تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     26-03-2023

نمازِ تراویح میں تلاوت ہونے والے پارے کا تفسیری خلاصہ

پانچویں پارے کے شروع میں محرماتِ قطعیہ کے تسلسل میں یہ بھی بتایا کہ جب تک کوئی عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہے‘ اس سے نکاح حرام ہے، یہاں تک کہ اگر شوہر نے طلاق دے دی ہو تو عدت کے اندر نکاح اور واضح الفاظ میں نکاح کا پیغام دینا بھی حرام ہے۔ البتہ عدت کے بعد عورت اپنی رضامندی سے دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔ آیت 29 میں بتایا کہ باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھانا حرام ہے اور باہمی رضامندی سے تجارت جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی جائز ہے۔ اسی طرح ہبہ اور وراثت کے ذریعے جو مال ملے وہ بھی جائز ہے‘ مگر جوا‘ سٹہ‘ غصب‘ چوری‘ ڈاکا‘ خیانت‘ رشوت‘ جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی کے ذریعے دوسروں کا مال حاصل کرنا حرام ہے۔ جو شخص ظلماً دوسروں کا مال کھائے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ آیت 32 میں حسد کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے کسی کو مال‘ عزت یا مرتبے میں فضیلت دے رکھی ہے تو اس کے زائل ہونے کی تمنا نہ کرو‘ کیونکہ یہی حسد ہے جو حرام ہے‘ کسی کے ساتھ حسد کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو‘ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''مرد عورتوں کے منتظم اور کفیل ہیں‘ کیونکہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے (بھی) کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے ہیں (یعنی شوہر مہر بھی ادا کرتا ہے اور بیوی بچوں کی کفالت بھی اس کے ذمے ہے)‘‘ آیت 37 میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا حکم فرمایا اور شرک (کی تمام صورتوں) کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس کے بعد حقوق العباد کا بیان ہوا اور فرمایا کہ ماں باپ‘ قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ پڑوسیوں‘ مسافروں اور اپنے ما تحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو‘ پھر پڑوسیوں کی درجہ بندی کی۔ آیت 37 تا 40 میں بُخل اور رِیا کاری کی ممانعت کا حکم ہے اور فرمایا کہ جس کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو وہی رِیاکاری کر سکتا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا اور نیکی کا اجر دُگنا فرما دیتا ہے۔ آیت 45 میں نماز کے چند مسائل بیان فرمائے۔ آیت 46 میں یہودیوں کی ایک قبیح خصلت کا ذکر ہے کہ وہ کلامِ الٰہی میں تحریف کرتے ہیں۔ آیت 48 میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کے گناہ کو کسی صورت میں معاف نہیں فرماتا‘ اس کے علاوہ وہ جس کیلئے چاہے‘ اس سے کم تر گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ آیت 58 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ امانتیں ان کے حق داروں کو دو اور جب فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ آیت 59 میں فرمایا: ''اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں‘ ان کی اطاعت کرو‘‘۔ اس میں اللہ عزّوجل اور رسولِ مکرمﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم ہے اور اہلِ اقتدار کی اطاعت مشروط ہے۔ اگر اہلِ اقتدار کے ساتھ کسی معاملے کے جائز یا ناجائز ہونے کی بارے میں اختلاف ہو جائے تو فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا۔
آیات 60 تا 63 میں منافقین کی مکروہ چالوں اور دو رُخے پن کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اہلِ ایمان کیلئے ایک ایمان افروز نوید ہے۔ آیت 65 میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کو آپس کے جھگڑوں میں حاکم نہ بنائیں اور پھر آپ جو فیصلہ صادر فرما دیں اسے دل و جان سے قبول نہ کریں (یعنی رسول اللہﷺ کے فیصلے پر دل میں بھی کوئی تنگی اور ملال نہیں آنا چاہیے) تو وہ بظاہر ایمان کے دعوے کے باوجود حقیقت میں مومن نہیں ہو سکتے۔ آیت 69 میں فرمایا: جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ جو انبیاء‘ صدیقین‘ شہدا اور عباد الصالحین ہیں۔ اس کے بعد جہاد کے بارے میں احکام‘ ہدایات اور کامیابی کی بشارتیں ہیں۔ آیت 76 اور اس کے بعد والی آیات میں بتایا کہ منافق اور بزدل لوگوں کو جب جہاد کی دعوت دی جاتی ہے تو جان جانے کے خوف سے ان کے دل لرز جاتے ہیں اور وہ زندگی کی مہلت چاہتے ہیں۔ آیت 86 میں معاشرتی آداب بتائے گئے کہ جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو (جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ) یا کم ازکم انہی الفاظ میں جواب دو (جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے: وعلیکم السلام)۔ زمانۂ جنگ میں مسلمانوں کو کئی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا: (الف) وہ منافقین جو دل سے مسلمانوں کی تباہی اور ناکامی چاہتے تھے‘ ان کیلئے فرمایا کہ نہ تو انہیں اپنا دوست بنایا جائے اور نہ ان کے ساتھ کوئی رعایت برتی جائے‘ بلکہ ان کا قلع قمع کر دیا جائے۔ (ب) کچھ لوگ وہ تھے جو جنگ سے گریز چاہتے تھے‘ نہ مسلمانوں سے لڑنا چاہتے تھے اور نہ اپنی قوم کی حمایت میں لڑنا چاہتے تھے یا وہ ایسی قوم کے پاس چلے جاتے‘ جن کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ نہ کرنے کا معاہد ہ ہے‘ تو قرآن نے بتایا: اگر وہ جنگ سے کنارہ کش ہو جائیں اور مسلمانوں سے نہ لڑیں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام دیں تو مسلمانوں کو بھی ان سے تعرُّض نہیں کرنا چاہیے۔ (ج) منافقین کا ایک گروہ وہ تھا جو مسلمانوں اور اپنی قوم دونوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا تھا لیکن ان کی باطنی کیفیت یہ تھی کہ اگر ان کی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جائے‘ تو وہ اس میں کود پڑیں، تو قرآن نے بتایا: اگر وہ مسلمانوں سے الگ نہ ہوں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام نہ دیں اور موقع ملنے پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے اپنا ہاتھ نہ روکیں تو مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ موقع ملنے پر ان کا قلع قمع کر دیں۔ آیت 92 میں قتلِ خطا کا حکم بیان ہوا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر ارادی طور پر غلطی سے کسی مسلمان کا قتل ہو جائے تو اس کی تلافی کیلئے کفارہ بھی دینا ہوگا اور مقتول کے ورثا کو دیت بھی دینی ہو گی‘ سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثا دیت معاف کر دیں۔ آیت 93 میں قتلِ عمد یعنی ارادی طور پر کسی بے قصور انسان کی جان کو تلف کرنے کا حکم بیان کیا گیا۔ آیت 95 میں یہ بتایا کہ جو لوگ جہاد سے کنارہ کش ہیں‘ ان کا درجہ ان کے برابر نہیں ہو سکتا جو اپنی جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں۔ آیت 101 اور بعد کی آیات میں مسافر کیلئے نماز میں قصر کا حکم بیان ہوا ہے‘ فقہ حنفی میں مسافتِ سفر کی مقدار 98 کلومیٹر ہے۔ نماز اور جماعت اتنا لازمی فریضہ ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی ساقط نہیں ہوتا‘ پھر فرمایا کہ جب تم نماز ادا کر چکو تو حالتِ قیام‘ حالتِ قعود اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے‘ یعنی ہر حال میں اللہ کو یاد کرو‘ اللہ کا ذکر کرو اور جب حالتِ جنگ ختم ہو جائے اور امن کی حالت ہو تو معمول کے مطابق نماز ادا کرو‘ بے شک نماز مومنوں پر وقتِ مقرر میں فرض کی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ جو کوئی گناہ کاکام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے‘ پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے‘ تو وہ اللہ کو غفور و رحیم پائے گا اور ہر شخص کی بداعمالیوں کا وبال اُسی پر آئے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اور جو شخص ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور تمام مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلے‘ تو ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیں گے‘جسے اُس نے خود اختیار کیا اور اُسے جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے‘‘۔ اس میں واضح طور پر وعید ہے کہ کسی شخص کا مسلمانوں کے اجماعی راہ سے ہٹ کر اپنے لئے الگ راہِ عمل متعین کرنا جہنم کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے پیروکاروں کیلئے جہنم کی وعید سنائی ہے اور مومنینِ کاملین کیلئے جنت کی بشارت دی ہے اور فرمایا کہ ہرصاحبِ ایمان مرد اور عورت جنہوں نے حالتِ ایمان میں نیک کام کیے‘ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اُس سے اچھا دین کس کا ہو گا‘جو اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے سپردکر دے‘ اور وہ نیکوکار ہو اور ملّتِ ابراہیم کا پیروکار ہو۔ آیت 135 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اے مومنو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کیلئے گواہی دینے والے بن جاؤ‘ خواہ (یہ گواہی) تمہاری ذات کے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف ہو (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب‘ اللہ اُن کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ پس(گواہی دیتے وقت) تم خواہش کی پیروی کر کے عدل سے رُوگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘۔ منافقین کی ایک علامت یہ بتائی کہ نماز میں سستی کرتے ہیں‘ نماز کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور صرف دکھاوے کیلئے نماز پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ کفر و ایمان کے درمیان متزلزل رہتے ہیں‘ اسی لیے فرمایا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved