تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     30-03-2023

نمازِ تراویح میں تلاوت ہونے والے پارے کا تفسیری خلاصہ

نویں پارے کے شروع میں قومِ شعیب علیہ السلام کے سرکش سرداروں کی اس دھمکی کا ذکر ہے کہ اے شعیب! ہمارے دین کی طرف پلٹ آؤ‘ ورنہ ہم تمہیں اور تمہارے پیرو کاروں کو جلاوطن کر دیں گے۔ شعیب علیہ السلام نے اللہ سے التجاکی کہ اے اللہ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے‘ پھر اُن پر قومِ ثمود کی طرح عذاب نازل ہوا اور وہ ایسے نیست ونابود ہوئے کہ جیسے کچھ تھاہی نہیں۔ آیت 96 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور تقویٰ کو اختیار کیا ہوتا تو ہم انہیں زمین و آسمان کی نعمتیں فراوانی سے عطا کر دیتے‘ لیکن حق کو جھٹلانے کے سبب وہ انجامِ بد سے دوچار ہوئے۔ ان بستی والوں کو اس سے بے پروا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو سوتے میں یا دن چڑھے آ سکتا ہے۔ گزشتہ امتوں کے احوال سنا کر رسول اللہﷺ کو کفارِ مکہ کی ایذا رسانیوں پر تسلی دینا اور مشرکینِ مکہ کو عبرت دلانا مقصود ہے۔ آیت 103سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کا ذکر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو دعوتِ حق دی اور کہا کہ میں تمہارے پاس واضح نشانیاں لایا ہوں اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو‘ فرعون نے معجزات پیش کرنے کیلئے کہا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ ایک واضح اژدہا بن گیا‘ انہوں نے اپنا ہاتھ (گریبان سے)نکالا تو وہ دیکھنے والوں کیلئے روشن ہو گیا۔ فرعون کے سرداروں نے حق کو قبول کرنے کے بجائے اسے جادو قرار دیا اور کہا کہ یہ تمہیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ذرا ڈھیل دو اور جادوگروں کو جمع کرو‘ جادوگر آئے اور انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمارا انعام کیا ہو گا‘ اس نے کہا کہ تم ہمارے مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔ جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ پہلے کریں گے یا ہم کریں؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم پہل کرو‘ جب جادوگروں نے اپنی (رسیاں) زمین پر ڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں کو سحرزدہ کر دیا اور انہیں ڈرا دیا اور (انہوں نے کہا یہ تو) بڑا جادو لے آئے۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنا عصا (زمین پر) ڈالیں‘ وہ عصا سانپ بنا اور جادوگروں کی چیزوں کو نگلنے لگا۔ اس طرح معجزے کی حقانیت اور جادو کا بُطلان ثابت ہوا اور فرعونی رسوا ہوئے۔ جادوگر سجدے میں گر پڑے‘ اللہ پر ایمان لے آئے‘ فرعون نے انہیں دھمکی دی کہ تم لوگ میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے ہو‘ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمہیں سولی چڑھاؤں گا‘ انہوں نے کہا کہ ایمان لانے کی پاداش میں تم ہمیں سزا دینا چاہتے ہو؟ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے صبر واستقامت کی دعا کی۔ اس کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم دیا۔
آیت 130 میں بتایا کہ اللہ نے فرعونیوں پر قحط سالی کا عذاب نازل کیا‘ فرعونیوں کا طریقہ یہ تھا کہ اچھائی کو اپنا کمال گردانتے اور برائی کو بدشگونی کے طور پر موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے۔ پھر ان پر ٹڈیوں‘ جوؤں‘ مینڈکوں اور خون کاعذاب نازل کیا۔جب عذاب میں مبتلا ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے یہ عذاب ٹل جائے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے‘ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے نتیجے میں عذاب ٹل جانے کے بعد بنی اسرائیل اپنے وعدے سے پھر گئے‘ تو اﷲ تعالیٰ نے بھی اُنہیں سمندر میں غرق کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کمزور لوگوں کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا اور بنی اسرائیل سے جو خیر کا وعدہ تھا‘ وہ پورا ہوا۔ بنی اسرائیل سمندر پار کرکے ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کو پرستش کرتی تھی‘ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لیے بھی ایک خدا (بت) بنا دیجئے‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: بت پرستی کرنے والے جاہل ہیں اور اپنی جاہلیت کے باعث ہی ہلاک ہونے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا اور کوہِ طور پر تشریف لے گئے اور یہ چالیس دن کا عرصہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنا جلوہ دکھانے کی دعا کی‘ لیکن جب اﷲتعالیٰ بالواسطہ جلوہ فرما ہوا تو موسیٰ علیہ السلام اس کی تاب نہ لا کر بیہوش ہو گئے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ آیت 144 سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسالت عطا کرنے‘ کلیم اللہ کا منصب عطا کرنے اور تورات عطا کرنے کا ذکر ہے۔ آگے چل کر بتایا کہ متکبر آیاتِ الٰہی سے اعراض کریں گے اور جو لوگ اللہ کی آیات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں‘ ان کے اعمال باطل ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر قیام کے عرصے میں بنی اسرائیل کے زیورات سے بچھڑا بناکر اسے معبود بنانے کا ذکر ہے؛ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو قوم پر غصے اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا: میرے پیچھے تم نے ایسا برا کام کیا‘ انہوں نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈالیں اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر ان سے جواب طلبی کی۔ انہوں نے کہا: اے میرے بھائی قوم نے مجھے بے بس کر دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیں‘ اب آپ مجھ پر سختی کرکے دشمنوں کو ہنسی کا موقع نہ دیں‘ پھر آیت 151 میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا اور کلماتِ استغفار کا ذکر ہے۔ آگے چل کر بتایا کہ غصہ ٹھنڈا ہونے پر موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی تختیوں کو اٹھایا‘ جن کی تحریر میں اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے ہدایت اور رحمت کی نوید تھی۔
آیات 155 تا 158 میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے‘ جس میں انہوں نے اپنی قوم کیلئے اللہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگی۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کامل نعمت میں اُن لوگوں کو عطا کروںگا جو ایمان کے ساتھ تقویٰ اختیار کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے اور اس عظیم رسول نبیِ اُمی کی پیروی کریں گے‘ جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور یہ نبی ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا اور پاکیزہ چیزوں کو ان کیلئے حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا اور بداعمالیوں کا بوجھ اور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے طوق اتار دے گا‘ سو جو لوگ ان پر ایمان لائے‘ ان کی تعظیم اور نصرت کی اور اس نورِ (ہدایت) کی پیروی کی جو اُن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کی رسالتِ عامّہ کا ذکر ہے۔ آیت 160 سے موسیٰ علیہ السلام کی پتھر پر ضرب سے ان کی قوم کے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ چشمے جاری ہونے کے معجزے کا بیان ہے۔ اس کے بعد اس امر کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ معافی مانگتے اور سجدہ کرتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہو جاؤ مگر انہوں نے اس مسئلے میں بھی تحریف کی‘ مزید بتایا کہ سمندر کے کنارے ایلا نامی بستی میں انہیں ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا‘ مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ بنی اسرائیل کی ان نافرمانیوں کے باعث اُن کی صورتوں کو مسخ کرکے بندر بنا دیا گیا۔ آیت 172 میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ارواح کو جمع کیا اور ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار کروایا‘ اس اقرار کو ''عہدِ اَلَسْت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آیت 179 میں اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عقل کو قبولِ ہدایت کے لیے استعمال نہ کرنے والوں کو چوپایوں سے بدتر قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان کے دل ہیں مگر وہ (حق کے دلائل کو) سمجھتے نہیں‘ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ (آیاتِ الٰہی کو) دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ (دعوتِ حق کو) سنتے نہیں۔ رسول اللہﷺ کو بارگاہِ الوہیت میں عجز ونیاز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ''کہو! میں اپنی ذات کیلئے کسی ونفع ونقصان کا مالک نہیں‘ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں (اپنی ذات سے) غیب کو جانتا تو میں (از خود) خیرِ کثیر جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘ یعنی غیب کے علوم اور ساری نعمتیں رب ہی کی عطا سے ہیں اور کبھی کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی قضا وقدر سے پہنچتی ہے۔ سورۂ اعراف کے آخر میںہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کوصبح و شام خوف اور عاجزی کے ساتھ پست آواز میں دل میں یاد کرو اور غافلوں میں سے نہ ہو جاؤ۔
سورۃ الانفال: انفال مطلقاً مالِ غنیمت کو بھی کہتے ہیں اور کسی مجاہد کو غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے دوسرے مجاہدین کے مقابلے میں کچھ زائد دیا جائے تو اسے بھی نفل یا انفال کہتے ہیں۔ آیت 2 میں کامل مؤمنوں کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں: وہ اللہ سے ڈرتے ہیں‘ آیاتِ الٰہی سن کر ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے‘ وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘ اقامتِ صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ ان کا شِعار ہے اور یہ سچے اور پکے مومن ہیں۔ آیت 5 میں فرمایا کہ کچھ لوگ جہاد کیلئے دل و جان سے آمادہ نہ تھے اور مجاہدین کی خواہش تھی کہ مشرکینِ مکہ کے مسلح و منظم لشکر کے بجائے ابوسفیان کے تجارتی قافلے سے ٹکرائو ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ سے تصادم کو مقدر فرمایا تاکہ حق کی حقانیت اور غلبہ ثابت ہو جائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved