تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     29-03-2023

جنوبی ایشیا پہ پیراڈائم شفٹ کے اثرات

گلوبل پیراڈائم شفٹ کے تناظر میں جنوبی ایشیا پہ وارد ہونے والے سیاسی و اقتصادی تغیرات میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بڑھنے کی وجہ سے ہمہ جہت دبائو میں بھی اضافہ ہوا‘ جو ہمیں نئے حالات سے نمٹنے پر مجبور کرے گا۔ اس وقت امریکہ اور چین کے مابین تجارتی مقابلے نے جہاں یورپ کی اقتصادی وسیاسی اقدار میں تبدیلیوں کی راہ ہموار کی‘ وہاں جنوبی ایشیا بھی ہمہ جہت معاشی، سیاسی اور تزویراتی ارتعاش کی زد میں ہے۔ ایشیا پہ نظر رکھنے والے چند تجزیہ کار چین، امریکہ تجارتی مقابلے کو ایٹمی جنگ میں بدلتے عالمی تنازع کے طور پر پیش کرکے پاکستان کی قومی پالیسی پہ اثرانداز ہونے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں کیونکہ طاقت کا توازن بدلنے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں تین سو سالوں پہ محیط مغرب کے سیاسی، فوجی، اقتصادی اور ثقافتی تسلط کو خطرات لاحق ہیں۔
20 سے 22 مارچ تک روس کے دورے میں چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جس نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھی‘ وہ انہی حقائق کی نشاندہی کرتا ہے۔ صدر شی جن کا دورہ ٔماسکو اہم تھا جس میں پروٹوکول کی رسموں کے بجائے سنجیدہ تجارتی امور طے پائے؛ تاہم دونوں رہنماؤں کے مابین بیک ٹو بیک ملاقاتوں کے علاوہ صدر پوتن اور صدر شی جن کی ساڑھے چار گھنٹے پہ محیط ون آن ون ملاقات غیرمعمولی تھی۔ چینی صدر نے رواں سال فروری میں دورۂ ماسکو کے دوران یوکرین تنازع کا پُرامن حل تجویز کیا تھا جسے امریکہ نے مسترد کر دیا، شاید امریکہ روس کے لیے یوکرین جنگ سے نکلنے کے راہیں مسدود کرنا چاہتا ہے لیکن یہ جنگ فی الاصل یورپ کے مستقبل کو گہنا دے گی۔ شاید اسی لیے یورپ اپنی بقا کی خاطر امریکہ کے ساتھ موروثی وابستگی پہ نظرثانی کرنے پر مجبور ہے۔ مغرب اب پہلی عالمی جنگ کے نیو نوآبادیاتی ماڈل سے نکل کر اوپن مارکیٹ اکانومی، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے تصور سے نجات کی راہیں ڈھونڈ رہا ہے کیونکہ یورپ کی معدوم ہوتی نسلوں کو چین کے نیواتھارٹیرین سسٹم میں اپنی بقا دکھائی دیتی ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی مقابلے نے امریکہ کے علاوہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا؛ چنانچہ اس سال کے آغاز میں واشنگٹن میں ہونے والے معاہدے کا مقصد 2018ء میں شروع ہونے والی چین‘ امریکہ تجارتی جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کرنا تھا، مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔ آج امریکہ اور چین کے درمیان دشمنی جزئیات تک پھیل چکی ہے‘ جو دو بڑی طاقتوں کے مابین عالمی جغرافیائی سیاسی بالادستی کے حصول کی عکاس ہے۔ اس نئی صورتحال نے یورپی یونین کے مستقبل کے لیے اس سوال کو اہم بنا دیا ہے کہ چین کے ساتھ کس طرح نمٹنا جائے۔ یورپی ماہرینِ سیاست کا خیال ہے کہ اس سوال کا مثبت جواب ہی ان کی بقا کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ بیجنگ کے ساتھ تعلقات کے ہر شعبے میں اتحاد ناگزیر ہے کیونکہ کوئی بھی یورپی ملک اپنے طور پر اس قابل نہیں کہ وہ چین کے حجم اور طاقت کے مقابلے میں اپنے مفادات اور اپنی اقدار کا دفاع کر سکے۔
اٹھارہویں صدی سے پہلے‘ یورپ کے صنعتی انقلاب تک‘ چین دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ 1820ء میں اس نے دنیا کی کُل پیداوار کا 30 فیصد پیدا کیا جو یورپ اور امریکہ کی مشترکہ پیداوار سے بھی زیادہ تھا، لیکن چین نے ہمیشہ اپنے آپ کو متوسط سلطنت کے مقام پر رکھا۔ جب چینی تہذیب کا سورج نصف النہار پر تھا‘ تب بھی چین نے اپنی اقدار برآمد کرنے سے احتراز برتا؛ تاہم موجودہ چینی قیادت کے رویے میں کچھ جوہری تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ چنانچہ ''میڈ اِن چائنہ‘‘ 2025ء پلان کے تحت چین نے عالمی معاشی طاقت بننے کے عزم کو ظاہر کیا۔ صدر شی کی طرف سے پیش کردہ ''چین کا خواب‘‘ اسی مقام کے حصول کا ذریعہ ہوگا؛ یعنی چین اُس سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو امریکہ کے عالمی منظر نامے سے پیچھے ہٹنے کے باعث پیدا ہوا۔ چین کا مقصد یک قطبی عالمی نظام کو چینی خصوصیات کے ساتھ کثیرالجہتی نظام میں تبدیل کرنا ہے جس میں اقتصادی اور سماجی حقوق کو سیاسی اور شہری حقوق پر ترجیح دی جائے گی اور یہی پالیسی تیزی سے سکڑتی سفیدفام نسلوں کے لیے کشش کا باعث بنی۔ 1974ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈینگ ژیاؤپنگ کی تقریر سے مملو چینی خارجہ پالیسی کے وہ دن گئے جب انہوں نے کہا تھا کہ چین سپر پاور ہے‘ نہ ہی وہ کبھی سپرپاور بننے کی کوشش کرے گا۔ سپر پاور کیا ہے؟ سامراجی ملک‘ جو ہر جگہ دوسرے ممالک کو اپنی جارحیت، مداخلت، کنٹرول، بغاوت یا لوٹ مار کا نشانہ بنا کر عالمی تسلط کے لیے کوشاں رہے لیکن آج رابطے کی صحت مند ڈپلومیسی کے تحت دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار میں اس کے بنیادی مفادات کا غیر مبہم اور غیر مشروط تحفظ بھی شامل ہے۔ توسیع پسند کے مثبت تصور کے تحت باقی دنیا کے لیے چین کا رویہ نمایاں طور پر تبدیل ہوا حالانکہ سونگ خاندان (960ء تا 1279ء) کے تحت جب چین نے سمندری پانیوں پر غلبہ پایا‘ تب بھی اس نے دیگر ممالک پر قبضے یا بیرونِ ملک نوآبادیات قائم کرنے کے لیے اس طاقت کو استعمال نہ کیا۔ 1405ء اور 1433ء کے درمیان‘ اس سے قبل کہ یورپی سمندری مہمات شروع کرتے‘ چینی ایڈمرل زینگ بحری بیڑے کے ساتھ جاوا، انڈیا، ہارن آف افریقہ اور آبنائے ہرمز کاسفر مکمل کر چکا تھا۔ سائز اور نفاست میں 150 سال بعد کے ہسپانوی آرماڈا سے بہت آگے ہونے کے باوجود سمندر پار ممالک پر مستقل قبضے یا دیگر اقوام کے استحصال کا کوئی منصوبہ نہ بنایا گیا، مگر اب چین اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے تکنیکی اور عسکری فوائد استعمال کرنے کو تیار ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق‘ گزشتہ 30 سالوں میں چین کے عسکری اخراجات ایک سے بڑھ کر 14 فیصد ہوئے جس میں امسال 6.6 فیصد اضافہ ہوا۔ صدر شی جن پنگ 2049ء یعنی عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 100ویں سالگرہ تک‘ پیپلز لبریشن آرمی کو اہم دفاعی ٹیکنالوجی فورس بنانا چاہتے ہیں۔
1989ء میں تیانمن سکوائر واقعے کے بعد چین پرہتھیاروں کی خریداری پر عائد یورپی پابندیاں آج بھی نافذ ہیں لیکن چین اب فوجی سازوسامان کی درآمد پر انحصار نہیں کرتا‘ اس نے خود اول درجے کے اسلحے کی صنعت کھڑی کر لی۔ اس کے ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی برآمدات ہر سال بڑھ رہی ہیں۔ اگرچہ چینی فوجی صلاحیتیں ابھی امریکہ کے مقابلے میں کم ہیں لیکن یہ فاصلہ چند دہائیوں پہلے کے مقابلے میں بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اگلے ایک سال میں چین کے پاس چار آپریشنل طیارہ بردار بحری بیڑے ہوں گے۔ امریکی رپورٹس بتاتی ہیں کہ چین اب امریکی بحری تسلط اور مغربی بحرالکاہل پر کنٹرول کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ لیکن چین لڑے گا نہیں اور چینی بورڈ گیمز اس کی واضح مثال ہیں کہ چینی یورپیوں سے مختلف سوچتے ہیں۔ یورپی شطرنج کے شوقین ہیں جس کا اختتام مکمل فتح پر ہوتا ہے؛ تاہم چینی 'گو‘ کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں مقصد بورڈ پر خالی جگہوں پر قبضہ جمانا ہے تاکہ مخالف کو گھیر کر اس کی جواب دینے کی صلاحیت کم کی جائے، جیسا کہ مشہور چینی ماہر سن زو نے دی آرٹ آف وار میں کہا تھا: جنگ کا سب سے بڑا فن بغیر لڑے دشمن کو زیر کرنا ہے۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کار چین‘ امریکہ تجارتی مقابلے کو نئی سرد جنگ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ امریکہ اور سوویت یونین کبھی معاشی طور پر اس قدر جڑے ہوئے نہ تھے جیسے چین اور امریکہ ہیں۔ ڈالر کے استحکام کے علاوہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کا استحکام، متضاد حد تک کمیونسٹ پارٹی آف چائنا پر منحصر ہے کیونکہ جاپان کے بعد امریکی ٹریژری بانڈز کا دوسرا سب سے بڑا مالک چین ہے۔
2001ء میں مغرب نے چین کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اس امید پہ خوش آمدید کہا کہ تجارت کو آزاد کرنا سیاسی کھلے پن کا سبب بنے گا لیکن یہ سوچ غلط ثابت ہوئی۔ اس کے برعکس چین نے وہ نمونہ پیش کیا جس نے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ اقتصادی اور سیاسی کشادگی ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ اختلاف کی ہر علامت کو نگرانی کے طاقتور ٹولز اور ریاست پر کمیونسٹ پارٹی کے تسلط کے ذریعے آسانی سے دبایا جا سکتا ہے۔ یورپی ماہرین کہتے ہیں کہ یورپ اگر امریکہ اور چین کے تنازع میں الجھا رہنا نہیں چاہتا تو اسے دنیا کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھنا ہو گا اور اپنی اقدار و مفادات کے دفاع کے لیے ایسا کام بھی کرنا پڑے گا جو ہمیشہ امریکہ کے ساتھ موافق نہیں ہو سکتا یعنی یورپ کو اپنی معاشی اور سٹریٹیجک خود مختاری میں اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ نظریہ دو ستونوں پر مبنی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی‘ کورونا وائرس کا مقابلہ‘ علاقائی تنازعات اور افریقہ میں ترقی جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بیجنگ کے ساتھ تعاون جاری رکھنا ہو گا اور یہی مغربی معیشت کی خود مختاری کو یقینی بنانے، یورپی اقدار اور مفادات کو فروغ دینے کی کلید ثابت ہو گا۔ یہ پالیسی میں تبدیلی نہیں بلکہ بیجنگ کے متعلق 2019ء کی یورپی حکمت عملی کی حدود کے اندر ایک قسم کی ترقی ہوگی، جس نے پہلے ہی چین کو ایسے سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر شناخت کیا جو مدمقابل اور نظامی حریف ہونے کے باوجود یورپ کے تعاون کا مستحق ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات لامحالہ پیچیدہ ہوں گے کیونکہ یہ یورپ کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہو گا۔ اگر یورپ عالمی مسائل کا حل چاہتا ہے تو چین حقیقت میں ضروری بات چیت کرنے والا فریق ہے لیکن دوسری طرف یہ لامحالہ تکنیکی و اقتصادی حریف بھی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved