لاہور کے جلسے میں عمران خان نے معیشت کی بحالی کا جو دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے‘ بجائے اس کے کہ وہ اسمبلی کے اجلاسوں، تجزیوں اور تبصروں میں جگہ پاتا‘ ہم ابھی تک جلسے کی کامیابی اور ناکامی کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ کاش کہ کالم میں لاہور کو دیگر شہروں سے ملانے والے 30 اور لاہور کے اندر‘ مینارِ پاکستان جانے والے 87 مقامات کا نقشہ دکھایا جا سکتا جہاں کنٹینرز کھڑے کر کے مینارِ پاکستان پہنچنے کے سارے راستے مسدود کر دیے گئے تھے۔ کیا ملکی تاریخ میں کبھی جلسوں‘ جلوسوں سے قبل اس طرح پکڑ دھکڑ کے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں؟ نئی نسل کو اس سیاسی کلچر سے کون روشناس کرا رہا ہے؟ جس کے گھر کے دروازے توڑ کر یا پھلانگ کر‘ بنا کسی وارنٹ کے گھر میں داخل ہوا جائے‘اس کے باپ اور بھائی کو مارتے پیٹتے ہوئے گھروں سے نکالا جائے اور کوئی اطلاع دیے بغیر اٹھا لیا جائے‘ اس سے آپ کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے غصے کو دبا کر‘ اچھے بچوں کی طرح حکومت کی دکھائی گئی لائن پر چلنا شروع کر دے؟ یہ محض ایک جلسہ ہی تھا‘ وہی جلسہ‘ جو مسلم لیگی قیادت جگہ جگہ کر رہی ہے۔ اگر مسلم لیگ نواز کی طرح عمران خان کو بھی آسانی سے جلسہ کرنے دیا جائے تو اس سے نگران حکومت یا کسی سیاسی جماعت کا کیا بگڑنا تھا؟ فواد چودھری کے مطابق‘ اس جلسے سے قبل پنجاب اور وفاقی دارالحکومت سے لگ بھگ دو ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا گیا۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد سے ایک گھر سے پانچ بچے‘ جو سکول اور کالج کے طالبعلم تھے‘ حراست میں لیے گئے، گزشتہ روز بھی 12، 13 اور 14 سال عمر کے تین چھوٹے بچوں کو وفاقی دارالحکومت سے پکڑ کر جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا‘ ان بچوں سے متعلق چیئرمین تحریک انصاف نے ایک ٹویٹ بھی کیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق‘ ایک سبزی فروش بچے کو بھی پکڑ کر دو ہفتوں کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ان سب اقدامات کا مقصد کیا ہے؟ پاکستان کی بات کرنے والے‘ نئی نسل کے ذہنوں میں وطن کی مٹی سے عشق کی شمع جلانے والے‘ پاکستانیت کو عام کرنے والے کدھر چلے گئے ہیں؟ سول سوسائٹی کیوں فعال نہیں ہے؟ ہمارا دانشور طبقہ کدھر چلا گیا ہے؟ اس خلیج کو پاٹنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی؟
دیکھتی آنکھوں اور جاگتے ذہنوں نے دیکھا کہ پچیس مارچ کی رات لاہور کا گریٹر اقبال پارک اور اس کے اردگرد کی گلیاں‘ سڑکیں‘ عمارتیں‘ اور پُل انسانوں کا سمندر لیے ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ اس طرح بھرے ہوئے تھے کہ تل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کئی برسوں سے سکون کی نیند سوئے ہوئے کسی دریا نے دنیا کو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کے لیے بھرپور انگڑائی لی ہو۔ اس قدر رکاوٹوں کے باوجود لوگ جلسہ گاہ تک کیسے پہنچے‘ اس حوالے سے وہاں تک پہنچنے والے ہر فرد کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو نہر سے جیسے ہی فیروز پور روڈ‘ اچھرہ پل پر پہنچے تو مرکزی شاہراہ سے ملانے والی ملحقہ سڑک کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا۔ گویا جلسہ گاہ سے کم و بیش دس کلومیٹر دور سے ہی رکاوٹوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ یہ نہر سے فیروز پور روڈ آنے والوں کی بات کی جا رہی ہے۔ اب ہم نے راستہ بدلا۔ انڈرپاس سے ہوتے ہوئے شادمان کی جانب گئے، تو وہ راستہ بھی بند تھا۔ وہاں سے جیل روڈ کی جانب بڑھے تو وہاں پولیس کی بھاری نفری نظر آئی جس کے پاس آنسو گیس اور لاٹھیوں کی بھرمار تھی۔ کچھ اہلکار مختلف رکاوٹوں اور کنٹینرز پر پہرہ دے رہے تھے۔ پھر واپسی ہوئی اور ظفر علی روڈ سے سیدن شاہ کی گلیوں سے ہوتے ہوئے ڈیوس روڈ کی جانب بڑھے۔ مسلم لیگ ہائوس سے مال روڈ جانے والی سڑک پر کنٹینرز، وہاں سے پریس کلب سے ہوتے ہوئے ایبٹ روڈ سے گزر کر لکشمی چوک پہنچے۔ وہاں سے جیسے ہی بانسوں والے بازار اور میو ہسپتال کی کپڑا مارکیٹ کا رخ کیا تو آگے تمام راستے بند تھے۔ وہاں سے واپس گوالمنڈی کا رخ کیا اور ایک تنگ سی گلی سے موچی دروازے‘ اور وہاں سے ہوتے ہوئے واپس شاہ عالم چوک کی طرف آئے۔ شاہ عالمی سے نکلنے والے سبھی رستوں پر بڑے بڑے کنٹینرز پڑے تھے۔ آگے ایک بغلی سڑک کی جانب مڑے تو وہاں بھی ایک بڑا کنٹینر تھا۔ وہاں سے بھاٹی دروازہ اور داتا دربار کی طرف بڑھے تو دیکھا کہ پیسہ اخبار مارکیٹ، انار کلی اور اردو بازار‘ سبھی سڑکیں کنٹینرز لگا کر بند کی گئی تھیں۔ ادھر ادھر گھومتے گھماتے کسی طرح داتا دربار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب آگے کے سبھی راستے پوری طرح سے بند تھے۔ برادرِ عزیز ابرار خان ایڈووکیٹ نے گاڑی یہیں پارک کی اور وہاں سے ہم پیدل‘ لگ بھگ ڈیڑھ کلومیٹر دور مینار پاکستان جلسہ گاہ کی جانب چل پڑے۔ یہ ہم دو افراد کہانی ہے کہ کس طرح ہم جوہر ٹائون سے جلسہ گاہ تک پہنچے۔ کتنے گھنٹوں میں پہنچے‘ یہ الگ داستان ہے۔
یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ان حالات کے باوجود بحث اس بات پر ہو جلسہ گاہ میں کتنے لوگ تھے، عمران خان کی تقریر کے وقت جلسہ گاہ کا کیا عالم تھا تو صاف ظاہر ہے کہ آپ اس جنون کو ابھی تک نہیں پہچان سکے جو لوگوں کو جلسہ گاہ تک لے جانے میں کامیاب ہوا۔ واضح رہے کہ رمضان المبارک کے علاوہ شدید بارش، سردی کی شدت اور نصف شب‘ یہ سب ایسے عوامل ہیں جو آج تک کسی اور‘ کسی بھی جماعت کے جلسے میں یکجا نہیں دیکھے گئے۔ جلسہ گاہ کے اندر کے مناظر تو وقت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو دیکھنے کو ملتے رہیں گے، یہ الگ بات کہ کچھ لوگ اب بھی اس حوالے سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ملکی ذرائع ابلاغ کو چھوڑیں‘ انٹرنیشنل میڈیا پر ایک نظر ڈال لیں‘ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ کچھ لوگ تو عمران خان کے خلاف باقاعدہ پارٹی بن چکے ہیں‘ اس لیے ان سے یہ امید رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ سچ بولیں۔ اس وقت بولنے اور سوچنے کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ ''چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے‘‘۔ کل کو اگر ''زندانوں کی خیر ہو‘‘ کے نعرے گونجنے لگیں تو پھر آج قہقہے لگانے والوں کے پاس شکوہ اور شکایت کی گنجائش نہیں ہو گی۔ جوکچھ آج کر رہے ہیں‘ جو بو رہے ہیں‘ کل کو جب یہی کچھ کاٹنا پڑے گا تو پھر شور کیسا۔
لاہور کے اس جلسے میں شریک عوام کو سب نے دیکھا ہو گا۔ یہ وہ نوجوان‘ فیملیز اور چالیس‘ پچاس سے زائد عمر کے لوگ تھے جو سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں شرکت نہیں کیا کرتے۔ اس جلسے میں اس ملک کا مستقبل بھی میلوں پیدل چل کر‘ سبھی رکاوٹوں کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوا پہنچا ہوا تھا۔ اس طبقے کی سوچ کو اگر کوئی جبر و قہر سے مٹانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو اسے فی الفور اپنا ہاتھ روکنا ہو گا۔ اپنی تمام پلاننگ کو ختم کرنا ہو گا۔ اگر ان کے چہرے نہیں دیکھ سکتے تو ان کی آنکھوں میں اترا ہوا غصہ اور انتقام ہی دیکھ لیں۔ آپ کی ہر غلطی اس منافرت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ اس جلسے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کا عمران خان کے حوالے سے بیان انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے‘ جس میں سب کے ہاتھ جھلس جائیں گے۔ ذرا 23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں متحدہ جمہوری محاذ کے جلسے پر ہونے والی فائرنگ کے واقعے کو ذہن میں تازہ کیجیے۔ 12 افراد کی لاشیں پنجاب سے پشاور پہنچنے کے بعد اجمل خٹک کے قلیل گروہ نے جو آگ لگائی‘ وہ تاریخ کے ساتھ ساتھ جمعہ خان صوفی کی کتاب میں بھی درج ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ رک جایئے‘ مت کیجئے‘ آگے بڑھ کر اپنے بچوں کو سینے سے لگائیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved