تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-09-2013

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟

دیو سائی میدانوں کی خوبصورتی برقرار رہ جانے کا ایک سبب یہ ہے کہ پورے دیو سائی میں آپ کو سوائے دو پلوں کے سیمنٹ، اینٹ، سریے اور کنکریٹ کی کوئی تعمیر نظر نہیں آتی۔ یہی دیو سائی کی خوبی ہے اور یہی ایک خرابی بھی کہ دیو سائی میں فیملی کے ساتھ رات گزارنے کا کوئی انتظام نہیں۔ تاہم اگر ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو‘ تو میرا ووٹ ہوگا کہ دیوسائی میں تعمیرات پر پابندی برقرار رہنی چاہیے کہ اسی سے اس نیشنل پارک کا ماحول قدرتی حسن و جمال کے ساتھ برقرار رہ سکتا ہے‘ وگرنہ ہر اس علاقے کی طرح جہاں آمد و رفت آسان اور رہائش کی سہولتیں میسر ہیں‘ لوگ اتنا گند ڈالتے ہیں کہ ساری قدرتی خوبصورتی برباد ہوجاتی ہے۔ دیو سائی ابھی تک اس خرابی سے محفوظ ہے؛ تاہم جہاں جہاں لوگوں کا بس چلتا ہے اپنی سی کر گزرتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت قانون کا علم رکھتی ہے۔ جہاں سختی ہو‘ لوگ اس پر عمل بھی کرتے ہیں مگر جہاں انتظامی گرفت تھوڑی ڈھیلی ہوتی ہے وہاں لوگ قانون توڑنا فخر سمجھتے ہیں۔ موٹروے پر والدین بچوں کو سختی سے منع کرتے ہیں کہ کوئی لفافہ، شاپر، کاغذ، خالی ڈبے یا کوئی اور چیز باہر نہ پھینکیں۔ یہ سختی اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ والدین کو موٹروے کی صفائی عزیز ہے یا وہ بچوں میں ذمہ دار شہری بننے کے جذبے کو فروغ دینا چاہتے ہیں؛ بلکہ وجہ صرف یہ ہے کہ موٹروے پر گندگی پھیلانے پر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے لہٰذا اس جرمانے کی وجہ سے موٹروے پر سفر کے دوران بچوں کو بسکٹوں کے خالی ڈبے، ٹافیوں کے ریپر اور جوس وغیرہ کے خالی ڈبے شاپر میں ڈالنے کی ہدایت کی جاتی ہے اور والدین اس ہدایت پر سختی سے عمل بھی کراتے ہیں؛ تاہم جونہی یار لوگ ٹال ٹیکس دے کر موٹر وے سے اترتے ہیں پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ شاپر کو گاڑی سے باہر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں تفریحی مقامات کو صاف رکھنے کی پہلی ذمہ داری سول سوسائٹی اپنے ذمہ لیتی ہے‘ قانون کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ لوگ خود اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صاف معاشرے کا سب سے بڑا اور پہلا فائدہ خود انہیں ہوتا ہے۔ وہ صاف ماحول کے پہلے ثمر یافتہ ہیں۔ تفریحی مقامات تو ایک طرف رہے‘ مغربی معاشرے میں سول سوسائٹی شہروں، گلیوں، سڑکوں اور باغات وغیرہ کو خود صاف رکھتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دور کاغذکا ٹکڑا دیکھ کر بزرگ عورت یا مرد چل کر وہاں گئے، کاغذا کا ٹکڑا اٹھایا اور ایک طرف بڑے ویسٹ بن میں ڈال دیا۔ ہمارے ہاں یہ سسٹم ہے کہ گندگی پھیلانا عوام کا فرض ہے اور اسے سمیٹنا حکومتی ذمہ داری ہے۔ آشٹن انڈر لائن مانچسٹر کے قریب ایک ٹائون ہے۔ میں وہاں اپنے ایک دو شاعر دوستوں کے ہمراہ مارکیٹ میں خریداری کررہا تھا۔ اس دوران برطانیہ میں مقیم ہمارے ایک شاعر دوست نے اپنے لیے ایک قمیض خریدی۔ اس نے اس قمیض کا پرائس ٹیگ اتارا اور ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اسی دوران اس نے بالکل بے دھیانی میں ٹیگ کو دس بارہ ٹکڑوں میں پھاڑ کر لاپروائی سے پھینک دیا۔ ساتھ جانے والی ستر پچھتر سال کی ایک معذور گوری نے‘ جو معذوروں کے لیے مخصوص تین پہیوں کی بجلی سے چلنے والی موٹرسائیکل پر سوار تھی‘ پیچھے سے آ کر ہمارے اس دوست کو بازو سے پکڑا اور کہنے لگی ’’میں معذوری کی وجہ سے یہ کاغذ کے ٹکڑے نہیں چُن سکتی وگرنہ میں خود اٹھا لیتی اور تمہیں تکلیف نہ دیتی مگر اب یہ تم اٹھائو اور ان ٹکڑوں کو وہ سامنے پڑے ویسٹ بن میں ڈالو۔ بصورت دیگر میں ٹائون کونسل والوں کو فون کرنے مجبور ہوجائوں گی‘‘۔ ہمارے شاعر دوست نے وہ سارے ٹکڑے اٹھائے اور سامنے دیوار کے ساتھ پڑے ہوئے ویسٹ بن میں ڈال دیئے‘ پھربڑبڑاتا ہوا آیا اور کہنے لگا بہرحال غلطی میری تھی۔ میں نے ایک ٹیگ کوڑے کی ٹوکری میں نہیں ڈالا اور بارہ پندرہ ٹکڑے چُن کر ڈالنے پڑے۔ ہمارے ہاں اوّل تو کسی کو گلی محلے میں، سڑک پر یا کسی جائے عام پر کوڑا کرکٹ پھینکتے ہوئے کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہوتی اور سول سوسائٹی بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ چنانچہ کوئی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا اور اگر بالفرضِ محال کسی کو احساس ہو جائے اور وہ کسی فرد کو سمجھانے کی کوشش کرے تو معاملہ خون خرابے تک پہنچ سکتا ہے۔ کوئی شخص غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنا پھینکا ہوا کوڑا کرکٹ اٹھانے پر قطعاً تیار نہیں ہوگا۔ یہ اس دین کے پیروکاروں کا حال ہے جن کے لیے آقائے دوجہاںؐ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا۔ پاکستان میں جہاں جہاں عام آدمی کی رسائی ہے وہاں اور کچھ ملے نہ ملے‘ ہوا میں اڑتے ہوئے شاپر ضرور ملیں گے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ پر یا تو پابندی لگ چکی ہے یا لوگ اسے ضائع کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اسے ’’ری سائیکلنگ‘‘ والے ویسٹ بن میںڈالتے ہیں تاکہ یہ ہوا میں اُڑ کر اِدھر اُدھر گندگی کا باعث بننے کے بجائے ری سائیکل ہو کر دوبارہ کسی کام آسکیں۔ ٹیٹرا پیک جوس کے خالی ڈبے اور پلاسٹک شاپنگ بیگز، ان دو چیزوں نے پاکستان کے ہر تفریحی مقام اور پکنک کی جگہ کے حُسن کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ راولا کوٹ سے آگے کشمیر میں بنجوسہ جھیل، نگر وادی کی رش جھیل، سون سکیسر کی کھبیکی اور اچھالی جھیلیں، وادی ناران کی جھیل لو لوسر ، وادی کالام کے آخری سرے پر مہوڈنڈ، وادی سوات کی کنڈل جھیل، وادی استورکی راما جھیل، سکردو کی اپرکچورا اور ستپارہ اور وادی کاغان کی دودی پت سر اور شہرہ آفاق سیف الملوک جھیل‘ سب کی سب آلودگی کا بری طرح شکار ہیں اور ان میں سیرو تفریح کے لیے آنے والے سیاحوں کے خالی کیے ہوئے جوس کے ڈبے، چپس کے پیکٹ اور پلاسٹک کے شاپنگ بیگز تیرتے نظر آتے ہیں۔ چند سال پہلے سیف الملوک جھیل گیا تو نسبتاً صاف نظر آئی۔ پتہ چلا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے رضا کار لڑکوں کا گروپ آیا تھا اور اس نے کئی دن لگا کر جھیل کی ساری آلودگی صاف کی تھی۔ تھوڑے عرصے بعد پھر وہی حال ہوگیا۔ دور افتادہ اور دیو سائی کے وسط میں واقع شیوساریاشائو سر جھیل کا حال اتنا برا تو نہیں تھا مگر اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہاں آنے والے سیاحوںکی تعداد کافی کم ہے۔ زیادہ فیملیز نہیں آتیں اور جھیل تک رسائی کا صرف ایک راستہ ہے۔ جہاں یہ راستہ جھیل پر ختم ہوتا ہے وہاں سب چیزیں موجود تھیں۔ تیرتے ہوئے خالی جوس کے ڈبے، چپس کے خالی پیکٹ اور شاپنگ بیگز۔ کامران اور میں نے بچوں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جھیل کا یہ سارا کنارا صاف کریں۔ سب بچوں نے جھیل کے کناروں کے ساتھ ساتھ تیرتا ہوا اور کنارے کے ساتھ خشکی پر پڑا ہوا یہ سارا کوڑا کرکٹ اٹھا کر تین تھیلوں میں بھرا اور گاڑی میں رکھ دیا۔ وہاں بچوں سے صفائی کروانے کے بعد ان سے وعدہ کیا گیا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں اس سلسلے میں صفائی کا خیال رکھیں گے اور قدرتی حسن کو داغ دار ہونے سے بچائیں گے۔ سات سالہ فاطمہ کی کارکردگی سب بچوں سے بہتر رہی۔ جیپ چلی تو میں دیر تک پلٹ کر دور ہوتی ہوئی اس خوبصورت جھیل کو دیکھتا رہا تاوقتیکہ ایک بلندی سے نیچے اترنے کے بعد یہ جھیل میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ جھیل کے نظر سے غائب ہوتے ہی یہ خیال مجھے اور اداس کر گیا کہ پتہ نہیں میں اس جھیل کو پھر دیکھ پائوںگا یا نہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ خیال ہوا ہوگیا اور میں نے سوچا کہ کیا یہ خوش قسمتی کم ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس جھیل کو دوبار دیکھا ہے۔ پہلی اسیّ کی دہائی میں اور اب تقریباً تین عشروں بعد دوبارہ۔ کتنے لوگ ہونگے جنہیں خدا نے یہ موقع فراہم کیا ہوگا؟ ہم لاحاصل چیزوں پر ملول ہونے کے بجائے حاصل چیزوں پر شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ میں نے حاصل چیزوں پر غور کرناشروع کیا تو دل شکر کے جذبات سے بھر گیا۔ بے شمار ایسی نعمتیں یاد آئیں جو مجھے حق کے طور پر نہیں‘ مالک نے فیّاضی کے طور پر عطا کی تھیں۔ اللہ نے اس عاجز اور گناہ گار پر اتنی کرم فرمائی کی ہے کہ ایک زندگی شکر ادا کرنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved