اگلے روزسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کی کال آئی۔ وہ مجھے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے گرینڈ ہال میں بطور سپیکر مدعو کرنا چاہ رہے تھے‘ جہاں ملک بھر کی نمائندہ وکلا تنظیموں کا لائرز کنونشن برپا ہوا۔ لاتعداد وکیل خواتین اور حضرات نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی۔ قانون کی بالادستی یعنی رول آف لاء کے ذریعے زور آوروں کو قانون کے سامنے یکساں سلوک کا پابند بنانے کی قراداد بھی پاس کی۔ وکلا کنونشن میں بیرسٹر عثمان سوات میرے ساتھ تھے‘ جہاں اپنی گفتگو کے تین نکات آپ کے سامنے رکھوں گا۔
جج وکیلوں میں سے بنتے ہیں‘ بار ایسوسی ایشن کے ممبرز ہوتے ہیں‘ بار کونسل کا لائسنس لے کر وکالت شروع کرتے ہیں‘ وکالت بہت زیادہ اچھی ہو جائے تو لوگ جج بننے سے کتراتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے‘ جب آپ اپنے کیریئر میں خود مختار ہوں یعنی Self Employed ہوں تو آپ اور آ پ کے ارد گرد لوگوں کی عادتیں بھی ویسی ہو جاتی ہیں۔ انڈیا میں مگر ایسا نہیں ہے۔ سال 2012ء میں مجھے آل انڈیا بار کونسل آف دہلی اور بار کونسل آف پنجاب اینڈ ہریانہ نے دورے کی دعوت دی۔ تب بار کونسل آف انڈیا کے چیئرمین ڈاکٹر ادیش سی اگروالا سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا جبکہ پنجاب اینڈ ہریانہ بار کونسل کے چیئرمین ایڈووکیٹ مندر جیت یادوّ سنگھ تھے۔ صرف دہلی میں اُس وقت 4ملین سے زیادہ وکیل پریکٹس کرتے تھے۔ میں نے دہلی کی ضلع کچہری سمیت تمام عدالتوں کو وِزٹ کیا۔
میرا یہ انڈیا کا پہلا اور آج تک کا آخری دورہ تھا۔ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا کے گھر پر ناشتہ اور چیف منسٹر آف ہر یانہ کے گھر پرکھانا کھانے کا بھی موقع ملا۔ مجھے بار کونسل آف دہلی نے سکرول آف آنر پیش کیا اور ساتھ ہی اپنی ممبر شپ بھی۔ چیف جسٹس صاحب آف انڈین سپریم کورٹ ہمارے شہرِ اقتدار کے D ٹائپ کوارٹر جتنے گھر میں رہتے ہیں۔ جس کے باہر ایک پولیس والا کھڑا تھا‘ وہی چوکیدار‘ وہی پروٹوکول آفیسر۔
میں اپنی معاونت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج رمضان چودھری کو بھی ساتھ لے گیا۔ تب چیف جسٹس آف انڈیا اور بار ایسوسی ایشن کے درمیان جھگڑا چل رہا تھا۔ جھگڑا تھا کیا؟ وہ میں آپ کو آخر میں بتا دوں گا۔ پولیس والے گارڈ نے پنجابی زبان میں ہمیں جی آیاں نُوں کہا۔ چھوٹے سے پورچ‘ جس میں مشکل سے ایک گاڑی آتی ہے‘ آپ اسے پورچی کہہ لیں‘ اس میں چیف جسٹس صاحب باہر نکل کر کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے پورچ کے اندر سے براہِ راست دروازہ کھولا جہاں 3x3سائز کا ڈائننگ ٹیبل تھا‘ سامنے چنے‘ بھاجی‘ چائے اور آلو بھجیا رکھے گئے تھے۔
ان کی بیگم مِنی سائز کی پوریاں تل کر لاتی گئیں اور ہم ناشتے کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی کرتے رہے۔ میں نے چیف جسٹس آف انڈیا سے پوچھا: آپ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کیسے کرتے ہیں؟ چیف جسٹس صاحب بتانے لگے کہ سپریم کورٹ کے لیے ہم وکالت کی کسی نہ کسی Specialityکے ٹاپ کے وکیل کے پاس سپریم کورٹ کے 2سینئر ترین جج بھیجتے ہیں اور وکیل صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ نے بڑا نام اور بڑے پیسے کمائے ہیں‘ اب آپ مخصوص عرصے کے لیے سپریم کورٹ کے بینچ پر آ جائیں۔ جو کچھ آپ کو اس سوسائٹی اور بھارت ماتا نے دیا ہے‘ اسے لوٹانے کا موقع آگیا ہے۔ کہنے لگے کہ آپ کے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کسی ریاست کا ہائی کورٹ ہو یا سپریم کورٹ آف انڈیا‘ جس اچھے وکیل کو دعوت دے کر جج لگایا جاتا ہے‘ اس کو بعد از ریٹائرمنٹ ہر عدالت میں پریکٹس کرنے کی اجازت بھی دی جاتی ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ہم کیسا جوڈیشل سسٹم رکھتے ہیں‘ جس میں جانے والے کو یہ سمجھ کر جج شپ سے ہٹنے کے بعد وکالت نہیں کرنے دی جاتی کہ وہ کہیں اپنے ساتھیوں اور جونیئرز کے نام بیچنا نہ شروع کر دے۔ وکالت روکنے کی کوئی اور وجہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی۔
بار کونسل آف انڈیا میں جس وکیل نے‘ جب بھی بحیثیت لائر پریکٹس شروع کی‘ اسی دن وہ لوئر جوڈیشری سے لے کر سپریم کورٹ تک ہر عدالت میں پیش ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا میں سینئر ایڈووکیٹ کے رول پر دستخط کرنا بہت بڑا ٹائٹل ہے‘ جسے انگلش لیگل سسٹم میں Queens Councilکہتے ہیں۔ اب تو بار کونسل آف انڈیا نے انگلینڈ اینڈ ویلز والی بیرسٹرشپ کوختم کر کے انڈین بیرسٹر بنانے شروع کر دیے ہیں۔
دوسرے ایشیائی ملکوں کی طرح انڈیا میں بھی عدلیہ کا سخت ترین احتساب ہوتا ہے۔ اگر جج کرپٹ ہو تو اسے جیل جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بھارت میں ججوں کی بیویاں بھی جیل کاٹ چکی ہیں۔ اسی لیے 150کروڑ کی آبادی والے ملک میں عدلیہ بچائو‘ عدلیہ مضبوط کرو‘ عدلیہ آزاد کرو اور عدلیہ کے جانثار ٹائپ کوئی تحریک کبھی نہیں چلی۔ عدلیہ صرف عدلیہ ہے جس کا واحد کام آئینی حلف کے مطابق کسی دبائو‘ لالچ‘ عناد اور دوستی کی پروا کیے بغیر فیصلے کرنا ہے۔ تنازعات کے اور مقدمات کے۔ کسی چھوٹے بڑے کی تفریق کیے بغیر۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں بھی ویسا ہی لکھا ہوا ہے مگر ہوتا کیا ہے اور کیا نہیں‘ ہم سب جانتے ہیں۔
سیاسی تقسیم‘ سماجی تقسیم‘ طبقاتی تقسیم‘ فرقہ وارانہ تقسیم‘ علاقائی تقسیم اور لسانی تقسیم کے بعد‘ اب پاکستان کو حکومت سمیت وفاق کے سب سے زیادہ طاقتور لوگ گھیر گھار کر 1997ء میں واپس لے جا رہے ہیں۔ جب بلوچستان میں جہازوں کے ذریعے کرنسی نوٹوں کے بڑے بڑے بریف کیس گئے۔ کچھ جج اپنا بینچ بنا کر سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں بیٹھ گئے اور ملک اسد علی کیس کے ذریعے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ کے خلاف ''کُو دیتانت‘‘ ہوا۔
آج پاکستان کا ہر ادارہ بشمول جوڈیشل سسٹم شدید تقسیم کا شکار ہے۔ قوم کے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں بچا جسے اب تقسیم کرنے کی ضرورت باقی ہو۔ اسی تناظر میں وکلا کنونشن میں پہلا خدشہ یہ ظاہر کیا‘ اگر الیکشن 90روز سے آگے گیا تو اس کا مطلب ایوب صاحب والے 10سال‘ ضیا صاحب والے ساڑھے 11سال‘مشرف صاحب والے ساڑھے 9سال بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسرا خدشہ پاکستان کی فیڈریشن کی سلامتی کا ہے‘ تیسرا پاکستان کی معیشت اور بحیثیت ریاستی بقا کا۔
انڈین چیف جسٹس اور بار کونسل کا جھگڑا 2011ء میں شروع ہوا۔ جب نئے منتخب عہدے داروں نے چیف جسٹس سے ملاقات کا وقت مانگا۔ چیف جسٹس نے پوچھا ملاقات کس سلسلے میں ہے؟ بار نے جواب دیا Courtesy Callاور فوٹو سیشن۔ چیف جسٹس نے رجسٹرار کو کہا کہ عہدے داروں کو بتائیں Courtesy Callاور فوٹو سیشن کے لیے وہ پاکستان چلے جائیں۔ اگر کوئی جوڈیشل مسئلہ ہے تو پھر میرے پاس آجائیں۔
پاکستان میں اس وقت Suo Motoبھارت کی ''مُنی‘‘ سے بھی زیادہ بدنام ہوا تھا۔آج Suo Moto کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکومت‘ Suo Motoکے وجود سے ہی انکاری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved