تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     26-03-2023

انتخابات‘ آئی ایم ایف اور معاشی حالات

مریم نواز نے اپنی ایک تقریر میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ عمران خان کے پس پردہ حامیوں کو بے نقاب کرنے جا رہی ہیں۔ میرے نزدیک یہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔ عوام عمران خان کے بیانیے میں اس قدر محو ہیں کہ اکثریت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی مخالفین نے عمران خان پر سینکڑوں الزامات لگائے لیکن کوئی بھی سکینڈل ان کی ذات اور سیاست کو نقصان نہیں پہنچا پایا۔ اس وقت اصل مدعا انتخابات ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 30 اپریل سے بدل کر 8اکتوبر کر دی ہے۔ اس فیصلے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ حکومت سے مالی اور سکیورٹی سپورٹ نہ ملنا بتائی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ وزارتِ خزانہ کے مطابق ملک اس وقت معاشی بحران سے دوچار ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کرنی ہیں۔ ان حالات میں حکومت کے لیے کے پی اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے فنڈ جاری کرنا مشکل ہوگا۔
مالی بحران کو انتخابات معطل کرنے کی وجہ بنانا انتہائی نا مناسب اور غیر حقیقی دلیل دکھائی دیتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کروانے کیلئے تقریباً بیس ارب پچاس کروڑ روپے کا بجٹ درکار ہے۔ اگر قومی اسمبلی کی 93سیٹوں پر بھی ضمنی انتخابات کروانا ہوں تو مزید پانچ ارب روپے کی ضرورت ہو گی۔ اس طرح انتخابات کیلئے تقریباً پچیس ارب پچاس کروڑ روپے درکار ہیں۔ یہ رقم ٹوٹل بجٹ کا صرف 0.18فیصد ہے۔ اگر ٹوٹل بجٹ میں سے صرف 0.18فیصد خرچ کرنے سے مالی بحران شدید ہونے کا خطرہ ہے تو یقینا حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ ایک طرف سرکار نوجوانوں کیلئے ایک سو پچاس ارب روپے کا ڈویلپمنٹ بجٹ منظور کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ انتخابات کروانے کیلئے اس کے پاس ساڑھے پچیس ارب روپے نہیں ہیں۔ اگر حکومت انتخابات کروانے کیلئے سنجیدہ ہو تو نوجوانوں کیلئے مختص کیے گئے ایک سو پچاس ارب روپوں میں سے ہی ساڑھے پچیس ارب روپے انتخابات کیلئے الگ کیے جا سکتے ہیں اور نوجوانوں کو بہتر مستقبل دینے کیلئے ایک سو پچیس ارب روپوں سے بھی بہترین منصوبے شروع ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک ہو۔
حکومت نے حال ہی میں ایک تیل کمپنی کو ادائیگی کرنے کیلئے ستائیس ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی ہے لیکن انتخابات کے لیے اس کے پاس فنڈز نہیں۔ اس کے علاوہ اگر پچاسی رکنی کابینہ کے اخراجات اور پروٹوکول کو ہی کنٹرول کر لیا جائے تو انتخابات کے لیے فنڈز باآسانی نکل سکتے ہیں۔ بیوروکریسی کی شاہ خرچیوں میں کمی کرنے سے بھی انتخابات کیلئے فنڈز نکالے جا سکتے ہیں۔ ملک بھر کے سرکاری ملازمین کی صرف تین دن کی تنخواہ کاٹنے سے الیکشن بجٹ سے زیادہ فنڈز اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کی الیکشن کروانے کی نیت بھی ہو۔ فنڈز مہیا نہ کرنے کے حوالے سے آئی ایم ایف کی شرائط کو بھی وجہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف نے واضح بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان میں انتخابات ملک کا اندرونی معاملہ ہیں۔ آئی ایم ایف کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ایسی کوئی شرائط نہیں ہیں جو حکومت کو انتخابات سے متعلق آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکیں۔ پچھلے ایک ماہ میں آئی ایم ایف دوسری مرتبہ ایسا بیان جاری کیا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہتی ہے۔ اپنی ناکامی چھپانے اور آئین کے خلاف جا کر فیصلہ کرنے کیلئے آئی ایم ایف کو بطور ڈھال استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہی۔ 2008ء میں بھی ملک کی مالی حالت خراب تھی۔ خزانہ خالی تھا اور دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے چین اور سعودی عرب کے چکر لگ رہے تھے لیکن تب تو مالی بحران کو وجہ بنا کر انتخابات ملتوی نہیں کیے گئے تھے۔
انتخابات ملتوی کرنے کی ایک وجہ الیکشن کمیشن نے امن و امان کی خراب صورتحال کو بھی قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل ہونے میں 5ماہ لگیں گے۔ صرف پنجاب میں اس وقت 3لاکھ 86ہزار
623پولیس اہلکاروں کی کمی ہے اور صرف فوج اور رینجرز کی الیکشن میں تعیناتی سے ہی یہ کمی پوری ہو سکتی ہے لیکن وزارتِ داخلہ کے مطابق سول و آرمڈ فورسز سٹیٹک ڈیوٹی کیلئے دستیاب نہیں۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق فوج سرحدوں‘ اندرونی سکیورٹی‘ اہم تنصیبات کے تحفظ اور غیرملکیوں کی سکیورٹی پر مامور ہے۔ سیاسی رہنما دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں‘ سیاسی رہنماؤں کو الیکشن مہم میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 2013ء کے انتخابات تھے‘ اس وقت ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ انتخابات سے قبل سیاسی رہنماؤں پر خود کش حملے بھی ہوئے۔ کچھ سیاستدان جان کی بازی بھی ہار گئے۔ اس کے باوجود انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی تھی۔ آج دہشت گردی کے حالات ماضی کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ اس لیے سکیورٹی کو وجہ بنا کر انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حکومت یہ بھی بتائے کہ کس وقت سیاستدانوں کی جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔ ان کو سکیورٹی تھریٹ جاری ہونا ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہو سکتا کہ ملکی آئین کی پاسداری نہ کی جائے۔ سیاستدانوں کے آئین سے انحراف کی وجہ سے ہی نظام انصاف کو آئینی معاملات بھی دیکھنا پڑتے ہیں۔
سرکار نہ ہی سیاسی محاذ پر بہتر کارکردگی دکھا پا رہی ہے اور نہ ہی معاشی میدان میں بروقت درست فیصلے کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط ایک ہی مرتبہ ماننے کے بجائے وقفوں میں ان پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ اب آئی ایم ایف
کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے سٹیٹ بینک نے درآمدات پر کیش مارجن کی شرط 31مارچ 2023ء سے ختم کردی ہے۔ اس سے پہلے درآمدات کو محدود کرنے کیلئے لگژری اور غیرضروری اشیاء کیلئے کیش مارجن کی شرط عائد تھی۔ حکومت نے اگست 2022ء میں درآمدات کو محدود کرنے کیلئے یہ پابندی عائد کی تھی۔ کیش مارجن فارم سکیورٹی ہوتی ہے جس کا مقصد ادائیگی نہ ہونے کا رسک ختم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی دیگر کئی شرائط پر عملدرآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنے کالمز میں ذکر کیا تھا کہ ادارے نے شرح سود مزید تین سے چار فیصد بڑھانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ یہ مطالبہ اسی ہفتے کیا جا سکتا تھا لیکن اسے اگلے مہینے کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ سرکار یہ بھی بتانے سے قاصر ہے کہ وہ اب تک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر سے قرض کی گارنٹی کیوں حاصل نہیں کر پا رہی۔ بارہا رابطہ کرنے کے بعد بھی ایسی کیا رکاوٹیں ہیں جو گارنٹی کی راہ میں حائل ہیں؟ سرکار عوام کے سامنے مکمل حقائق نہیں رکھ رہی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے دوست ممالک بھی ہاتھ کھینچتے نظر آ رہے ہیں اور دوسری طرف ملک میں کاروبار تیزی سے بند ہو رہے ہیں۔ بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو رواں مالی سال کے ابتدائی 8مہینوں کے دوران پیشگی ادائیگیوں میں 73فیصد کمی آگئی ہے ۔ نجی شعبے کو قرضوں میں بڑی کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صنعتی اور کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں تمام شعبوں میں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved