تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     31-03-2023

دسویں پارے کا خلاصہ

دسویں پارے کا آغاز سورۂ انفال سے ہوتا ہے۔ اس پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کی تقسیم کا ذکر کیا ہے کہ اس مالِ غنیمت میں اللہ اور اس کے رسول کا صوابدیدی اختیار پانچویں حصے کا ہے؛ یعنی رسول اللہﷺ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ آپ مالِ غنیمت کے پانچویں حصے کو اپنی مرضی کے ساتھ تقسیم کر سکتے تھے۔
دسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے معرکے کا ذکر کیا ہے کہ شیطان لعین اس معرکے میں انسانی شکل میں موجود تھا اور کافروں کو لڑائی کے لیے اُکسا رہا تھا۔ سراقہ بن مالک کے روپ میں موجود شیطان کافروں کو یقین دلا رہا تھا کہ مسلمان کافروں پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جبریل امین علیہ السلام کی قیادت میں فرشتوں کی جماعتوں کو اتارا تو شیطان فرشتوں کو دیکھ کر میدانِ بدر سے فرار ہو گیا۔ کفارِ مکہ نے اس سے پوچھا کہ سراقہ! تم تو ہمیں فتح کی نوید سنا رہے تھے‘ اب کہاں بھاگے جا رہے ہو‘ اس پر شیطان نے جواب دیا: میں وہ دیکھتا ہوں‘ جو تم نہیں دیکھتے‘ مجھے اللہ کا خوف دامن گیر ہے اور اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔
اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی متواتر بدعہدیوں اور خیانت کے بعد اس آیت کا نزول فرمایا کہ اگر آپ کو کسی قوم کی جانب سے خیانت کا ڈر ہو تو اس کا معاہدہ لوٹا کر حساب برابر کر دیجئے، بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ کافروں سے مقابلے کے لیے ہر ممکن طاقت اور گھوڑوں (فوجی ساز و سامان) کو تیار رکھیں۔ اس تیاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دشمن اور مسلمانوں کے دشمن مرعوب ہوں گے اور وہ (پوشیدہ) دشمن بھی جن کو مسلمان نہیں جانتے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں مسلمان جو خرچ کریں گے‘ ان کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ مسلمان افرادی اعتبار سے کمزور بھی ہوں تو کفار پر غالب رہتے ہیں۔ ایک دور میں ایک مسلمان دس پر غالب آتا تھا۔ گزرتے دور میں مسلمان کی طاقت میں کمی آ گئی ہے‘ لیکن پھر بھی ایک مسلمان ہمیشہ دو کافروں پر بھاری رہے گا۔
سورۃ التوبہ
سورۃ الانفال کے بعد سورۂ توبہ ہے۔ سورۃالتوبہ قرآنِ مجید کی واحد سورت ہے‘ جس سے پہلے بسم اللہ مو جود نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی گئی ہیں؛ اول تو یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ کو غضب میں نازل کیا اور دوسری یہ کہ یہ سورت گزشتہ سورت یعنی سورۃالانفال کا ہی حصہ ہے۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو شخص نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہے اور زکوٰۃ صحیح طریقے سے دیتا ہے‘ ایسا شخص مسلمانوں کی جماعت سے منسلک ہے اور دینی اعتبار سے ان کا بھائی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بعض کافر اس بات پر اتراتے تھے کہ ہم حرم کی صفائی کرتے ہیں اور حاجیوں کو ستو پلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حرم کعبہ اور حاجیوں کی خدمت سے کہیں زیادہ بہتر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا اور اس کی خوشنودی کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تمہارے باپ‘ تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘ تمہاری بیویاں‘ تمہارے قبیلے‘ تمہارے مال جو تم اکٹھا کرتے ہو‘ تمہاری تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جن میں رہنا تمہیں مرغوب ہے‘ تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستے میں کیے جانے والے جہاد سے زیادہ پسند ہیں تو انتظار کرو جب تک کہ اللہ کا عذاب نہیں آ جاتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حنین کے معرکے کا بھی ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کا ہمیشہ یہ طرزِ عمل رہا کہ وہ قلتِ وسائل اور افرادی قوت میں کمی کے باوجود اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم پر ثابت قدم اور اللہ کی غیبی نصرت و حمایت کے طلبگار رہے‘ لیکن حنین کا معرکہ ایسا تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد اور افرادی قوت بہت زیادہ تھی۔ اس تعداد کی کثرت اور فراوانی نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک فخر کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ جب مسلمان کافروں کے آمنے سامنے ہوئے تو ہوازن کے تجربہ کار تیر اندازوں نے یک لخت مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے؛ تاہم نبی کریمﷺ پورے وقار اور شجاعت کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے۔ رسول کریمﷺ کی استقامت کی وجہ سے مسلمان بھی دوبارہ حوصلے میں آ گئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ مالکِ کائنات نے مسلمانوں کو کفار پر غلبہ عطا فرما دیا اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ جنگوں میں فتح وسائل کی کثرت اور فراوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم اور اس کی مدد و نصرت کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور نصرانیوں کے برے عقیدے کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہودی ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ عزیرعلیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی ہرزہ سرائی کرتے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: یہ باتیں انہوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں اور اللہ کی ان پر مار ہو جو یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں‘ مگر اس کو راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ قیامت کے دن سونے اور چاندی کو آگ میں پگھلانے کے بعد ان کی پیشانیوں کو‘ پہلوئوں کو اور پشتوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ اس چیز کے سبب ہے جو تم اکٹھا کرتے تھے۔ پس اکٹھا کرنے کا مزا چکھ لو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مصارفِ زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا کہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ہیں۔ اس پر فقیروں کا حق ہے‘ مساکین کا حق ہے‘ زکوٰۃ اکٹھا کرنے والوں کا حق ہے‘ اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والوں کا حق ہے‘ قیدیوں کا حق ہے‘ تاوان کے تلے دبے ہوئے لوگوں کا حق ہے‘ مسافر کا حق ہے اور اللہ کے راستے میں اس کو خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ منافق مرد اور عورت ایک دوسرے میں سے ہیں اور یہ بھی بتلایا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘ یعنی غلط عقائد اور اعمال والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھی اور صحیح عقائد اور اعمال والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پاکﷺ کو اس بات کی تلقین کی کہ انہیں کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ کافروں کے ساتھ جہاد تلوار کے ذریعے اور منافقوں کے ساتھ دلائل کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض منافقین کے اعمال کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے گا تو ہم اس کے راستے میں خرچ کریں گے‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مال دے دیا تو وہ بخل کرنا شروع ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے ایسے لوگوں کے دلوں میں نفاق لکھ دیا‘ اس دن تک جب ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات ہو گی۔
اس سورت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر فتنے کا عذر پیش کر کے پیچھے رہ جانے والے اس منافق گروہ کا بھی ذکر کیا جس نے ایک عذر پیش کر کے جہاد میں شرکت کرنے سے معذرت کی تو رسول کریمﷺ نے اس کو رکنے کی اجازت دے دی، اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ درحقیقت بہانہ بنا کر پیچھے رہنے والے لوگ فتنے کا شکار ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جہنم کو منکروں کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا: (یہ منافق آپ کے گستاخ ہیں)، اِن کے لیے آپ کا استغفار کرنا ان کے کسی کام نہ آئے گا کیونکہ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں (تو ان کی شقاوتِ قلبی کی وجہ سے) اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دسویں پارے میں بیان کردہ مضامین کو سمجھنے اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved