تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-03-2023

ہماری سیاست میں سب چلتا ہے

چلیں جی الیکشن کی بلی بھی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ یہ بلی ابتدا سے ہی تھیلے میں بری طرح کلبلا رہی تھی اور باہر آنے کیلئے بے چین تھی‘ سو اب یہ باہر آ ہی گئی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر کئی دن سے یہ اندازہ ہو چلا تھا کہ میری خواہش اور سابقہ اندازوں کے برخلاف دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہونا اب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ چار چھ روز قبل تک تو یہ محض قیاس تھا جو حالات کو دیکھتے ہوئے لگایا تھا لیکن چند روز قبل جب میری ملاقات اپنے ایک دوست سے ہوئی جو پیپلز پارٹی کی طرف سے ان ملتوی ہو جانے والے انتخابات میں ایک حلقے سے امیدوار تھا تو یہ قیاس یقین کے قریب آن لگا ہے۔ قارئین! آپ یقین کریں‘ یہ کوئی فرضی کردار نہیں جو محض کالم میں رنگ بھرنے اور اپنی بات کو آگے بڑھانے کیلئے بھرتی کیا گیا ہے بلکہ یہ ایک حقیقی کردار ہے تاہم دوستی کا تقاضا ہے کہ اس کا نام کالم کی زینت نہ بنایا جائے لہٰذا اس کا نام نہیں لکھ رہا۔
اس روز وہ اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا کر میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ میرے خیال میں الیکشن ہو رہے ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا: جیسے جیسے عمران خان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ الیکشن ہونے کے امکانات اسی حساب سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے آپ کو راجن پور کے حلقہ این اے 193کے نتیجے کے بعد کہا تھا کہ اب مجھے فوری الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ آج پھر آپ سے یہی کہہ رہا ہوں کہ بھلے آپ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا آئے ہیں‘ مجھے ان کے انعقاد کے بارے میں شک ہے۔ میرا وہ دوست کہنے لگا کہ میں ابھی گیلانی ہاؤس سے آ رہا ہوں۔ میری سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ نے کاغذات تو جمع کروا دیے ہیں‘ اب آپ ٹکٹ کیلئے پارٹی کے جاری کردہ فارم کو پُر کرکے بھجوا دیں‘ تاہم الیکشن اب نہیں بلکہ پانچ چھ ماہ بعد ہوں گے اور قومی و تمام صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ساتھ ہوں گے۔ میں نے اپنے دوست کو کہا کہ یہ یوسف رضا گیلانی کے اندازے یا خواہش سے اگلی سٹیج کی بات لگتی ہے۔ وہ جس اعتماد سے آپ کو بتا رہے تھے‘ اس سے صاف لگتا ہے کہ یہ بات کہیں نہ کہیں طے ہو چکی ہے اور فیصلہ ساز ایک مزید احمقانہ فیصلے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل ہر آنے والا دن جس طرح عمران خان کی مقبولیت کا تختہ کر رہا تھا اور عمران خان کی غیرمقبولیت میں اضافہ کر رہا تھا اب ہر آنے والا دن عمران خان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ یعنی سائیکل بالکل ہی الٹا چل پڑا ہے۔ ان حالات میں منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں اور حواس مختل ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ انہوں نے کیا کر دیا ہے اور اس سے زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ کیا کریں؟ ان کی ساری تدبیریں ان کیلئے مصیبت بن چکی ہیں اور جس طرح ان دنوں عمران خان کی ہر الٹی بات اور غلط تدبیر ان کیلئے مقبولیت کا نیا در وا کرتی ہے‘ اسی طرح منصوبہ سازوں کا ہر منصوبہ اور ہر تدبیر ان کے گلے پڑ رہی ہے۔
بقول شاہ جی‘ افراتفری اور حواس باختگی کا یہ عالم ہے کہ الیکشن ملتوی کرنے کے اعلان والے دن زبردستی رمضان کے آغاز کا اعلان کرکے حسب معمول قوم کو ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھلا چاند رات دس بجے کے بعد رویت ہلال کمیٹی والوں کے چوبارے کے علاوہ اور کہاں چڑھتا ہے؟ ابھی تو رویت ہلال کمیٹی والے جلدی میں تھے اور افراتفری میں چاند چڑھا کر رات گیارہ بجے گھر چلے گئے‘ اگر وہ تھوڑی دیر اور بیٹھتے تو وہ یقینا سورج بھی چڑھا لیتے۔ انہوں نے جن مقامات پر چاند دیکھنے کا اعلان کیا ہے ان میں سے کم از کم ہمارے جاننے اولے کسی مقامی فرد نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ تراویح پڑھ کر فارغ ہوئے تو عید کا اعلان ہو گیا۔ اب اس سال تراویح کا وقت نکل گیا تو روزے کا اعلان ہو گیا۔ میرا خیال ہے حکومت نے سوچا ہوگا کہ پچھلے والی تراویح ضائع نہ ہو جائیں انہیں اس سال استعمال کر لیا جائے۔
حکومت الیکشن سے گھبرائی ہوئی تھی اور اسے کسی نہ کسی بہانے ملتوی کرنے میں لگی ہوئی تھی اور بالآخر وہ اسے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ملتوی کرنے میں (فی الحال) کامیاب بھی ہو گئی ہے مگر اسے شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ جس طرح عمران خان کی حکومت کے آخری دنوں میں ان کی مقبولیت سخت مراجعت کی طرف گامزن تھی اور ہر آنے والا دن ان کی نامقبولیت میں اضافہ کر رہا تھا‘ اسی طرح اس حکومت کا ہر آنے والا دن اس کیلئے برا ثابت ہو رہا ہے اور وہ ناپسندیدہ تر سے ناپسندیدہ ترین کے درجے کی طرف رواں ہے۔ ایسے میں الیکشن کا التوا بہرحال ان کیلئے کسی قسم کا کوئی سیاسی ریلیف یا بہتری کی صورت پیدا نہیں کر سکے گا۔ انہیں اب کوئی پلان بی اور سی بنانا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ پلان بی یا سی عمران خان کی نااہلی سے لے کر ان کے جیل جانے تک ہو سکتے ہیں لیکن اب معاملہ اس سے کہیں آگے جا چکا ہے۔
جس طرح نااہلی میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) پر گرفت کم نہیں کر سکی‘ اسی طرح عمران خان کی متوقع نااہلی کی خوش فہمی میں مبتلا دن کو سپنے دیکھنے والوں کیلئے عرض ہے کہ نااہلی کی صورت میں عمران خان تحریک انصاف کے قائد کے طور پر پارٹی پر اپنی پوری گرفت برقرار رکھیں گے اور سارے فیصلے انہی کی مرضی اور منشا سے ہوں گے اور کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوگی کہ ان فیصلوں پر اعتراض تو رہا ایک طرف چوں و چرا بھی کر سکے۔ حکومت سے فراغت کے بعد والا عمران خان تو ان سے پوری طرح سنبھالا نہیں جا رہا‘ نااہلی کے بعد عمران خان مزید بے خوف اور بے دھڑک ہو جائے گا۔ جیسے جیسے یہ عمران خان کو بے دست و پا کرنے کی کوشش کرتے جائیں گے ویسے ویسے عمران خان کے سر سے کسی چیز کے کھو جانے کا خوف ختم ہوتا جائے گا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلے گا اور اس کی جارحیت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
ہمارے فیصلہ سازوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ جمہوری سیاست میں کسی سیاستدان کو صرف ووٹ کے ذریعے مائنس کیا جا سکتا ہے اور ووٹ بھی وہ جو عوام نے صندوقچی میں ڈالے ہوں‘ ورنہ ریفرنڈم والے ووٹ جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف کو دوامی مقبولیت بخش دیتے۔ خان کی حالیہ مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ مظفر گڑھ کا سب سے بڑا شعبدہ باز سیاستدان جمشید دستی اپنے سابقہ مؤقف سے ایک سو اسی ڈگری کا ٹرن لیتے ہوئے زمان پارک جا کر عمران خان کی غیرمشروط بیعت کر چکا ہے۔ موصوف نے 3دسمبر 2020ء کو ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کو اس صدی کا سب سے جھوٹا انسان قرار دیتے ہوئے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ عمران خان نوجوانوں کو چرس اور ہیروئن پر لگا رہا ہے۔ بہاولپور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درفطنی چھوڑی کہ عمران خان جس کے گھر جاتے ہیں اس کا گھر تباہ کر دیتے ہیں۔
چند ماہ پہلے تک عمران خان کے بارے میں بدکلامی کرنے والے کو زمان پارک میں داخلہ مل گیا ہے اور اب خان صاحب کو جمشید دستی اور جمشید دستی کو خان صاحب منظور ہیں۔ جب اتنا کچھ ہونے کے بعد دونوں آپس میں راضی ہوں تو ہم بھلا کسی کو شرم دلوانے والے کون ہوتے ہیں؟ ہماری سیاست میں تو سب چلتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved