تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     29-03-2023

قائداعظم کے پہلے چار جانشین … (3)

ان چاروں نے قائداعظم کے بتائے ہر اصول کے پرخچے اڑا کر‘ تمام اخلاقی‘ قانونی اور آئینی اقدار کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر‘ فلاحی مملکت کے قیام کے حسین خواب کو ڈراؤنے خواب میں تبدیل کر کے‘ خدمتِ خلق کے اعلیٰ نصب العین کو خاک میں ملا کرپاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ یہ سطور لکھ چکا تو خیال آیا کہ میں نے صرف چار جانشینوں پر اکتفا کیوں کیا؟ ہماری خون کے آنسو رُلا دینے والی تاریخ تو 75برسوں پر محیط ہے۔ قائداعظم کے پہلے چار جانشینوں کے بعد جو آٹھ لوگ (صدر یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ان کی بیٹی اور داماد‘ نواز شریف اور ان کے بھائی اور ان کا سرپرست اعلیٰ صدر ضیا الحق اور آخر میں عمران خان) برسرِ اقتدار آئے انہوں نے عوام دشمنی‘ سامراج پرستی اور قومی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دینے میں اپنے پیشرو حکمرانوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ ہم اس وقت جس شدید بحران کا شکار ہیں‘ وہ ایک دن‘ ایک ماہ یا ایک سال میں پیدا نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا تھا‘ یہ نتیجہ ہے 75 برسوں کے ہر ماہ اور ہر ماہ کے ہر دن عوام دوستی اور وطن پرستی کو پامال کرنے کا۔ اگر حکمران طبقے کے سب افراد کے اعمال کو اکٹھا کیا جائے تو ہماری 75 سال کی تاریخ ایک بھیانک پہاڑ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ کس طرح کا پہاڑ؟ وہ جو ہمارے لیے باعثِ صد شرم اور مقام عبرت ہے۔ راہبروں کی راہزنوں میں تبدیلی کی داستان۔ کروڑوں کسانوں‘ مزدوروںکا خون نچوڑ کر اپنے محلات میں چراغ روشن کرنے والوں کے سر جھکا دینے والے کارناموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ کالم نگار اشکبار ہے۔ اس وقت ہماری مالی صورتحال کیسی ہے؟ صرف ایک مثال دینا کافی ہوگا۔ اگست 1947ء میں ہمارا ملک معرضِ وجود میں آیا تو خزانہ خالی تھا۔ دفتروں میں پِن تک نہیں تھے۔ کیکر کے درختوں سے کانٹے اتار کر کام چلایا گیا مگر برطانوی پائونڈ اور روپے کی شرح ایک اور تین کی تھی۔ 20 برس بعد میں بال بچوں کے ساتھ برطانیہ منتقل ہو رہا تھا تو سٹیٹ بینک نے بڑی مشکل سے پانچ افراد کو پندرہ پائونڈ دیے اور وہ بھی سات روپے فی پائونڈ کے حساب سے۔ اب روپیہ گرتا گرتا 349 روپے فی پاؤنڈ کی حد عبور کر چکا ہے اور گراوٹ کا یہ عمل تاحال جاری ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کالم کی اشاعت تک مزید کتنا گر چکا ہو۔
میں ملکی صورتحال سے دہشت زدہ ہو کر اپنی بوڑھی آنکھیں بند کر لیتا ہوں تو مجھے گرتی ہوئی دیواروں کی وحشت ناک آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ سرکار کو سنبھالا دینے والے ستونوں کے گرنے کی آوازیں۔ پارلیمان‘ نظامِ انصاف‘ امن عامہ کے قیام کی ذمہ دار مشینری‘ نظامِ تعلیم اور صحت یعنی تمام محکموں اور شعبہ جات کے انہدام کی آوازیں۔ سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرنے کی آوازیں۔ ڈوبتے ہوئے جہاز سے جلدی جلدی اتر کر بیرونِ ملک بھاگنے والوں کے قدموں کی آوازیں۔ شرمناک اور حد درجہ ناقابلِ اعتبار آڈیو اور وڈیو لیکس میں کیے جانے والے ناقابلِ تحریر انکشافات کی آوازیں۔ بے گناہ مگر زیرِ عتاب افراد کی آہ و بکا کی آوازیں۔ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دینے کے بے معنی اور کھوکھلے نعروں کی آوازیں۔ گلگت سے مصیبت زدہ عوام‘ وانا سے امن پسند قبائلی لوگوں اور گوادر سے ناانصافی کا شکار ہونے والے ماہی گیروں کی آوازیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانی حقوق کی حفاظت کے ذمہ دار لاکھوں وکیلوں کے گلے میں پھنسی ہوئی مگر باہر نہ نکلنے والی آوازیں۔ اجڑے ہوئے چمن میں بلبل کے بجائے اُلو کی منحوس آوازیں۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اَن گنت نعمتوں کو ٹھکرانے والوں پر عذابِ الٰہی نازل ہونے کی خبر دینے والی آوازیں۔ سلطانی جمہور اور قوتِ اخوتِ عوام سے محروم کروڑوں بے بس لوگوں کی سسکیوں کی آوازیں۔ اُن بدنصیب لوگوں کی گریہ زاری کی آوازیں جنہوں نے اپنی نجات کی دعائوں کے لیے ہاتھ اٹھایا تو انہیں پتا چلا کہ وہ تو رسمِ دعا بھی ایک عرصہ سے بھول چکے ہیں۔
قائداعظم کے تیسرے جانشین کی باری آئی تو 24گھنٹوں کے اندر ہونے والے تین المناک سانحوں نے کالم نگار کے ذہن کو اتنی بری طرح متاثر کیا کہ وہ موضوع سے بھٹک کر وطنِ عزیز سے آنے والی طرح طرح کی آوازیں سننے اور اپنے قارئین کو سنوانے لگ گیا۔ اب ہم چلتے ہیں اسکندر مرزا کی طرف۔ وہ مشرقی پاکستان (آج کے بنگلہ دیش) کے ایک پرانے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے برطانیہ کے شہرۂ آفاق فوجی تربیت کے ادارے (Royal Military College, Sandhurst) میں عسکری تعلیم حاصل کی اور برطانوی فوج میں بطور کمیشنڈ افسر شامل ہوئے مگر وہ فوج میں بھرتی ہونے کے بجائے ہندوستان پر حکومت کرنے والی برٹش حکومت کی اس سروس میں شامل ہو گئے جس کے افسران ہندوستان کی پانچ سو سے زیادہ ریاستوں اور قبائلی علاقوں میں (برٹش راج کی آنکھیں اور کان بن کر) پولیٹکل ایجنٹ کے عہدے پر فائض ہو کر برطانوی مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ اسکندر مرزا کی ملازمت نے اسے محلاتی سازش کرنے‘ کٹھ پتلیاں نچانے اور جوڑ توڑ کرنے کا ماہر بنا دیا۔ پاکستان بنا تو وہ وفاقی حکومت کی وزارتِ داخلہ میں اعلیٰ افسر بن گئے اور انہیں پولیٹکل ایجنٹ کے گُر عملاً آزمانے‘ مخالفوں کو دیوار کے ساتھ لگانے اور اپنے حلیفوں کی صف بندی اور دھڑے بازی کے فن کو کمال تک پہنچانے کا موقع مل گیا۔ وہ ملک غلام محمد کو برطرف کرانے اور خود گورنر جنرل کے عہدے پر فائض ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بڑی بدقسمتی تھی کیونکہ انہوں نے وزیراعظم (چوہدری محمد علی) کے 23 مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے آئین کا گلا ڈھائی سال میں گھونٹ دیا۔ انہوں نے پاکستان کی امریکہ سے گہری دوستی کو آگے بڑھ کر رشتہ داری میں یوں بدلا کہ ان کے بیٹے نے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کی بیٹی سے شادی کر لی۔ اسکندر مرزا گورنر جنرل اور پھر صدر بننے سے پہلے مشرقی پاکستان میں گورنر رہ چکے تھے جہاں انہوں نے آزادانہ انتخابات میں مشرقی پاکستان کی عوامی اسمبلی (جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ پر واضح برتری حاصل کر لی تھی) کو توڑ کر اس مہلک کارروائی کا آغاز کر دیا جو چند سال بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور پاکستان میں جمہوریت کی بساط اگلے 12 برس کے لیے لپیٹ دی گئی۔ انہوں نے شاہانہ اندازِ حکومت اختیار کیا۔ ان کی اہلیہ ناہید پاکستان میں ایران کے سفارتخانہ کے ایک افسر کی سابق بیوی تھی۔ یوں ان کی شادی نے پاکستان کو ایران سے قریب لانے میں وہی کردار ادا کیا جو ان کے بیٹے کی شادی نے پاکستان کو امریکہ کے قریب لانے میں کیا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت کے پہلے تین گورکنوں نے اپنے پیشروؤں کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے جمہوری اقدار کی قبر کو اتنا گہرا کھودا کہ اہلِ وطن نے بجا طور پر یہ سوچا کہ ان افراد کے پیش رو مقابلتاً بہتر تھے۔ اسکندر مرزا کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں اقتدار کی تبدیلی میوزیکل چیئر کا کھیل بن گئی۔ اسکندر مرزا کے چار سالہ دورِ حکومت میں پاکستان پر امریکی بالادستی کئی گنا بڑھی۔ پاکستان کی خود مختاری مزید مجروح ہوئی اور بچے کھچے متاعِ غرور کا سودا کرنے کا عمل اور تیز ہوا۔ معاملہ بگڑتا بگڑتا یہاں تک پہنچا کہ سرکاری تقریبات میں پاکستانی افسران اور وزرا آپس میں بات کرتے ہوئے ایک جملہ بھی اردو زبان کا بولتے تھے تو امریکی انہیںShut Up کہہ کر چپ کرا دیتے تھے۔ اگر یہ بات سنی سنائی ہوتی تو مجھے ہر گز اعتبار نہ آتا مگر یقین جانیے کہ صدر ایوب خان کے دور میں ایک شام واقعی ایسے ہی ہوا اور اسے قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح عمری کے صفحات 914 تا 915 پر من و عن بیان کیا ہے۔ ان سطور کو اگلے کالم میں شامل کیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved