تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-03-2023

جمہوریت کا مخمصہ

عمران خان صاحب نے جمہوریت پسندوں اور جمہوریت مخالفین کو ایک طرح کے مخمصے میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ مخمصہ کیا ہے؟ کیا اس سے نکلنے کی کوئی صورت ہے؟
جمہوریت عوامی رائے کے احترام کا نام ہے۔ یہ تصور جب سیاسی اداروں کی تشکیل کرتا ہے تو اس کے بہت سے مظاہر وجود میں آتے ہیں۔ جیسے پارلیمان۔ جیسے آئین۔ جیسے انتخابات۔ انتخابات‘ عوامی رائے کو جاننے کا ذریعہ ہیں اور آئین اس عمرانی معاہدے کا نام ہے جو عوام کی تائید سے ریاست اور عوام کے باہمی تعلقات کا تعین کرتا ہے۔ کوئی جمہوریت پسند آئین کا منکر نہیں ہو سکتا۔
آج ملک میں ایک آئین موجود ہے۔ اس آئین کا مطالبہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات 30اپریل تک کرا دیے جائیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اسے اپنے فیصلہ سے مزید موکد کر دیا ہے۔ آئین کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو۔ جمہوریت پسندی متقاضی ہے کہ اس کے حق میں آواز اٹھائی جائے اور انتخابات میں تاخیر کو گوارا نہ کیا جا ئے۔ جمہوریت پسند مگر مخمصے میں ہیں۔ وہ اس مطالبے کی تائید کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ جو عمران خان صاحب کے دور میں انتخابات کا مطالبہ کرتے تھے‘ اب مہر بلب ہیں۔ ووٹ کی عزت کا علَم اٹھانے والے اب ووٹ کی بات پر اپنے کان بند کر لیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
اُن کا خیال ہے کہ ملک میں جو فضا بنائی گئی ہے‘ وہ مصنوعی ہے۔ اس کو تبدیل کیے بغیر اگر انتخابات کرائے گئے تواس کا فائدہ صرف عمران خان صاحب کو پہنچے گا۔ گزشتہ دس گیارہ ماہ میں مہنگائی کی جو لہر اٹھی ہے‘ عوام کی بڑی تعداد اس کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو سمجھتی ہے۔ جو انتخابات کا التوا چاہتے ہیں‘ ان کا مقدمہ یہ ہے کہ یہ مہنگائی ان پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جو عمران خان صاحب نے اپنائیں۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ خان صاحب کی حکومت نے کیا اور پھر اس کی پاسداری نہیں کی۔ موجودہ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ سابقہ حکومت کی عہد شکنی کی قیمت چکائے۔ بصورتِ دیگر ملک دیوالیہ ہو جاتا۔
عوام کا ایک بڑا طبقہ اس مؤقف کو قبول کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ وہ آج کے حکمرانوں کو مہنگائی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس صورتحال نے حکومتی اتحاد‘ بالخصوص (ن) لیگ کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ (ن) لیگ کا مقدمہ یہ ہے کہ کئی سال‘ ریاست اپنے تمام دست و بازوکے ساتھ‘ اس کے خلاف سرگرم رہی۔ انہیں غیراخلاقی اور غیر قانونی حربے اختیار کرتے ہوئے اقتدار ہی نہیں‘ سیاست سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ پھرحکومت ملی تو ایسی کہ انہیں خان صاحب کے کارہائے نمایاں کے لیے بھی جوابدہ بنا دیا گیا۔ جب تک اس صورتحال کی اصلاح نہ ہو‘ انتخابات کا انعقاد غیر منصفانہ ہو گا۔
دوسری طرف عمران پسندوں کا ایک گروہ ہے جو ہمیشہ جمہوریت کا ناقد رہا ہے۔ وہ جمہوریت کو اسلام مخالف تصور سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اکثریت ہمیشہ گمراہ ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں ووٹ کی قیمت بریانی کی ایک پلیٹ ہو‘ وہاں جمہوریت کو کیسے حاکم مانا جا سکتا ہے؟ اکثریت کو فیصلے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے وہ کبھی انتخابات کو مسئلے کا حل نہیں سمجھتے۔ اس گروہ نے جب یہ دیکھا کہ آج خان صاحب کے حق میں ایک عوامی لہر ابھری ہے تو وہ جمہوریت اور انتخابات کا وکیل بن گیا ہے۔ یہ ان کا تضاد اور مخمصہ ہے۔ معلوم نہیں‘ انہیں خود اپنے مخمصے کا کتنا ادراک ہے۔ میں نے کوئی ایسی تحریر نہیں پڑھی جس میں اس تضادکو مخاطب بنایا گیا ہو۔
عام طور پر ہمیں اپنے تضادات کا کم ہی احساس ہوتا ہے۔ ہمارے داخل میں ایک خودکار دفاعی نظام موجود ہے جو اگر کسی اخلاقی قدر کے تابع نہ ہو تو ہمارے ہر رویے کی تائید میں دلائل تراشتا اور ہمیں مطمئن کرتا رہتا ہے۔ اس کا وظیفہ یہی ہے۔ اس کی شہ پر ہم بڑے اخلاقی جرائم کر گزرتے ہیں اور ہمارے اندر سے ملامت کرنے والا نفس بیدار نہیں ہوتا۔ اگر اخلاقی حس زندہ ہو تو یہی نفسِ لوامہ خود احتسابی کا فریضہ بھی سر انجام دیتا اور فرد کے لیے ایک بڑی نعمت ثابت ہوتا ہے۔ اخلاقی حس بیدارہو تو ہم زیادہ عرصہ مخمصے میں نہیں رہ سکتے۔ یہ مخمصہ یا تضاد انسان کو مضطرب رکھتا ہے‘ جب تک کہ وہ اس سے نجات نہ پا لے۔
جمہوریت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک کلچر کا نام ہے۔ جب تک اسے ذہنی اور شعوری سطح پر اور کلی طور پر نہ اپنایا جائے‘ یہ نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ جسے ہم جمہوریت کہہ رہے ہیں‘ یہ دراصل پاپولزم ہے۔ میرے نزدیک یہ دونوں باتیں درست ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ عوام ووٹ کے درست استعمال کا شعور رکھتے ہوں اور ریاستی ادارے بھی اپنی حدود سے باخبر ہوں۔ جہاں یہ سب کچھ نہ ہو۔ جہاں پاپولزم ہو اور اس بات کا امکان ہو کہ عوام میں ہیجان پیدا کر کے کوئی انہیں گمراہ کر سکتا ہے‘ کیا وہاں ریاست کا کوئی ایک ادارہ‘ آئین کے کسی مطالبے کو محض اس لیے بالائے طاق رکھ سکتا ہے کہ ایک دوسرا ادارہ اپنی آئینی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا یا عوام غلط فیصلے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ جمہوریت پسند جب اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ایک مخمصے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کے لیے آج یہ مفروضہ نہیں‘ امرِ واقعہ ہے۔ میں اس باب میں اپنا نقطۂ نظر ایک تسلسل کے ساتھ اس کالم میں بیان کرتا رہا ہوں۔ یہاں ان دلائل کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مجھ جیسے جمہوریت پسند کے پاس آج کیا راستہ ہے؟ مجھے کس بات کو ترجیح دینی چاہیے؟ انتخابات پر اصرار یا ان نتائج سے بچنے کی کوشش جو انتخابات کے متوقع نتائج سے جڑے ہوئے ہیں؟
میرا احساس یہ ہے کہ آئین کی پاسداری کو ترجیح بنانا چاہیے۔ ہمیں وہی کچھ کہنا چاہیے جو آئین کہتا ہے۔ ہمیں عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن خود آئین‘ اپنی اسی تعبیر کو معتبر مانتا ہے جو عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے ہو۔ اپنے اختلاف کے حق کی حفاظت کرتے ہوئے ہمیں اسی فیصلے کے نفاذ کی تائید کرنی چاہیے جو سپریم کورٹ صادر کرے۔
اس کے ساتھ عوام کو خبردار کرتے رہنا چاہیے کہ انہوں نے اگر اپنے ووٹ کا غلط استعمال کیا تو اس کے نتائج غیر معمولی طور پر تباہ کن ہوں گے۔ اپنے اس مؤقف کو اصرار اور دلیل کے ساتھ بیان کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اگر عوام اس فیصلے کے لیے بضد ہوتے ہیں جو ہمارے فہم کے مطابق غلط ہے تو ہمیں عوامی فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔ ہماری ذمہ داری ابلاغ کی حد تک ہے۔ اگر اجتماعی شعور کسی غلط نتیجے تک پہنچتا ہے تو ہم اس کے نتائج میں شریک ہو جائیں گے۔ جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ عوامی رائے کے سامنے سرتسلیمِ خم کر دیا جائے۔
اقتدار کے کھیل میں شریک لوگوں کے مؤقف ان کے مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی استثنا نہیں۔ جب تک عمران خان صاحب کا خیال تھا کہ انتخابات کے نتائج ان کی مرضی کے نہیں آئیں گے‘ وہ انتخابات کی مخالفت کرتے رہے۔ آج پی ایم ڈی کی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ انتخابی نتائج ان کے لیے سازگار نہیں ہوں گے تو وہ ان کی مخالف ہیں۔ ہم جو اقتدار کی اس کشمکش میں فریق نہیں ہیں‘ ہمیں وہی بات کہنی چاہیے جو ہماری نگاہ میں درست ہو۔ جمہوریت پسندوں کے پاس مخمصے سے نکلنے کا راستہ یہی ہے: وما علینا الا البلاغ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved