تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     27-03-2023

نمازِ تراویح میں تلاوت ہونے والے پارے کا تفسیری خلاصہ

اسلام برائی کی تشہیر کو پسند نہیں فرماتا ‘مگر مظلوم کی داد رسی کیلئے ظالم کے خلاف آوازبلند کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت 150 میں بتایا کہ جو لوگ ایمان لانے میں اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں یا بعض رسولوں پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں یا ایمان اور کفر کے مابین کوئی درمیانی راستہ تلاش کریں‘ یہ سب لوگ پکے کافر ہیں۔ مومن صرف وہی ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں اور بلا تفریق اُس کے سارے رسولوں پر بھی ایمان لائیں۔ آیات 153 تا 161 میں یہود کی بہت سی جہالتوں‘ سرکشیوں‘ ہٹ دھرمیوں اور فرمائشی مطالبات کا ذکر ہے۔ اُنہوں نے رسولﷺ سے مطالبہ کیا کہ ہم پر آسمان سے کتاب نازل کریں‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑے مطالبات کر چکے ہیں‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی عہد شکنی اور کفر کی وجوہ کو بیان کیا کہ (1) اُنہوں نے آیاتِ الٰہی اورمعجزاتِ انبیاء سے انکار کیا (2) انبیاء کرام کو ناحق قتل کیا (3) حضرت مریم پر بہتان باندھا (4) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا (5) ہٹ دھرمی سے یہ کہاکہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں۔ آیت 163 میں بتایا کہ وحیٔ ربّانی اور نبوّت کا سارا سلسلہ آپس میں مربوط ہے۔ حضرت نوح اور اُن کے بعد کے انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرت ابراہیم تا حضرت عیسیٰ متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا۔ مزید فرمایا کہ کچھ رسولوں کے نام اور حالات ہم نے آپ پر بیان کیے اور ایسے بھی رسول ہیں‘ جن کے واقعات قرآنِ مجید میں بیان نہیں ہوئے‘ جن کے نام قرآنِ و حدیث میں بیان ہوئے‘ اُن پر نام بہ نام ایمان لانا فرض ہے اور جن کے نام اور حالات بیان نہیں ہوئے‘ اُن پر اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔ آیت 174 میں فرمایا: اے لوگو! تمہارے پاس اللہ کی طرف سے قوی دلیل آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف واضح نور نازل کیا ہے‘ برہان (قوی دلیل) سے مراد ''سیّدنا محمد رسول اللہﷺ‘‘ کی ذاتِ گرامی ہے۔ سیدنا محمدﷺ اور قرآنِ مجید سے مکمل وابستگی اختیار کرنے پر ہی صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کا انحصارہے۔
سورۃ المائدہ: سورۃ المائدہ میں فرمایا کہ مستثنیات کے سِوا (جن کا بیان آگے آ رہا ہے) چار پاؤں والے جانور حلال کیے گئے ہیں‘ لیکن احرام کی حالت میں شِکار حلال نہیں ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور حُرمت والے (چار) مہینوں کی بے حرمتی نہ کرو‘ اِسی طرح کعبہ میں بھیجی ہوئی قربانیوں اور جن جانوروں کے گلوں میں (قربانی کی علامت کے) پَٹّے پڑے ہوں‘ اُن کی بھی بے حرمتی نہ کرو۔ اِس کے بعد مسلمانوں کو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ یہ آیتِ مبارکہ ''جوامع الکلم‘‘ میں سے ہے۔ ہر خیر و شَر‘ بھلائی اور برائی کا اس آیتِ مبارکہ میں بڑے اختصار کے ساتھ تذکرہ کرکے قرآنِ مجید نے تمام کاموں کیلئے ایک اصل اور ضابطہ قراردے دیا ہے۔ آیت 3 میں مُحرماتِ قطعیہ کا بیان ہے‘ جو یہ ہیں: (1) وہ حلال جانور جو طبعی موت مرگیا ہو اور ذبح نہ کیا جا سکا ہو‘ یعنی مُردار (2) ذِبح کے وقت بہنے والا خون (3) خنزیر کا گوشت (4) جس جانور پر ذِبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو (5 تا 10) وہ حلال جانور جو گلا گھونٹنے یا چوٹ لگنے سے مر جائے یا جو بلندی سے گر کر مر گیا ہو یا دوسرے جانور نے سینگوں کی چوٹ سے مار دیا ہو یا درندوں نے کھایا ہو یا بتوں کے تھان پر ذِبح کیا گیا ہو (11) اور فال کے تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا۔ اِسی آیتِ مبارکہ میں مسلمانوں کیلئے ایک اعزازی اعلان ہوا کہ ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور دین) پسند کر لیا ہے‘‘۔ اسی آیت میں بتایا کہ حالتِ اضطرار میں بقائے جان کیلئے بقدرِ ضرورت حرام چیز کا کھانا جائز ہے۔
آیت 5 میں بتایا کہ مسلمانوں کا کھانا اہلِ کتاب کے لیے حلال ہے اور اہلِ کتاب کا کھانا مسلمانوں کے لیے حلال ہے‘ بشرطیکہ وہ کھانا اپنے اصل کے اعتبار سے حلال ہو اور اُس میں کسی حرام کی آمیزش نہ ہو۔ اسی آیت میں یہ حکم بھی بیان ہوا کہ اہلِ کتاب کی آزاد‘ پاک دامن عورتوں سے مسلمان کا نکاح جائز ہے۔ آیت 6 میں وضو کے چار فرائض بیان ہوئے‘ یعنی (1) پورے چہرے کو دھونا (2) کہنیوں سمیت ہاتھوں کا دھونا (3) سر کا مسح (4) ٹخنوں سمیت پاؤں کا دھونا۔ اس کے بعد مریض‘ مسافر‘ بے وضو اور جُنبی (جس پر غسل واجب ہو) کے لیے ضرورت کے وقت تیمم کی اجازت کا بیان ہے۔
آیت 17 میں اللہ تعالیٰ نے مسیح ابن مریم کو ''اِلٰہ‘‘ قرار دینے والوں کو کافرکہا ہے اور فرمایا کہ (بفرضِ محال) اللہ مسیح ابن مریم اور اُن کی ماں کو ہلاک کرنا چاہے‘ تو ساری زمین والے مل کر بھی اُن کو بچا نہیں سکتے۔ پھر یہود و نصاریٰ کی اس خوش فہمی اور زَعمِ باطل کا رَد فرمایا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اُس کے محبوب ہیں۔ فرمایا کہ تم بھی منجملہ انسانوں میں سے ہو۔ اہلِ کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ انبیاء کی بعثت کے بعد اِنقطاعِ نبوّت کا دور آیا اور پھر ہم نے اپنے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں آیا‘ سو اب تمہارے پاس اللہ کی رحمت کی بشارت دینے والے اور اُس کے عذاب سے ڈرانے والے آخری رسول (محمد رسول اللہﷺ) آ چکے۔ آیت 27 تا 31 میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان ہوا کہ دونوں نے اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی‘ ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی رَد ہو گئی۔ اُس زمانے کی شریعتوں میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ آتی اور اُسے جلا ڈالتی۔ قابیل‘ جس کی قربانی رَد ہو گئی‘ اُس نے غصے میں اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیاکہ جس شخص نے جان کے بدلے (یعنی حقِ قصاص) کے بغیر یا زمین میں فساد کے (جرم کے) بغیر کسی انسانی جان کو قتل کیا‘ تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے (کسی بے قصور) شخص کی جان کو بچا دیا توگویا اُس نے تمام انسانوں کو بچا لیا‘‘۔ آیت 35 میں اہلِ ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ کی بارگاہ میں (نجات کا) وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا۔ آیت 36 میں فرمایا کہ کوئی شخص ساری روئے زمین کا مالک ہو جائے اور اتنی ہی دولت اُسے اور مل جائے‘ اور وہ یہ سب کچھ اپنی جان کے فدیے کے طور پر دے دے‘ تو پھر بھی قیامت کے دن کافر کی نجات ممکن نہیں۔ آیت 38 میں چوری کرنے والے مرد اور عورت کیلئے ہاتھ کاٹنے کی سزا کا حکم ہے‘ یہ اُن کے کیے کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے دوسرے لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے۔ اس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کے لیے آمادہ ہو جائیں تو اللہ اُنہیں معاف فرمانے والا ہے۔ آیت 40 میں زمینوں اور آسمانوں کی بادشاہی اور عذاب دینے اور معاف کرنے کی قدرت رب العالمین کا خاصہ بیان فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو فرمایا کہ اگر وہ آپ کے پاس کوئی مقدمہ لے کر آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ فیصلہ کریں یا نہ کریں‘ لیکن اگر آپ کو فیصلہ کرنا ہو تو وہی فیصلہ کریں‘ جو انصاف پر مبنی ہو۔ اس کے بعد آیت 44 تا 47 میں بالترتیب فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اَحکام کے موافق فیصلہ نہ کریں‘ وہ کافر ہیں‘ ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔
آیت45 میں قانونِ قصاص کو بیان کیاکہ جان کا بدلہ جان‘ آنکھ کا بدلہ آنکھ‘ ناک کا بدلہ ناک‘ کان کا بدلہ کان‘ دانت کا بدلہ دانت اور اِسی طرح زخموں کا بھی قصاص ہے اور جو خوشدلی سے قصاص دے دے (اور اپنے جرم پر صدقِ دل سے توبہ بھی کرے) تو یہ اُس کے گناہ کا کفارہ ہے۔ آیت 49 تا 50 میں بتایا کہ اللہ نے ہر اُمّت کے لیے ایک شریعت اور واضح راہِ عمل مقرر کی ہے‘ اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو سب کو ایک اُمتِ اِجابت بنا دیتا‘ لیکن اُس نے اپنے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ حق یا باطل جس راہِ عمل کو چاہیں اختیار کریں اور اِسی میں نیک و بد کی آزمائش ہے۔ آیت 51 میں بتایاکہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کے حامی اور دوست ہیں‘ لہٰذا جو اُن کی دوستی اختیار کرے گا ‘وہ اُنہی میں سے ہو گا۔
آیت 57 میں بتایا کہ اہلِ کتاب میں سے دین کو مذاق بنانے والوں اور کافروں کو دوست نہ بنانا۔ آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بدترین سزا اُن لوگوں کی ہے‘ جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی‘ اُن پر غَضب فرمایا‘ اُنہوں نے شیطان کی عبادت کی اور اُن میں سے بعض کی صورتوں کو مَسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دیا۔ آیت73 تا 80 تک نصاریٰ کے عقیدے کی خرابیوں کو بیان کیا کہ وہ تثلیث کے قائل ہیں؛ حالا نکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہٗ لاشریک ہے۔ مسیح ابن مریم‘ اسی طرح ایک رسول ہیں‘ جس طرح ان سے پہلے رسول گزر چکے اور ان کی ماں صدیقہ ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved