مجھے پاکستان کے ہر صوبے کی ثقافت پسند ہے۔ مجھے یاد ہے کہ امی اور ڈیڈی ہمیں بچپن میں ہر تہوار میں لے کرجاتے تھے جہاں ملک کی ثقافت کے رنگ نمایاں ہوتے تھے۔ گھریلو دستکاری‘ مٹی کے برتن‘ دیسی گھی میں بنے پکوان‘ لکڑی کے بانس پر چلتے ہوئے جوکر اور سرکس؛ ایک طرف میدان میں پہلوانوں کا دنگل ہورہا ہوتا تھا اور دوسری طرف موسیقی‘ رقص اور علاقائی ملبوسات میں اداکاروں کی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی۔ ہمیں اپنے بچپن میں یہ پتا ہوتا تھا کہ بیساکھی یا بسنت میں میلے منائے جاتے ہیں‘ فصلیں کاٹی جاتی ہیں۔ اب بچوں کو شاید ان مہینوں اور تہواروں کے نام بھی نہ پتا ہوں۔ اب روایتی و ثقافتی میلوں کی جگہ ویلنٹائنز اور ہالووین ڈیز نے لے لی ہے۔ سرسوں اور مکئی کی جگہ برگراور پیزا آگئے ہیں۔ ہماری نسل نے یہ دونوں دور دیکھے ہیں۔ جہاں ہم نے تار والا ٹیلی فون دیکھا‘ وہیں اب ہمارے ہاتھ میں موبائل آگیا۔ اب زندگی بہت تیز ہوگئی ہے۔ لوگوں کے پاس باغوں میں جھولے جھولنے کا وقت نہیں ہے‘ تہوار اور میلے کا تو وہ سوچتے بھی نہیں ہوں گے۔ میرے ڈیڈی کہتے ہیں کہ ان کے بچپن میں ایک ڈھولچی آتا تھا اور منادی کرتا ہے کہ شہر میں سرکس آگیا ہے‘ فلاں جگہ میلہ لگے گا اور پہلوانوں کا دنگل سجے گا۔ جیسے جیسے وقت گزرا‘ یہ اعلان لائوڈ سپیکر پر ہونے لگا، پھر ایک موٹر سائیکل رکشے پر گانے لگا کر بار بار اعلان کیا جاتا تاکہ عوام کی بڑی تعداد ان میلوں میں شرکت کرے۔
میرے بچپن میں ایسی اطلاعات ٹی وی یا اخبارات میں آتی تھیں کہ فلاں جگہ میلے کا انعقاد ہورہا ہے۔ میں بہت کم عمری سے اخبار پڑھ رہی ہوں‘ اس لیے میں اکثر اس طرح کی خبروں کو مارکر سے ہائی لائٹ کرکے ناشتے کے ساتھ ہی ابو کے سامنے رکھ دیتی۔ وہ مسکرا کہتے: چلو جمعہ یا اتوار کو لے جائوں گا۔ ہم ہمیشہ فیملی ایونٹس میں جاتے تھے۔ زیادہ تر میلے شہروں میں دیکھے لیکن کچھ میلے دیہات میں بھی دیکھے۔ مجھے میلوں میں مکئی کی روٹی‘ سرسوں کا ساگ اور لسی بہت اچھے لگتے۔ ہم خوب جھولے لیتے اور خوشی سے چیختے۔ جھولے کس کو پسند نہیں۔ میرے گھر میں اب بھی ایک بڑا جھولا لگا ہوا جس میں بیٹھ کر میں کبھی آسمان کو دیکھتی ہوں‘ کبھی پرندوں کو تو کبھی بیٹھ کر اپنے آنسو صاف کرتی رہتی ہوں۔ جب ہم چھوٹے تھے تو یہ معلوم نہیں تھا کہ جھولے میں بیٹھ کر رویا بھی جاسکتا ہے۔ بچپن میں تو ہم جھولوں پر بیٹھ کر میٹھے لچھے ہی کھایا کرتے تھے جن کو اب ''کاٹن کینڈی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جھولے کی سواری سے سارا میلہ ہماری نظروں کے سامنے آ جاتا تھا۔ ویسے تو پہلوانی اور دنگل اکھاڑوں میں ہوتے ہیں لیکن میلوں میں کبھی کبھی ان کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ دنگل‘ پہلوان اور کشتی پنچاب کی ثقافت کا حصہ ہیں اور رہیں گے۔ کچی زمین پر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، بعض اوقات تو دائو پیچ کھیلتے ہوئے پہلوان مٹی سے اَٹ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو اپنے حریف کے چاروں چانے چت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے‘ اس کو پگڑی پہنائی جاتی ہے‘ لوہے کا گرز ملتا ہے اور اس کو رستم کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اپنے بچپن میں دیکھی ہوئی کبڈی‘ کشتی اور پہلوانی جب یاد آتی ہے اور جب موجودہ حالات پر نظر پڑتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پنجاب میں بھی دنگل چل رہا ہے۔ مگر یہ دنگل کوئی کشتی یا پہلوانی کا نہیں‘ یہ سیاسی دنگل لگا ہوا ہے۔ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور چن چن کر ایک دوسرے سے بدلے لے رہے ہیں۔ اس دنگل میں نفرت اور انتقام نمایاں ہے۔ ایک دوسرے کو چت کرنے کیلئے ہر ممکن چال چلی جارہی ہے۔ پہلوانی تو صحت کے لیے بہت مفید ہوتی ہے‘ اس کو کچھ اصولوں کے تحت لڑا جاتا ہے اور ہار جیت کو خوش دلی سے تسلیم کیا جاتاہے؛ تاہم سیاسی دنگل تو عوام کا دیوالیہ نکال دیتا ہے اور سرکاری خزانے پر بھی بوجھ ہے۔ پنجاب میں گزشتہ دس برس سے سکون نہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں مشغول ہیں‘ وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتے اور خود ہی عوامی مینڈیٹ کی دھجیاں اڑادیتے ہیں۔ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر مخالفین کو چلنے نہیں دیتے۔ بجائے یہ کہ عوام حکومتوں کی تشکیل اپنے ووٹ سے کریں‘ یہاں ارکانِ اسمبلی لوٹے بن جاتے ہیں اور حکومت بنانے‘ گرانے میں اربوں کا بیوپار ہوتا ہے۔ عوام کے ووٹ کی تذلیل کی جاتی ہے‘ ان کے مینڈیٹ کو روند دیا جاتا ہے۔ محلاتی سازشوں میں ایسے مہرے سامنے آتے ہیں جو ایک پیادے کی صورت کام کرتے ہیں اور ان کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔
پنجاب کا سیاسی دنگل بہت افسوسناک ہے۔ سیاسی پہلوان ایک دوسرے کو چت کرنے کے چکر میں پوری بساط ہی لپیٹ رہے ہیں۔ عوام پر اتناظلم ہورہا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب جس کا دل کرتا ہے‘ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کردیتا ہے۔ لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے‘ ان کو بنا وارنٹ اٹھا لیا جاتا ہے‘ حبسِ بے جا میں رکھا جاتا ہے۔ ان پر آنسو گیس‘ ڈنڈے اور کیمیکل والے پانی سے حملہ کیا جاتا ہے۔ ایک ٹویٹ‘ ایک مظاہرہ اور ایک احتجاج آپ کوجیل تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہم انگریزوں کے غلامی والے دور میں تو پیدا نہیں ہوئے‘ ہم تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں۔ ہمیں آزادنہ بولنے‘ لکھنے اور اپنی رائے کے اظہار کا حق پاکستان کا آئین دیتا ہے۔ اشرافیہ آئین و قانون کو پامال کر دے‘ تو بھی بچ نکلتی ہے لیکن عوام ایک سطربھی لکھ دیں تو ان کو باغی کہہ کر جیل میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس ملک میں اشرافیہ کیلئے الگ قانون ہے اور عوام کیلئے الگ۔
جس وقت اس ملک کے امیر حکمران اپنے محلات میں بارش انجوائے کررہے ہیں‘ غریب کسان فصلوں کی تباہی پر رو رہے ہیں۔ عوام آٹے کی لائنوں میں دھکے کھا رہے‘ جہاں ان کو مارا پیٹا جارہا ہے۔ اب تک کم از کم چھ افراد آٹے کی لائنوں میں لگ کر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ درجنوں افراد دھکم پیل میں زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔ خدارا! غریبوں کا کچھ احساس کریں۔ ذرا ایک نظر راجن پور کے دور دراز علاقوں میں لائنوں میں لگے غریبوں پر ڈال لیں۔خدا کے لیے ان کی پکار سنیں اور ان کی داد رسی کریں۔ عوام سحری اور افطاری میں فاقے کاٹ رہے ہیں‘ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں مگر کہیں کوئی شنوائی ہی نہیں۔ آٹا‘ گھی اور اناج ان کے گھر تک نہیں پہنچ سکتا لیکن پولیس رات گئے ان کے گھروں کے باہر کھڑی ہوتی ہے۔ ان کا قصور یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے سرکار پر تنقید کی ہوتی ہے۔ جیسے پولیس چھانٹ چھانٹ کر مخالفین کے گھر پہنچ جاتی ہے‘ اسی طرح حکومت غریب لوگوں کو ان کے گھروں میں مفت راشن کیوں نہیں دے سکتی؟ ہم اس سیاسی دنگل میں ملکی معیشت کو تباہ کر ہی چکے ہیں‘ اب اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل رہا ہے۔ عوام کے پاس روٹی کھانے کے پیسے نہیں‘ نوجوانوں کے پاس نوکریاں نہیں‘ اوپر سے پولیس ان کو گرفتار کر رہی ہے۔ نوجوانوں کے جذبات کو مجروح مت کریں‘ یہ ملک کا مستقبل ہیں۔ ان کے دل میں ناراضی اور غصہ مت پیدا کریں‘ ان کی بات سنیں‘ ان کے ساتھ مکالمہ کریں۔ مارپیٹ‘ گرفتاریوں اور اغوا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کریں‘ عوام اور نئی نسل کو ساتھ لے کر چلیں۔ ملک کو آئین کے مطابق چلائیں۔ یہاں کوئی آمرانہ بادشاہت نہیں ہے‘ یہ ایک جمہوری ملک ہے۔ پنجاب میں سیاسی دنگل بند کریں۔ نگران حکومت جس مقصد کے لیے آئی ہے‘ وہ کام کرے۔ الیکشن کرائے اور گھر واپس جائے۔ کانٹوں والی اقتدار کی یہ کرسی سدا کسی کی نہیں رہتی۔ آج اس پر آپ بیٹھے ہیں تو کل کوئی اور براجمان ہو گا۔ لہٰذا اتنا ہی ظلم کریں جتنا کل کو خود بھی برداشت کرسکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved