گزشتہ تقریباً ساڑھے تین سال سے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کم و بیش تمام شعبوں میں تعطل کا شکار ہیں۔ اس کی بڑی وجہ 5 اگست 2019ء کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے وہ یکطرفہ اقدامات ہیں جن کے تحت بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو حاصل اندرونی خود مختاری ختم کر دی گئی تھی۔ بھارت کے کنٹرول میں ریاست جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر کے اسے بھارت میں مکمل طور پر ضم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان نے نریندر مودی کے اس اچانک فیصلے پر ردِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف دہلی سے اپنے سفارتی عملے کے بیشتر اہلکاروں کو‘ جن میں سفیر بھی شامل تھے‘ واپس بلا لیا بلکہ آمد و رفت اور مواصلاتی روابط پر بھی پابندی لگا دی۔ دونوں ملکوں میں دو طرفہ بنیادوں پر ہونے والی تجارت پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
پاکستان کو امید تھی کہ اس کے اس شدید ردِعمل کا نوٹس لیتے ہوئے بین الاقوامی برادری بھارتی حکومت پر ان اقدامات کو واپس لینے پر دباؤ ڈالے گی لیکن چین اور ایک آدھ مسلم ملک کے علاوہ بین الاقوامی برادری بشمول اقوام متحدہ کی طرف سے بھارت کے اس اقدام پر کوئی مذمتی بیان نہیں آیا؛ تاہم جنوبی ایشیا کے ان دو اہم ملکوں کے درمیان اتنے عرصہ سے میل جول کے فقدان پر متعدد ممالک تشویش کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرنے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ان دونوں ملکوں‘ جن کے گزشتہ 75برسوں کے تعلقات کی تاریخ تین بڑی جنگوں‘ سرحدی جھڑپوں اور طویل عرصہ کے لیے کشیدہ صورتحال سے بھری پڑی ہے‘ کے درمیان موجود کشیدگی کسی وقت بھی ایک بڑے تصادم میں تبدیل ہو کر خطے کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے متعلقہ حلقوں میں اس احساس کو تقویت مل رہی ہے کہ اس ڈیڈ لاک کے جاری رہنے سے اہم قومی مفادات متاثر ہو رہے ہیں‘ جن میں معیشت سر فہرست ہے‘ مگر دونوں ممالک غیر مشروط طور پر اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات پر تیار نہیں۔
اس صورتحال میں تجویز پیش کی گئی کہ پاک بھارت تجارت کو بحال کیا جائے جس کے بعد دیگر شعبوں میں بھی بات چیت کی راہ ہموار ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ دو سال قبل (مارچ 2021ء میں) سابقہ حکومت کے دور میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ پاکستان بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرے گا۔ بعد میں اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا کیونکہ نہ صرف اس وقت کی اپوزیشن پارٹیوں‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ خود اس وقت کی حکمران پارٹی پی ٹی آئی کے بعض سرکردہ اراکین نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ بعد میں (جون 2022ء میں) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان میں بھارت کے ساتھ دوبارہ تجارت شروع کرنے کی حمایت کی مگر اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
گزشتہ برس سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں کھڑی فصلوں‘ باغات اور سبزیوں کو جو نقصان پہنچا‘ اس کے تناظر میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی اگست 2022ء میں بھارت سے سبزیاں اور خوردنی تیل درآمد کرنے کی سفارش کی تھی۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کے حق میں سابقہ حکومت میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مشیرعبدالرزاق داؤد بھی بہت سے دلائل دے چکے ہیں۔ پاکستان کی متعدد کاروباری شخصیات اور ممتاز صنعت کار بھی بھارت کے ساتھ تجارت اور مختلف شعبوں میں تعاون کے پر جوش حامی سمجھے جاتے ہیں‘ مگر حال ہی میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی دعوت پر پاکستان میں تعینات بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر‘ سریش کمار کے اس موضوع پر خطاب کا چرچا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے کہ کوئی ملک ''جغرافیہ تبدیل نہیں کر سکتا‘‘ دعویٰ کیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تجارت کے لیے ہر وقت تیار ہے اور اگست 2019ء میں بھارت نے نہیں بلکہ پاکستان نے یکطرفہ طور پر تجارتی تعلقات منقطع کیے تھے۔ انہوں نے تنازعات کے باوجود‘ پاک بھارت تجارت کی حمایت کی اور اس سلسلے میں چین کے ساتھ بھارت کی دو طرفہ تجارت کا حوالہ دیا‘ جس کا سرحدی تنازع کے باوجود حجم 120بلین ڈالر سالانہ ہے۔
پاکستان کے مختلف حلقوں کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کی بحالی کے حق میں بیانات آنے کے بعد‘ لاہور چیمبر کی طرف سے ایک سینئر بھارتی سفارت کار کو اس موضوع پر بولنے کی دعوت سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ ساڑھے تین سال سے جاری ڈیڈ لاک کو ختم کرنے پر سرحد کے دونوں اطراف سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے دو طرفہ تجارت کی بحالی کو پہلے قدم کے طور آزمانے کی سفارش کی جا رہی ہے۔ بھارتی سفارت کار کے مطابق ان کا ملک تو اس کے لیے تیار ہے‘ پاکستان میں بھی اس تجویز کے حق میں فضا ساز گار ہے اور میڈیا میں اس اقدام کی حمایت کی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے‘ بھارت کے ساتھ تجارت کھلنے سے ان میں کمی آ سکتی ہے‘ خصوصاً گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کو کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کپاس کی پیداوار میں جس کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہونے سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بنیاد پر پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ اس کے نتیجے میں جن شعبوں میں تعلقات کو نمایاں فروغ حاصل ہوا تھا‘ ان میں دو طرفہ تجارت بھی شامل تھی۔ 2014ء میں تو پاکستان کی طرف سے بھارت کو موسٹ فیورڈ نیشن کی رعایت دینے کا بھی عندیہ دیا جا رہا تھا‘ لیکن بعض حلقوں کی طرف سے پوری طرح حمایت نہ ملنے کی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے جن طویل المیعاد تجاویز کو پیش کیا جاتا ہے‘ ان میں پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات (علاقائی تجارت) کو فروغ دینے پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے۔ اس وقت ہمسایہ ممالک میں صرف چین کے ساتھ پاکستان کے بھر پور تجارتی تعلقات ہیں۔ ایران کے ساتھ پابندیوں کی وجہ سے تجارت اور معاشی تعاون میں اضافہ نہیں ہو سکا۔
افغانستان کے اندرونی حالات غیر یقینی اور نا سازگار ہونے کی وجہ سے پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے حجم میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ تمام ہمسایہ ممالک میں سے بھارت کے ساتھ سب سے لمبی مشترکہ بین الاقوامی سرحد ہے۔ اس سرحد کے آر پار تجارت کے لیے کئی اہم مقامات موجود ہیں جہاں سے کچھ عرصہ پیشتر تجارت جاری تھی۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے حجم میں سالانہ 37بلین ڈالر کا اضافہ کیا جا سکتا ہے مگر کچھ وجوہات کی بنا پر اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا‘ لیکن پاکستان اور اس کے ارد گرد خطے کے دیگر ممالک میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو معاشی مفادات کی روشنی میں دیکھنے کا جو رجحان پیدا ہو رہا ہے‘ ہو سکتا ہے کہ تنازعات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارتی تعلقات کی بحالی پر جلد اتفاق ہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved