تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     26-03-2023

قانونی پیچیدگی یا انتظامی معاملہ؟

اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے یا اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں 90روز کے اندر عام انتخابات کا انعقاد آئینی و قانونی تقاضا ہے‘ نگراں حکومتیں پرامن اور شفاف انتخابات کو یقینی بناتی ہے‘ تاہم اس وقت صورتحال کئی اعتبار سے پیچیدہ ہو چکی ہے۔ دو صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات ہونے ہیں‘ اس پر سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے۔ اصولی طور پر الیکشن ہو جانے چاہئیں مگر وفاقی حکومت کی مدت پوری ہوئی ہے اور نہ ہی قومی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے اس لیے وفاق میں نگراں سیٹ اپ بھی قائم نہیں ہوا۔ خان صاحب دو صوبوں میں انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں‘ یہ ان کے مفاد میں ہے کیونکہ صوبوں میں بالخصوص پنجاب میں جس پارٹی کی حکومت قائم ہو گی تو اس کیلئے وفاق میں حکومت بنانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب آئین کے مطابق 90روز کے اندر الیکشن پر زور دے رہے ہیں۔ آئین کے اندر 90روز کے اندر الیکشن کی پابندی موجود ہے‘ لیکن انتظامی معاملات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سکیورٹی اور فنڈز کی فراہمی حکومت نے یقینی بنانی ہے‘ اگر صوبوں اور وفاق میں مکمل نگران سیٹ اَپ ہوتا تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہوتا لیکن صورتحال آئینی و قانونی سے زیادہ سیاسی اور انتظامی شکل اختیار کر چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن نے کرانا ہے جو خود مختار ادارہ ہے تاہم وہ فنڈز اور سکیورٹی کے معاملات میں حکومت کی طرف دیکھتا ہے اورحکومتی تسلی کے بعد ہی الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کے مطابق انتظامات کراتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو الیکشن کے انتظامات پہلے مرحلے میں حکومت سے متعلق معلوم ہوتے ہیں جبکہ انتخابات کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن سے متعلق ہو جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن کو لگا کہ اگر انتخابات کا انعقاد ہو گیا تو اس کی شفافیت کی ضمانت نہیں دی جا سکے گی‘ الیکشن کے بعد جو سوالات اٹھیں گے‘ ان سے بہتر ہے کہ الیکشن ملتوی کر دیے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218کا سہارا لیا ہے‘ جو شفاف‘ غیر جانبدار اور منصفانہ انتخابات کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک طرف آئین میں 90روزکا تقاضا موجود ہے جبکہ دوسری طرف منصفانہ انتخابات کا تقاضا بھی آئین میں موجود ہے‘ یوں یہ مسئلہ آئینی و قانونی سے زیادہ انتظامی و سیاسی نوعیت کا بن چکا ہے جسے آئینی و قانونی طریقے سے حل کرنے کی ایک کوشش کی جا چکی ہے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن کمیشن نے بعض متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد انتخابات ملتوی کرکے اکتوبر میں کرانے کی تاریخ دے دی۔
خان صاحب سیاسی معاملات کو عدالتوں میں حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں‘ جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وہ صدر مملکت کے عہدے کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھا ہے کہ وہ متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔ صدر مملکت نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد مقررہ مدت کے دوران الیکشن کرانا آئینی ذمہ داری ہے۔ صدر مملکت نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ آئین کے تحت وفاقی اور صوبائی حکام کا فرض ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو ان کے فرائض کی انجام دہی میں مدد کریں اور میری رائے میں متعلقہ حکام اور سرکاری محکموں نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ یہ سیاسی حالات اور فیصلے صدر مملکت کے منصب کو حکومت کے سامنے لے آئے ہیں‘ صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط کی آئینی اور قانونی حیثیت کیا ہے‘ اس بحث میں پڑے بغیر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایگزیکٹوز کے اختیارات کیا ہیں۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بیان دے دیا ہے کہ حکومت ایک ہی تاریخ کو انتخابات چاہتی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر میثاقِ معیشت کی بات کی ہے کہ معاملات کو سیاسی انداز میں حل کیا جائے‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کے اختیارات پارلیمنٹ کے مرہونِ منت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں سیاسی‘ انتظامی اور عدالتی بحران ہے‘ حکومت سیاسی بحران کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کا عندیہ دے چکی ہے‘ یہ کام پہلے کر لیا جاتا تو اس قدر بحران کی نوبت نہ آتی۔ اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں سیاسی بحران کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کیلئے کوشش کرتی ہیں تو کیا تحریک انصاف اس میں شریک ہو گی؟ پی ٹی آئی کے اراکینِ سینیٹ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک نہ ہو کر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ سیاسی بحران کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ چند دن پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ خان صاحب سیاسی مسائل کو حل کرانے کیلئے اپنی مرضی کا میدان سجا چکے تھے۔ سپریم کورٹ نے چونکہ آئین کو سامنے رکھ کر فیصلہ دینا ہے اور آئین 90روز میں الیکشن کی پابندی عائدکرتا ہے‘ اس لیے تحریک انصاف اپنے تئیں خوش تھی مگر اب صورتحال نے پلٹا کھایا ہے‘ حکومتی جماعتوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ تمام اداروں کی رہنمائی کرے۔ خان صاحب کے مقابلے میں حکومت نے بظاہر اپنی مرضی کا میدان سجا لیا ہے‘ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مزید کچھ روز تک چلے گا‘ حتمی فیصلہ ہوتے ہوئے کچھ دن گزر جائیں گے‘ اس کے بعد اگر اعلیٰ عدلیہ کوئی حکم جاری کرتی ہے تو آئینی و قانونی بحث شروع ہو جائے گی۔
حکومت اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کر چکی ہے۔ جولائی 2022ء میں جب سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو غلط قرار دیا تھا تو وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کیلئے ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی‘ اس ضمن میں متفقہ قرار داد بھی منظور کی گئی تھی جس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 175اے کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کی توثیق پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی ایک ٹویٹ میں آئین کے آرٹیکل 191کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی تھی۔ آئین میں انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کی تقسیم موجود ہے مگر ہر کچھ عرصہ کے بعد آئین کی تشریح کیلئے اہلِ سیاست سیاسی معاملات کو ایوان کے اندر حل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ لے جاتے ہیں‘ کیا یہ اہلِ سیاست کی ناکامی نہیں ہے؟ اس وقت الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے آئینی پیچیدگی سے زیادہ انتظامی معاملہ ہے جسے تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر حل کر سکتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ ایسے میں اگر الیکشن ہو بھی جاتے ہیں تو ملک و قوم کو ان کا فائدہ ہو گا اور نہ ہی انارکی ختم ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved