میں نے فیلڈ رپورٹنگ کا آغاز عدالتِ عالیہ سے کیا تھا لہٰذا صحافتی پیشے کے دوران سب سے بہتر اور دیرینہ تعلقات سینئر وکلاء حضرات سے رہے‘ جن میں سے متعدد سینئر قانون دان لاہور ہائیکورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان (جسٹس) بھی بنے۔ ان میں سے کچھ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور کچھ اس وقت بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کورٹ رپورٹنگ کے ابتدائی ایام میں انہی سینئر وکلاء نے ہمیں عدلیہ کے احترام کا درس دیا تھا۔ انہوں نے ہی بتایا تھا کہ عدالت کے دروازے سے اندر داخل ہونا ہے تو کیسے تعظیم بجا لانی ہے، اس سے پہلے اپنا موبائل فون سائلنٹ کرنا ہے، عدالت میں اونچی آواز سے بات نہیں کرنی۔ عدالتی افسران ، عملے اور وکلاء سے خبر یا کیس کی معلومات اور تفصیلات کیسے لینی ہیں، کمرۂ عدالت میں کیسے بیٹھنا یا کیسے کھڑا ہونا ہے، نیز یہ کہ عدالت برخاست ہونے یا کیس کے بعد کس طرح 'الٹے قدموں کا استعمال کرتے ہوئے‘ کمرۂ عدالت سے باہر نکلنا ہے۔ ان سینئر وکلاء میں سے کئی شخصیات جب جسٹس کے منصب پر فائز ہو گئیں تو ان سے رابطے اور ملاقاتوں کے سلسلے بہت محدود ہو گئے کیونکہ یہی اس معزز منصب کا تقاضا ہے۔ پھر ان سے ہائیکورٹ بار اورڈسٹرکٹ بار کے کسی پروگرام یا کسی شادی کی تقریب میں ہی ملاقات ہوتی۔ جو قانون دان ہمیں عدلیہ کے وقار کا قدم قدم پر درس دیتے تھے‘ جب وہ خود ایک اہم مسند پر بیٹھتے ہیں تو ان سے زیادہ امید کی جاتی ہے کہ وہ عدالتی روایات پر دوسروں سے بھی زیادہ سختی سے عمل درآمد کرائیں گے۔ اس ساری تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بدقسمتی سے گزشتہ چند برس کے دوران دیکھا گیا ہے کہ عدالتی روایات کا احترام رفتہ رفتہ دم توڑتا جا رہا ہے اور اب کمرۂ عدالت میں عدالتی احترام کا خیال رکھا جاتا ہے نہ ہی خبروں اور تبصروں میں
آداب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت ہمیں عدالیہ کا وقار بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ان باتوں کا مقصد سائلین کے لیے بے جا سختی ہرگز نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب سے عدالتی روایات میں نرمی برتنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ تب سے عدلیہ کا احترام بھی ویسا نہیں رہا اور قانون شکنی و توہین عدالت کے کیسز میں بھی آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس کسی (خصوصاً سیاست دانوں) کا دل کرتا ہے‘ وہ اعلیٰ عدلیہ پر تنقید کے نشتر برسانے لگتا ہے، اپنی پسند کے فیصلے نہ آنے پر بے جا تنقید اور عدالت کی توہین کی جاتی ہے، عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے، نوٹسز کی پروا نہیں کی جاتی، یہاں تک کہ جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس وقت تک جواب نہیں دیا جاتا جب تک عدالت سے وارنٹ جاری نہ ہو جائیں۔ جب سیاسی قیادت ایسا رویہ اپنائے گی تو پھر عوام سے عدالتوں کے احترام کی امید کیونکر وابستہ کی جائے گی؟ جب عدلیہ کا احترام ہی نہیں ہو گا تو عدالتی فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کیسے ہو گا؟ اور جب عدالتی احکامات پر سو فیصد عمل درآمد نہیں ہو گا تو پھر آئین و قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہو سکے گی؟ اگر ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی نہیں رہے گی تو پھر خدانخواستہ معاشرتی نظم باقی نہیں رہے گا اور یہ معاشرہ کسی جنگل کا منظر پیش کرنے لگے گا۔
چند روز قبل ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ایک آئینی ادارہ ہے‘ جسے آڈیو ٹیپس کے ذریعے بدنام کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم صبر اور درگزر سے کام لے رہے ہیں مگر آئینی ادارے کا تحفظ کریں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آڈیو اور وڈیو لیکس میں بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ان آڈیو‘ وڈیو کلپس میں کیا صداقت ہے؟ آئینی اداروں کو بدنام کرنے والے ان کلپس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس نے میرے جیسے ایک کارکن صحافی‘ جو ہمیشہ اپنے کالموں میں عدلیہ کے وقار اور احترام کی بات کرتاہے‘ کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخرکار نوبت یہاں تک کیوں اور کیسے پہنچی؟ شاید اس میں کسی حد تک عدلیہ کی جانب سے برتی جانے والی نرمی کا بھی حصہ ہے کیونکہ جب تک معزز جج صاحبان عدالتی روایات پر سختی سے عمل درآمد کراتے تھے‘ سب توہینِ عدالت کے ارتکاب سے ڈرتے تھے اور عدلیہ کا احترام بھی کرتے تھے۔ کمرۂ عدالت میں کوئی اونچی آواز سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا اور عدالت سے نکلنے کے لیے الٹے قدموں کا استعمال بھی رائج تھا لیکن بدقسمتی سے اب یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بنتا جا رہا ہے بلکہ بن چکا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ عدلیہ کا دکھ سو فیصد درست ہے اور ایسا ہرگز نہیں ہونا
چاہئے۔ ایسی چیزوں کی سختی سے روک تھام ہونی چاہئے لیکن ساتھ یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہو گا؟ سوچتا ہوں کہ جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس (ر) ثاقب نثار کی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی‘ یا چیئرمین نیب کی جو وڈیو لیک ہوئی تھی‘ اگر اسی وقت ان کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا گیا ہوتا اور تمام حقائق چاہے عوام کے سامنے نہ لائے جاتے لیکن ان کی تہہ تک پہنچ کر یہ معلوم کر لیا جاتا کہ آڈیو‘ وڈیو کس نے‘ کیوں‘ کیسے اور کس مقصد کے لیے لیک کی ہیں‘ کس نے انہیں ریکارڈ کیا ہے‘ کیا یہ آڈیو‘ وڈیو اصلی ہیں‘ یا صرف اداروں اور مخصوص شخصیات کو بدنام اور بلیک میل کرنے کے لیے ایڈیٹ کی گئی ہیں‘ اگر اُسی وقت ان لیکس کے کرداروں اور ذمہ داروں کو تلاش کیا جاتا‘ غیر جانبدارانہ انکوائری ہو جاتی تو شاید اس کے بعد یہ سلسلہ چل نہ نکلتا۔ اس کے بعد جب ایک سابق جج کی ایک وڈیو سامنے آئی تو اس وقت بھی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرکے عدلیہ کے وقار کو مزید بلند کیا جا سکتا تھا۔ جب ایسا نہ ہوا تو توہینِ عدالت کے کئی کیسز سامنے آنے لگے لیکن یہاں بھی ایک تفریق سامنے آ گئی جو میرے خیال میں نہیں ہونی چاہئے تھی۔ بعض کیسز میں توہینِ عدالت پر غیر مشروط معافی کے باوجود سزا سنائی گئی اور بعض میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کے باوجود راستہ فراہم کیا گیا۔ گزشتہ دنوں کچھ ایسی آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں‘ جن کو جج صاحبان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ ان پر بارکونسل نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کر رکھا ہے لیکن ابھی تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی اور نہ ہی ان آڈیوز کی فرانزک رپورٹ حاصل کی گئی ہے۔ اب سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری کی ایک وڈیو سامنے آئی ہے جس میں مختلف اعلیٰ شخصیات پر الزامات لگائے جا رہے ہیں اور اسی تناظر میں جناب چیف جسٹس نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ ریمارکس دیے ہیں۔ یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی آڈیو‘ وڈیو لیکس کسی عدالتی فورم پر قابلِ قبول نہیں ہیں، حساس مقاصد کے لیے کسی کی بھی آڈیو، وڈیو کی ریکارڈنگ سے پہلے عدالت سے خصوصی اجازت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اسی طرح غیر قانونی طور پر کسی کی آڈیو‘ وڈیو کو ریکارڈ کرنا یا اسے لیک کرنا ایک سنگین جرم ہے۔
قانون کی حکمرانی کے لیے عدلیہ کا احترام بہت ضروری ہے لیکن یہ بھی انصاف کا تقاضا اور بنیادی اصول ہے کہ ترازو کے پلڑے ہر کسی کے لیے برابر ہوں۔ اس وقت ملک میں عدلیہ ہی ہم سب کی امیدوں کا آخری مرکز ہے۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ مذکورہ بالا الزامات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے کر حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں اور جو بھی قصوروار ہو، ان کے بارے میں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کر کے عدلیہ کے وقار کو بلند کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات عدالتی روایات کی‘ تو ان پر عمل درآمد معزز جج صاحبان ہی کرا سکتے ہیں کیونکہ جب تک آئین و قانون کے ساتھ عدالتی روایات پر عمل نہیں ہوگا اس وقت تک توہینِ عدالت کے واقعات سامنے آتے رہیں گے۔ اس حوالے سے سیاسی رہنما اور میڈیا بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ عدالتی روایات کی بحالی اور ان پر سو فیصد عمل درآمد کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی جائیں گی اور تمام فریق قانون کی حکمرانی کے لیے ان پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved