بھارت میں گاندھی خاندان کے چشم و چراغ اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے نمایاں رہنما راہول گاندھی کو ہتکِ عزت کے ایک مقدمے میں سزا ہونے کے بعد پارلیمنٹ کی رکنیت سے بھی نااہل کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ بھارت کی ریاست گجرات کی ایک ماتحت عدالت نے سزا کو 30 دن کے لیے معطل کر کے راہول کو اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا موقع دیا ہے مگر اس واقعہ سے یوں لگتا ہے جیسے بھارت کی سیاست میں ایک بھونچال آ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقریباً ایک سال بعد (2024ء) میں بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور باوجود اس کے کہ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں راہول گاندھی کی کانگریس (اندرا)‘ وزیراعظم نریندر مودی کی بی جے پی کی 331نشستوں کے مقابلے میں صرف 99نشستیں حاصل کر سکی تھی‘ راہول گاندھی کو وزیراعظم مودی کے لیے ایک ابھرتا ہوا چیلنج سمجھا جا رہا تھا۔ اس لیے راہول گاندھی کی نا اہلیت کو سیاسی انتقام قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کے سیاسی اُفق پر کانگریس کا ستارہ ایک عرصے سے ڈوبا ہوا ہے اور وہ پارٹی جس نے ملک کی تحریک آزادی کی قیادت کرتے ہوئے پانچ دہائیوں تک بلا شرکت غیرے حکومت کی‘ اب لوک سبھا میں سکڑ کر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود کانگریس کو 2014ء سے حکمران جماعت بی جے پی کا واحد توڑ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کے مقابلے میں جتنی اپوزیشن پارٹیاں ہیں‘ ان سب میں سے اگر کسی کو صحیح معنوں میں قومی جماعت کہا جا سکتا ہے تو وہ آل انڈیا نیشنل کانگریس (اندرا) ہے۔
اگرچہ اس وقت بھارت کی 28ریاستوں (صوبوں) اور 8یونین ٹیرٹریز میں سے صرف تین (چھتیس گڑھ‘ ہما چل پردیش اور راجستھان) میں کانگریسی حکومتیں ہیں۔ بھارت کی سیاست میں اب بھی اگر کوئی پارٹی وزیراعظم مودی کو چیلنج پیش کر سکتی ہے تو وہ آل انڈیا نیشنل کانگریس (اندرا) ہے کیونکہ اس کے ہر ریاست میں ووٹ ہیں اور کئی ریاستوں میں اس نے مقامی یا علاقائی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومتیں بنا رکھی ہیں۔
راہول گاندھی کے بھارت کی سیاست میں قد آور ہونے کی وجہ اس کے خاندان کا کانگریس سے گہرا تعلق بھی ہے‘ جس نے گزشتہ 75 سالہ تاریخ میں بھارت کو تین وزرائے اعظم دیے۔ 2014ء سے البتہ یہ سلسلہ منقطع ہے اور بی جے پی لگا تار دو پارلیمانی انتخابات جیت کر اب تیسرے (2024ء) میں کامیاب ہونے کی مضبوط امیدوار ہے۔ بھارت کے سیاسی پنڈتوں کی متفقہ رائے ہے کہ اگلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی یقینی ہے اور اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ نریندر مودی بھی راہول گاندھی کو اب ایک مذاق کہہ کر مسترد کر چکے ہیں مگر پچھلے سال راہول گاندھی نے 4000کلو میٹر کا ملک گیر مارچ (بھارت جوڑو یاترا) کی قیادت کرکے‘ بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق‘ کانگریس کے مردہ جسم میں جان ڈال دی ہے۔
حال ہی میں بھارت کی ایک ممتاز شخصیت‘ جنہیں ملک کا امیر ترین صنعت کار کہا جاتا ہے‘ گوتم اڈانی کے حوالے سے کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے چند سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ بی جے پی کی مخالف سیاسی پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی اڈانی کی اس کرپشن میں ملوث ہیں کیونکہ گوتم اڈانی نریندر مودی کے اس وقت سے قریبی دوست چلے آ رہے ہیں جب وہ گجرات کے چیف منسٹر (2001-2004ء) تھے۔ ان الزامات کو ہوا دینے میں راہول گاندھی پیش پیش ہیں اور اپنے خلاف مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے پہلی پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کرنے میں وزیراعظم نریندرمودی ہی کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ (راہول گاندھی) پارلیمنٹ میں وزیراعظم اور اڈانی کے گٹھ جوڑ کے بارے میں ایک اہم تقریر کرنے والے تھے۔ راہول گاندھی نے الزام عائد کیا ہے کہ گوتم اڈانی نے اپنے کاروبار میں حال ہی میں 20ہزار کروڑ روپے (تین بلین ڈالر) کی جو سرمایہ کاری کی ہے‘ جس میں وزیراعظم مودی کا حصہ بھی ہے۔ ہتکِ عزت کے مقدمے کا فیصلہ آنے کے ساتھ ہی جس طرح راہول گاندھی کو پارلیمنٹ سے نکالا گیا ہے‘ کانگریس رہنما کے مطابق انہیں پارلیمنٹ میں وزیراعظم سے اس مبینہ کرپشن پر سوال پوچھنے اور چند اہم حقائق پیش کرنے سے روکنے کے لیے یہ اقدام کیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک خالصتاً قانونی مسئلہ ہے اور راہول گاندھی کو دو سال قید اور پارلیمنٹ کی رکنیت سے خارج کرنے کی جو سزا سنائی گئی ہے‘ وہ 2013ء کے ایک قانون کے مطابق ہے مگر دونوں طرف سے اس فیصلے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ کشمکش تیز ہوتی جا رہی ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور اپوزیشن دونوں اس صورتحال کو آئندہ (2024ء) پارلیمانی انتخابات کے لیے اسے اپنے اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں حکومت اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے بجائے اس کے سیاسی مضمرات پر زیادہ زور دے رہی ہے اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہتکِ عزت کا یہ مقدمہ 2019ء میں راہول گاندھی کی طرف سے ''مودی‘‘ لقب رکھنے والے لوگوں کو ''چور‘‘ قرار دینے پر درج کیا گیا تھا۔ ذات پات پر مبنی ہندو سماج میں ''مودی‘‘ لفظ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے والے لوگوں کا تعلق نسبتاً نچلے درجے سے ہے۔ اگرچہ راہول گاندھی کا اصل نشانہ وزیراعظم مودی تھے مگر اس نچلے طبقے (The Other Backward Class) نے اسے اپنی توہین سمجھا۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے اس نچلے طبقے کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے راہول گاندھی کے خلاف اس مقدمے کا جلد (2024ء کے انتخابات سے پہلے) فیصلہ سنانے اور اس کے ساتھ راہول گاندھی کی رکنیت ختم کرنے کے معاملے میں مداخلت کی ہے۔ اگر راہول گاندھی کو 30 یوم کے اندر اپیل کرنے کی رعایت میں کوئی ریلیف نہیں ملتا اور گجرات کے ایک مجسٹریٹ کی عدالت سے سنائی جانے والی یہ سزا برقرار رہتی ہے تو بھارتی اپوزیشن کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا کیونکہ ممتا بینر جی اور پنجاب میں اروند کجریوال جسے طاقتور اور پاپولر سیاسی رہنما موجود ہونے کے باوجود راہول گاندھی کی عدم موجودگی میں آنے والے انتخابات میں وزیراعظم مودی کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اگرچہ گزشتہ تقریباً دس برسوں میں راہول گاندھی نریندر مودی کی لہر کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہے ہیں اور اس وقت ان کے پاس کانگریس کا کوئی عہدہ بھی نہیں ہے‘ مگر کانگریس اور نہرو خاندان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی سیاست میں اپنے کردار کے باعث یہ خاندان‘ کانگریس کی پہچان بن چکا ہے۔ رسمی طور پر کانگریس کا کوئی عہدہ نہرو خاندان کے پاس ہو یا نہ ہو‘ یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان کو کانگریس سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں جو زیادہ تر علاقائی پارٹیاں ہیں‘ اس حقیقت سے واقف ہیں‘ اس لیے وہ بھی راہول گاندھی کی حمایت میں میدان میں اتر آئی ہیں کیونکہ کانگریس اور دیگر الفاظ میں راہول گاندھی کے بغیر آئندہ انتخابات میں مودی کا مقابلہ کرنے میں سخت دشواری پیش آئے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved