تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-03-2023

کھلواڑ تو مہنگا ہی پڑتا ہے

کوئی بھی معاملہ ہو، کوئی بھی موقع ہو، ہم میں سے بیشتر کھلواڑ کے عادی ہوچکے ہیں۔ مجموعی ذہنیت یہ ہوگئی ہے کہ ہر معاملے سے لطف کشید کیا جائے۔ عمومی نوعیت کے معاملات سے بھی حَظ اٹھانے کی ذہنیت اس قدر کارفرما ہے کہ اب قدم قدم پر کچھ ایسا کرنے کی سُوجھتی ہے کہ دل و دماغ باغ باغ ہو جائیں۔ اس عمومی ذہنیت کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت اب ویسے ہی جملے سننے اور اُن پر کھلکھلانے کی عادی ہوچکی ہے جیسے انتہائی پست نوعیت کے سٹیج ڈراموں میں سننے کو ملتے ہیں۔ سٹیج کامیڈی کا پھکّڑ پن اب ہماری زندگی کے اُن معاملات میں بھی در آیا ہے جن میں بالعموم زیادہ ہنسنے ہنسانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ بیشتر معاملات میں مزاج کی شگفتگی برقرار رکھنا ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت خوش مزاجی کے ساتھ گزارے تاکہ اپنے لیے بھی کوئی الجھن پیدا نہ ہو اور دوسروں کو بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیںکہ ہم مزاج کی شگفتگی کے لیے کچھ بھی کہتے پھریں، کچھ بھی کر گزریں۔ کھیل کے نام پر کھلواڑ ہمیشہ خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی الجھنیں ہی پیدا ہوتی ہیں۔
زندگی محض سنجیدگی کا نام نہیں‘ مگر خیر یہ محض کھلواڑ کا نام بھی نہیں۔ ہو بھی کیسے؟ زندگی توازن کا نام ہے۔ ہر معاملے میں توازن بنیادی شرط ہے۔ ایسا نہ ہو تو زندگی کا معیار گرتا چلا جاتا ہے۔ سنجیدگی کا فقدان انسان کو کھلواڑ کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت سنجیدگی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ ایسے میں ہر معاملہ کھیل کے نام پر کھلواڑ دکھائی دے رہا ہے تو کسی کو زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں‘ افسردہ ہونے کا محل ضرور ہے۔ ناکامی سے دوچار ہوتے ہوئے معاشروں میں جو کچھ ہوتا ہے وہی ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ وسائل کے اعتبار سے ملک اب بھی بری حالت میں نہیں۔ سوال وسائل سے کہیں بڑھ کر قوتِ ارادی، سنجیدگی اور محنت کی لگن کے فقدان کا ہے۔ زندگی جیسی نعمت کو سراسر لاپروائی کی نذر کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے معاشرے بڑی تعداد میں ہیں جن میں آگے بڑھنے کا دم تھا مگر سنجیدگی، عزم اور منصوبہ سازی کے فقدان نے سب کچھ مٹی میں ملادیا۔ کوئی بھی معاشرہ فطری یا قدرتی طور پر ایک خاص حد تک ہی گر سکتا‘ ناکام ہوسکتا ہے۔ معاملہ جب انسانوں کے ہاتھ میں ہو تب خرابیاں بے قابو ہو جاتی ہیں۔ ہر معاشرے میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے‘ جو آگے بڑھنے کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ ہر معاشرے میں نئی نسل فطری طور پر باصلاحیت ہوتی ہے مگر حالات کی خرابی اُسے مایوسی سے دوچار کرتی ہے اور پھر اُس میں کچھ کرنے کا عزم کمزور پڑتا چلا جاتا ہے۔ ہمارا بھی یہی قصہ ہے۔
آج ہماری نئی نسل زیادہ الجھی ہوئی ہے۔ اُس کی الجھن بنیادی طور پر بڑوں کو دیکھ کر ہے۔ جو زندگی کی چالیس‘ پچاس بہاریں دیکھ چکے ہیں اُن میں تجربے کا جو گراف اور معیار ہونا چاہیے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ نوجوان بڑوں کو دیکھ ہی زندگی بسر کرنے کے ڈھنگ سیکھتے ہیں۔ جب بڑوں میں سنجیدگی نہیں ہوگی تو نئی نسل میں کہاں سے آئے گی؟ زندگی بدیہی حقیقت ہے۔ جو زندہ ہے اُسے محض زندہ نہیں رہنا بلکہ معاشرے کا‘ ماحول کا حصہ بھی رہنا ہے۔ جب جینا ہی ٹھہرا تو ڈھنگ سے کیوں نہ جیا جائے؟ کیا لازم ہے کہ انسان لاپروائی کو شعار بناکر اپنے وجود کو ضائع کرتا پھرے؟ زندگی کا انتہائی بنیادی تقاضا سنجیدگی ہے۔ معیاری اور معقول شگفتگی بھی سنجیدگی ہی کی دَین ہوتی ہے۔ جو زندگی کو ہلکا لیتا ہے، سنجیدہ نہیں ہوتا وہ کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو منوانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ محض سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا زندگی نہیں۔ زندگی اِس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ جینے کا معقول ترین ڈھنگ یہ ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں نہ صرف یہ کہ تواتر اور باقاعدگی سے سوچا جائے بلکہ جو سوچا جائے اُسے عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔
عام آدمی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہونے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہ اپنا اور اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کی جدوجہد ہی سے بلند نہیں ہو پاتا۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت حد تک مجبور ہوتا ہے۔ عمر کا بڑا حصہ زندہ رہنے کی قیمت چکاتے رہنے میں کھپ جاتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جو عام آدمی ٹھان لیتا ہے کہ ڈھنگ سے جینا ہے وہ پھر پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ اپنی تمام مشکلات کو ایک طرف ہٹاکر وہ زندگی کا معیار بلند کرنے کی منصوبہ سازی کرتا ہے۔ خود بھی سنجیدگی اختیار کرتا ہے اور اولاد کو بھی پڑھاتا ہے۔ معقول تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونے ہی پر نئی نسل معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پاتی ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ بہت سے انتہائی فضول رجحانات کی زد میں ہے۔ لوگ بہت کچھ سوچے سمجھے بغیر اپنا رہے ہیں۔ سنجیدگی کا گراف گرتا ہی جارہا ہے۔ عام آدمی اگر زندگی کا معیار بلند کرنے کے معاملے میں لاپروا ہے اور خاطر خواہ حد تک سنجیدہ ہونے کے بارے میں نہیں سوچتا تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں بُری طرح الجھا ہوا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب وہ لوگ بھی سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتے جو سنجیدہ ہونے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ بہتر مالی حیثیت انسان کو سوچنے اور سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ مستحکم مالی حیثیت کے حامل کسی بھی فرد کے لیے اِس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ہر وقت صرف کمانے کا سوچے اور زندگی کے بارے میں ذرا بھی سنجیدہ نہ ہو۔
معاملات کو ہلکا لینے اور سنجیدہ نہ ہونے کی ذہنیت اس قدر عام ہے کہ اب ہر وہ انسان الجھا ہوا ہے جو ڈھنگ سے جینا چاہتا ہے۔ کوئی اگر اپنے معاملات کو درست کرنا چاہتا ہے تو اُسے قدم قدم پر دوسروں کی پیدا کردہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں معقول انداز سے جینے والوں کو ایسی الجھنوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ مرکزی دھارا چاہتا ہے کہ اُس کے رحم و کرم پر بہنا سیکھا جائے۔ ایسے میں جو اپنے لیے الگ دھارے کا اہتمام کرے اُس کی راہ میں مشکلات کا پیدا ہونا لازم ٹھہرا۔ سوشل میڈیا اور ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کی مہربانی ہے کہ اب ہر شخص، ضرورت ہو یا نہ ہو، ہر معاملے سے زیادہ سے زیادہ لطف کشید کرنے کے درپے ہے۔ شگفتگی انسان کی بنیادی ضرورت ہے مگر لازم نہیں کہ شگفتگی برقرار رکھنے کے لیے پھکّڑ پن کو پسند کرنے والا مزاج اپنایا جائے۔ جن معاملات میں سنجیدہ ہونا لازم ہے اُن سے لطف کشید کرنے کی کوشش پوری زندگی سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ یہ کھلواڑ ختم ہونا چاہیے۔
اب رہا یہ سوال کہ زندگی کے بارے میں سنجیدہ کیون کر ہوا جائے۔ یہ بہت حد تک میلانِ طبع کا معاملہ ہوا کرتا ہے مگر شعوری کوشش سے بھی مزاج میں سنجیدگی پیدا کی جاسکتی ہے۔ شخصیت کے ارتقا سے متعلق لکھنے اور بولنے والوں کی عمومی رائے یہ ہے کہ انسان کو شعوری کوشش کے ذریعے اپنے آپ کو بدلنا چاہیے۔ ماحول انسان کی حوصلہ شکنی کرتا رہتا ہے۔ ہم خواہ کسی ماحول میں ہوں، کچھ زیادہ کرنے اور مزید کچھ بننے کی تحریک بالعموم ملتی نہیں۔ ماحول کا معاملہ کمرے کے درجۂ حرارت جیسا ہوتا ہے۔ ماحول ہمیں اوسط پر لاکر چھوڑتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں جینے والے انسان کو بلند ہونے کے لیے شعوری کوشش کرنا پڑتی ہے اور وہ بھی تواتر کے ساتھ۔ عام آدمی حالات کا اِتنا ستایا ہوا ہے کہ وہ ہر معاملے میں کوئی ایسی بات تلاش کرتا ہے جو اُسے ہنسائے، مزاج کو شگفتہ رکھنے میں ساتھ دے۔ یہ خواہش معقولیت کے دائرے میں رہے تو کچھ دے سکتی ہے۔ جہاں سنجیدہ ہونا ہے وہاں صرف سنجیدہ ہونا ہے۔ جن معاملات میں کھلواڑ کی برائے نام گنجائش نہ ہو اُن میں شگفتگی تلاش کرنا اپنا وقت اور توانائی دونوں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ نئی نسل کو خصوصی طور پر یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ ہر معاملے کو اُس کے خانے میں رکھنا سیکھے۔ جہاں شگفتگی کی گنجائش ہو وہاں منہ بسورنے سے گریز کیا جائے اور جہاں صرف سنجیدگی درکا ہو وہاں کسی بھی نوعیت کے کھلواڑ سے مکمل اجتناب برتا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved