تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     31-03-2023

فضا سازگار نہیں

کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں لوگ بیمار پڑتے تو حکیم کسی خوش گوار فضا میں کچھ دن قیام کرنے کا مشورہ دیتے اور اکثر افراد کی طبیعت نئے ماحول میں سنبھل جاتی۔ آج کل کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر اسباب میسر ہیں تو آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں‘ اپنے لیے فضا خود ہی خوش گوار بنا سکتے ہیں۔ ہمارا تعلق کسی اور قبیلے سے ہے۔ ہم باہر کی فضا پر دھیان ہی نہیں دیتے‘ اندر کی ذہنی فضا کو خوش گوار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ نصیب ہو جائے تو باہر طوفان‘ آندھیاں بھی برپا ہوں‘ کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ہر حال میں خوش رہنے کا سلیقہ اور زندگی کا اسلوب نہ اتنا آسان ہے اور نہ سب لوگ خود کو ایسے قالب میں ڈھال سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ صنعتی دور میں ارد گرد کے معروضی حالات ہماری سوچ‘ منصوبہ بندی اور طرز ِزندگی پر اتنا حاوی ہیں کہ کم ہی لوگ اپنی چھوٹی سی دنیائیں الگ سے آباد کر سکتے ہیں۔ اس نظام کی گاڑی سیاست اور معیشت کے دو آہنی پہیوں پر چلتی ہے۔ اس میں سے ایک کمزور ہو‘ پنکچر ہو جائے تو رفتار مدہم بلکہ گاڑی رک جاتی ہے۔ یہاں کہتے تو سب ہیں کہ ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے ہماری معیشت کا بیڑا غرق ہوا مگر سیاسی فضا کو بہتر کرنے کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ معیشت کی تباہی میں ہمارے حکمران طبقات‘ ان کے ذاتی مفادات‘ لوٹ مار اور بے پناہ کرپشن صرف سیاسی خاندانوں تک محدود نہیں‘ ملک کی نوکر شاہی اس مسابقت میں سب سے آگے ہے‘ اور طبقات بھی اس کارِ خیر میں شریک ہیں‘ مگر اس وقت ان کی بات جانے دیں۔
عجیب بات ہے کہ تھڑے پر بیٹھا ایک عام آدمی اور پاکستان کے گرجتے چمکتے نامور سیاست باز‘ سب کا اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ خرابی سیاسی ہے جس کی وجہ سے معیشت کا گراف زوال پذیر ہے۔ جو حالات ہمارے سامنے ہیں اور جو ہم دیکھ رہے ہیں‘ وہ ایک گھنائونی سیاسی جنگ ہے جو ہمارے حکمران طبقے ایک دوسرے کے خلاف لڑنے میں دن رات مصروف ہیں۔ اب یہ جنگ تیرہ جماعتی اتحاد اور تحریک انصاف تک محدود نہیں رہی‘ ہمارے موجودہ حکمرانوں میں سے کچھ وزرا اور قائدین کی اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں زبان و کلام سے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ لڑائی جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ ریاستی اداروں کے خلاف جو باتیں اب کہی اور سنی جارہی ہیں‘ چند سال پہلے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مقدمے بھی بن رہے ہیں‘ ریاستی مشینری بھی متحرک ہے کہ ماضی کی غیر آئینی حکومتوں کے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں‘ ملزموں کے ساتھ سلوک ایسا ناروا کہ کوئی اور جمہوری اور آئینی ریاست ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس سب کے باوجود مزاحمت میں کمی نہیں آرہی۔ حریف تو دو ہی تھے۔ تیرہ جماعتی اتحاد اور کپتان لیکن اس جنگ کے شعلوں نے معاشرے کے ہر شعبے اور ریاست کے ہر ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسے میں معیشت ہو یا معاشرت‘ حالات کیسے سازگار ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ماضی میں بھی ایسے بحران پیدا کر چکے ہیں‘ ہم نے ایک کے بعد دوسرا‘ نہ جانے کتنے دیکھے ہیں۔ سیاست دانوں نے جب حالات سدھارنے میں تامل سے کام لیا‘ آگ تو لگا دی لیکن اس پر قابو پانے کے وسائل ہی نہ تھے تو تیسری قوت کو میدان میں اترنا پڑا۔ سیاست ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ بے شک ہم رہیں نہ رہیں‘ آپ بھی نہیں بچیں گے۔ وہ دن مجھے یاد ہے جب مرحوم پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کا تختہ اس لیے الٹا کہ انہیں عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا تو ان کی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعت کے رہنما اسلام آباد میں خوشی سے نعرے لگا رہے تھے۔ جس طرح کے حالات جارہے ہیں‘ ہر نوع کے خدشات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ حکومت کے ایک طاقتور وزیر نے یہ برملا کہہ ڈالا کہ اگر ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو جمہوریت یا جمہوری طرزِ عمل کی امید نہ رکھیں۔
جمہوریت اگر صحیح معنوں میں ہو تو ایک سے نہیں‘ دو یا دو سے زیادہ سے چلتی ہے۔ ہمارا قصہ ذرا مختلف ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے نہ صرف رہن سہن اور ثقافت بلکہ شوقِ بادشاہت میں مغلیہ سلطنت کے اثرات غالب ہیں۔ کسی ایک جماعت کی بات نہیں کررہا‘ سب کا آئیڈیل مغل شہزادے ہیں۔ گھوڑوں اور ہاتھیوں کی جگہ تو قیمتی گاڑیوں نے لے لی ہے مگر پیادے اور درباری بالکل اس پرانی طرز کے انہیں میسر ہیں۔ اس میں فرق صرف مائیک اور سکرینوں کا ہے۔ زبان و کلام میں بھی درباری شاعروں والی مبالغہ آمیزی ہے۔ شہزادوں کی تعریف میں بھی اور ان کے مخالفین کے خلاف بھی۔ مغلیہ سلطنت کی تباہی کی بنیادی وجہ شہزادوں کے ایک دوسرے کی جان لینے اور راستے سے ہٹانے کے اقدامات تھے۔ اس رجحان کی تہہ میں جہاں شوقِ بادشاہت کی کارفرمائی تھی وہاں بداعتمادی بھی تھی کہ اگر وہ زندہ رہا تو ہم نہیں بچیں گے۔ ان کی سب سے بڑی ناکامی جانشینی اور پُرامن انتقالِ اقتدار کا مسلمہ اصول طے نہ کرنا تھی۔ کہنے کو تو ہم جمہوری ملک ہیں‘ اپنا آئین بھی ہے‘ عدلیہ اور دیگر ریاستی ادارے بھی مگر سیاسی رویے بالکل مغل شہزادوں کی چالبازیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ ماضی میں جتنا جا سکتے ہیں جائیں‘ جس حکومتی جماعت کو پرکھنا چاہیں پر کھ لیں‘ مغلائی چھاپ نمایاں دکھائی دے گی۔ تیرہ جماعتی اتحاد تو زور زور سے کہہ رہا ہے کہ جب تک کپتان سیاست میں ہے‘ ملک میں امن‘ استحکام اور ترقی نہیں ہوگی۔ اس وقت حکومت اور اس کے حامیوں کا سب سے بڑا مسئلہ کپتان ہے لیکن کپتان بھی ان سے کم نہیں۔ وہ انہیں مسلسل للکار رہے ہیں کہ کہاں بھاگو گے‘ چھوڑوں گا نہیں۔ اور وہ جو القابات اپنے مخالفین کے بارے میں استعمال کرتے رہے ہیں اور ان کے حامی بھی‘ وہ اب اتنے عام ہو چکے ہیں کہ ہم اپنی تحریر خراب نہیں کرنا چاہتے۔ ان رویوں کو نہ ہم سیاست سمجھتے ہیں‘ نہ جمہوریت۔ یہ بس سیاسی جنگ ہے جس میں ہمارے مغل شہزادے ہر ہتھیار کو جائز تصور کرتے ہیں۔
جو فضا ملک کی بنی ہوئی ہے‘ انارکی سے کم نہیں۔ گزشتہ سال سے باہمی تنائو‘ کشیدگی اور سیاسی کشمکش میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پردہ نشینوں کے نام کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اب تو خطرات بڑھ چکے ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں جب پانی خطرے کے نشان سے اوپر بہتا ہے تو ہنگامی صورتحال کا اعلان ہوتا ہے۔ اس کے نتائج جو سولہ سال پہلے نکلے‘ شاید ہم بھول چکے ہیں۔ کبھی ایسے برے دن نہیں دیکھے۔ کسی کو جرأت نہ ہو سکی تھی کہ عدالتِ عظمیٰ کے خلاف ایسی زبان استعمال کرے جو کچھ خواتین اور حضرات آج استعمال کر رہے ہیں۔ عدالتوں پر حملے اور کیا ہوتے ہیں؟ یاد نہیں کیسے عدالتِ عظمیٰ کو تقسیم کرنے کے لیے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ یقینا بانیانِ پاکستان کی روحیں تڑپتی ہوں گی۔ کہاں وہ لوگ‘ کہاں یہ جنہیں نجانے کہاں سے چن کر‘ تیار کرکے ہمارے اوپر بٹھا دیا گیا ہے۔ معیشت کی صورتحال کو دیکھیں‘ پسماندگی اور کیا ہوتی ہے۔ عوام کی صورتحال کو دیکھیں اور حکمرانوں کے دورے‘ ٹھاٹ باٹ‘ دیہاڑیاں‘ لوٹ کھسوٹ کا ایسا منظم اور مربوط نظام مسلط کہ دنیا کے بہترین اور نامور ماہرین اکٹھے کر لیں‘ کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتے۔ لوگ پھر لوگ ہیں۔ بپھر بھی سکتے ہیں۔ اٹھ بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ سر پھرے مقابلے پر بھی اتر آتے ہیں۔ جمہوریت حکمرانوں کو شاید راس نہ آسکے۔ انتخابات کے تو نام سے بھی ڈرتے ہیں کہ فضا سازگار نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved