گولڈ فش (Samuel Goldfish) ہالی وُڈ کا نامور فلم میکر تھا۔ اس نے اپنے عروج کے دنوں میں کہا تھا ''ناکامی کی نسبت کامیابی لوگوں کو زیادہ تباہ کرتی ہے‘‘۔ ناکامی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتا ہے۔ دوسری طرف کامیابی ایسی میٹھی گولی ہے جو انسان کو خیالاتی دنیا میں لے جاتی ہے اور اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم کر دیتی ہے۔ ناکام لوگ گر کر سنبھل جاتے ہیں مگر جب کامیاب افراد گرتے ہیں تو ان کے لیے دوبارہ اٹھنا محال ہو جاتا ہے۔ کامیابی انسان کو مغرور، خود پرست اور گھمنڈی بنا دیتی ہے اور وہ ہر اس شے کی جستجو کرتا ہے جو اس کی نہیں ہوتی۔ ہٹلر کے ساتھ کیا ہوا؟ اسے روس نے نہیں‘ اس کے تکبر نے تباہ کیا تھا۔ یورپ میں ملنے والی ہر فتح اسے بربادی کی طرف لے گئی۔ شداد، رومنز، سکندر یونانی، ہلاکو خان اور امیر تیمور بھی کامیابیوں کا زہر پیتے پیتے ختم ہو گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان‘ دونوں کو سوچنا ہوگا کہ جیت کا نشہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے۔ حکومتِ وقت کو طاقت کا خمار چین نہیں لینے دے رہا اور عمران خان کو عوامی حمایت نے بے کَل کیا ہوا ہے۔ دونوں ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ سیاست کے بدلے میں سیاست ہو رہی ہے اور نفرت کے جواب میں منافرت پھیلائی جا رہی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت اس نہج پر ہے کہ معیشت پنپنے کا نام لے رہی ہے نہ معاشرت کی سمت درست ہے۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو پنجاب میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کر دیے ہیں اور 8 اکتوبر کی نئی تاریخ دے دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ وفاقی وزارتوں (داخلہ، خزانہ اور دفاع)، آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب سے مشاورت کے بعد کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آئینی طور پر نوے روز میں انتخابات ناگزیر ہیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے الیکشن نہ کرانا انتہائی نامناسب عمل ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے یہ روایت ڈالی تو الٹی بھی پڑ سکتی ہے۔ ناقدین اعتراض کر رہے ہیں کہ اگر الیکشن ملتوی ہوئے تو آئندہ آنے والی ہر
حکومت ایسا ہی کرے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اعتراض درست نہیں ہے۔ آئینی طور پر اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے اور اس کے بعد عوام کو ایک بار پھر ووٹ کا آئینی حق استعمال کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے خان صاحب نے دو اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کر دی تھیں۔ میری فہم میں یہ آئینی سے زیادہ انتظامی مسئلہ ہے۔ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں فوری الیکشن ہو جاتے ہیں تو یہ مستقل دردِ سر بنا رہے گا۔ پانچ سال بعد دوبارہ ان کی آئینی مدت پہلے ختم ہو جائے گی‘ ہر بار دونوں صوبوں میں الیکشن چھ ماہ پہلے ہوں گے اور وفاق اور باقی دو صوبوں میں بعد میں۔ میری دانست میں جب کوئی آئینی شق دوسری شقوں کے مقابل آ جائے تو پھر اگر‘ مگر کی بحث کو جواز مل جاتا ہے‘ اسے آئین شکنی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہے۔ اگر اسمبلی کی پانچ سال کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی الیکشن کے لیے یہی عذر پیش کیے جاتے ہیں تو پھر یہ عوام کے بنیادی حقو ق کی خلاف ورزی ہو گی‘ جو سراسر آئین کی خلاف ورزی کہلائے گی۔
غور وغوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ الیکشن کمیشن کا الیکشن ملتوی کرنا آئین شکنی نہیں ہے۔ جب وفاقی حکومت اور دیگر ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے تو تنہا الیکشن کمیشن کیا کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن آر اوز کہاں سے لائے گا؟ سکیورٹی کے معاملات کیسے فول پروف ہوں گے؟ وزارتِ خزانہ پیسے نہیں دے گی تو خرچے کیسے پورے کیے جائیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ اس کا کوئی حل نکال لے مگر اس کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ آ پ سوئے ہوئے کو جگا سکتے ہیں‘ مگر پہلے سے جاگے ہوئے کو کیسے جگائیں گے؟ جب حکومت الیکشن نہ کرانے کا فیصلہ کر چکی ہے تو پھر ہر طرح کے جواز گھڑے جائیں گے، لاکھ بہانے بنائے جائیں گے مگر الیکشن کمیشن کی معاونت نہیں کی جائے گی۔ پنجاب اور کے پی میں الیکشن سیاسی جماعتوں کی اناؤں کا مسئلہ ہے۔ اگر دونوں طرف سے انا اور ضد کی قربانی دے دی جائے تو مل بیٹھ کر کوئی حل نکالا جا سکتا ہے‘ ورنہ جیسے ساڑھے گیارہ ماہ گزرے ہیں‘ ویسے ہی باقی ماندہ پانچ ماہ بھی گزر ہی جائیں گے۔ حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہو گا۔ چلیں! آپ کو کچھوے اور خرگوش کی کہانی سناتاہوں۔ سب نے سنی ہوگی مگر ادھوری۔ شاید یہ کہانی سن کر ہمارے سیاسی اکابرین کوئی سبق حاصل کر لیں اور ملک اس سیاسی گرداب سے باہر نکل آئے۔
کچھوے اور خرگوش کی کہانی کے چار حصے ہیں اور چار اسباق۔ کچھوا اور خرگوش ریس لگاتے ہیں‘ خرگوش حد سے زیادہ پُراعتماد ہوتا ہے‘ وہ راستے میں سو جاتا ہے اور کچھوا آگے نکل جاتا ہے اور ریس جیت جاتا ہے۔ اس کہانی کا سبق ہے کہ آپ مسلسل جدوجہد کرتے رہیں تو ایک دن کامیاب ہو جائیں گے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ خرگوش اپنی ہار دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوتا ہے اور ایک بار پھر کچھوے سے ریس لگانے کا کہتا ہے۔ اس بار خرگوش اپنی غلطی کو دھیان میں رکھتا ہے اور مسلسل دوڑتا رہتا ہے اور آسانی سے ریس جیت جاتا ہے۔ خرگوش کی جیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر پرانی غلطیاں نہ دہرائی جائیں تو کامیابی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ تیسرا حصہ‘ کچھوا خرگوش کو کہتا ہے ایک مرتبہ پھر ریس لگاتے ہیں مگر وہ راستہ تبدیل کر دیتا ہے۔ خرگوش دوڑ لگاتا ہے مگر تھوڑی دور جا کر اسے رکنا پڑ جاتا ہے کیونکہ سامنے ندی آ جاتی ہے۔ کچھوا پیچھے سے آتا ہے اور آرام سے ندی پار کر لیتا ہے اور ریس جیت جاتا ہے۔ اس کہانی سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اپنی طاقت‘ اپنی فیلڈ اور دوسرے کی کمزوریاں دیکھ کر حکمت عملی بنانی چاہیے۔ چوتھا حصہ‘ اس کے بعد کچھوا اور خرگوش دونوں دوستانہ میچ کھیلتے ہیں۔ ریس کے لیے وہی ندی والا راستہ چُنا جاتا ہے۔ زمینی راستے پر کچھوا خرگوش کے اوپر سوار ہو جاتا ہے اور ندی میں خرگوش کچھوے کے اوپر سفر کرتا ہے۔ یوں انتہائی کم وقت میں دونوں اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں اور کسی کو بھی ہزیمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ کچھوے اور خرگوش کی آخری ریس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اگر مل جل کر‘ ٹیم ورک کے ساتھ کام کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہرا نہیں سکتی۔
کاش! کوئی جائے اور وزیراعظم شہباز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت ملک کی سیاسی قیادت کو کچھوے اور خرگوش کی مکمل کہانی سنائے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ہمارے مسائل کا حل کیا ہے۔ ہمارے معاشی، سیاسی، آئینی اور معاشرتی بحرانوں کی وجہ یہ ہے کہ ہم حد سے زیادہ پُراعتماد ہیں، اپنی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں، اپنی طاقت‘ اپنی فیلڈ‘ اپنے پلس پوائنٹس دیکھ کر منصوبہ بندی نہیں کرتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہماری سرشت میں ہی نہیں ہے۔ جب تک ہم مذکورہ کہانی کے چاروں اسباق کو اپنا نصب العین نہیں بنائیں گے‘ ہماری ناؤ پار کیسے لگے گی؟ الیکشن پر چھائی دھند کیسے چھٹے گی؟ آئینی اور سیاسی بحران کیسے حل ہوں گے؟ عدالتی فیصلوں کا احترام کیسے ممکن ہو گا؟ سارے ادارے اپنی آئینی حدود میں کیسے رہیں گے؟ معیشت کیسے بہتر ہو گی اور مہنگائی کیسے کم ہو گی؟ آئی ایم ایف سے چھٹکارا کیسے نصیب ہو گا؟ روپے کی بے قدری کیسے رکے گی اور بے روزگاری کا ناگ کیونکر ڈسنا بند کرے گا؟
شہباز حکومت اور عمران خان کو اگر ملکی مفاد عزیز ہے تو انہیں کامیابیوں کے خمار سے باہر آنا ہو گا۔ یہ وقتی چیزیں ہیں۔ ان پر اتنا اترانا نہیں چاہیے۔ ملک کے مسائل اب بھی حل ہو سکتے ہیں اگر دونوں جماعتوں کے سربراہان مل بیٹھ کر بات کریں۔ گفت و شنید سے راہ میں حائل سنگِ گراں بھی پگھلائے جا سکتے ہیں‘ الیکشن کی متفقہ تاریخ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved