یہ خوش آئند ہے کہ پارلیمان اور اہلِ سیاست نے اپنے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کر نے کی کوشش کی ہے۔
جدید سیاسی فکر نے دو تصورات کو جنم دیا: پارلیمان کی بالا دستی اور تقسیمِ اختیارات۔ پارلیمان کی بالا دستی کی اساس‘ عوام کا حقِ حاکمیت ہے۔ اخلاقی حوالے سے دو ہی قوتیں حاکمیت کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ ایک اس کائنات کا خالق و مالک۔ جس طرح اس کائنات کے نظم کو اس نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے‘ اسی طرح وہ انسانی سماج کی باگ بھی آسمان سے اترنے والے فرشتوں کو سونپ دے یا پھر انسانوں ہی میں سے کسی کو اس کام کے لیے منتخب کر لے۔ انہیں ہم تکوینی امور کہتے ہیں۔ دوسرے عوام کہ سماج کے معاملات کو وہ خود طے کریں۔ انفرادی اور اجتماعی امور میں ان کی فہم و فراست ہی فیصلہ کن ہو۔
سماجی امور میں‘ خدا نے اپنے تکوینی اختیارکو ایک دائرے میں قائم رکھا ہے۔ ہمارے بہت سے فیصلے اب بھی اس نے اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔ جیسے زندگی اور موت۔ جیسے تقدیر۔ رمضان کی ایک شب فرشتے اترتے اور اس باب میں احکامِ الٰہی کی تنفیذ کا اہتمام کرتے ہیں۔ تاہم قانونِ آزمائش کے تحت‘ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کئی معاملات ایسے ہیں جس کی باگ اس نے انسان کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ اس دائرے میں اب اس نے خود ہی اپنے فیصلے کر نے ہیں۔ اس کے لیے ضروری راہ نمائی اس نے فطرت اور انبیاء کرام کے ذریعے فراہم کر دی ہے۔ ختمِ نبوت کے عہد میں‘ عالم کا پروردگار‘ اس دائرے میں براہِ راست مداخلت نہیں کرتا۔
نظمِ سیاسی کا تعلق بھی اسی دائرے سے ہے۔ انسانوں کو یہ نظم خود بنانا ہے اور اس کی سب سے اچھی صورت جو اب تک دریافت ہوئی ہے‘ وہ جمہوریت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست و ریاست کے معاملات کو اجتماعی دانش کے حوالے کر دیا جائے۔ اجتماعی دانش کو مطلق العنانیت سے بچانے کے لیے‘ تقسیمِ اختیارات کا اصول متعارف کرایا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قانون سازی کرے گا‘ وہ ان قوانین کے اطلاق کے بارے میں فیصلہ نہیں دے گا۔ اور جو اطلاق کا فیصلہ دے گا‘ ان کی تنفیذ اس کے ہاتھ میں نہیں ہو گی۔ اسے ہم مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کہتے ہیں۔ تصورِ جمہوریت کے مطابق‘ تقسیمِ کار کے اصولوں کو طے کرنا پارلیمان کا حق ہے۔ پارلیمان نے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے‘ جو اصول مرتب کر دیے ہیں‘ ان کے مجموعے کو آئین کہتے ہیں۔ آئین کی حاکمیت ہی پارلیمان کی حاکمیت ہے۔ پارلیمان آئین بنا سکتی اور پھر جب چاہے اس میں ترمیم بھی کر سکتی ہے۔
انسان کا معاملہ مگر یہ ہے کہ اس کی اخلاقی اور فکری تطہیر نہ ہوئی ہو تو وہ اپنے اپنے دائرے سے تجاوز کرتا ہے۔ انسانی زندگی کا فساد اسی تجاوز سے پیدا ہوتا ہے۔ سزا کا تصور اسی سے پھوٹا ہے۔ دوسروں کے حقوق میں مداخلت اور پامالی خدا کی نظر میں جرم ہے اور انسانی عقل بھی اسی نتیجے تک پہنچی ہے۔ اس تجاوز کی بنا پر عدالت کبھی قانون سازی کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے اور کبھی انتظامیہ خود کو قانون سے ماورا سمجھ لیتی ہے۔
ہماری تاریخ انہی تجاوزات کی کہانی ہے۔ ہماری نفسیاتی ساخت کچھ اس طرح کی ہے کہ اختیارات کی تقسیم اس کو سازگار نہیں ہے۔ ہر کوئی مطلق العنان بننا چاہتا ہے۔ معاملہ ایک مرتبہ اس کے ہاتھ آجائے‘ پھر اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ خود کو قادرِ مطلق ثابت کرے۔ اس کا راستہ بعض اوقات قانون کے اندر ہوتا ہے۔ جیسے کسی منصب سے وابستہ صوابدیدی اختیارات۔ عدلیہ کے باب میں اسے 'سو موٹو‘ (suo moto) کہا جاتا ہے۔ ہماری پارلیمان کو یہ شکایت ہے کہ اس اختیار کو جس طرح استعمال کیا گیا‘ اس کے نتیجے میں حدود سے تجاوز ہوا ہے۔ اسی کو درست کرنے کے لیے پارلیمان نے نئی قانون سازی کا حق استعمال کیا ہے اور چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات پر قدغن لگا دی ہے۔
پارلیمان اگر توانا ہو تو پھر ایسے مسائل جنم نہیں لیتے۔ یہ پیدا ہی اس وقت ہوتے ہیں جب پارلیمان اپنے اختیارات کے باب میں حساس نہ رہے یا ریاست کا کوئی ستون اس سے زیادہ توانا ہو جائے۔ اس حوالے سے ہم اپنی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ 2016ء سے پہلے اور اس کے بعد۔ 2016ء تک‘ عام طور پر دوسرے ریاستی ادارے زیادہ توانا تھے۔ کبھی انہوں نے براہِ راست اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھا جیسے مارشل لاء کا دور اور کبھی بالواسطہ جیسے نام نہاد جمہوری ادوار۔
دوسرا دور 2016ء سے شروع ہوا جب پارلیمان مضبوط ہو رہی تھی مگر نواز شریف صاحب نے اس کی باگ عدلیہ کے ہاتھ میں دے دی۔ جب پاناما سکینڈل کا آغاز ہوا تو ان کے پاس دو راستے تھے۔ اس معاملے کو پارلیمان میں حل کیا جائے یا عدالت کے سپرد کر دیا جائے۔ پیپلز پارٹی نے تجویز پیش کی کہ اسے پارلیمان کے پاس رہنا چاہیے اور اس قضیے کو طے کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیشن بنا دینا چاہیے۔ نواز شریف صاحب اپنی پاک دامنی پر عدالت کی مہر لگوانا چاہتے تھے۔
انہوں نے اس بات کو فراموش کیا کہ پارلیمان کو کمزور کرنے والی قوتیں گھات لگائے بیٹھی ہیں۔ جیسے ہی معاملات عدالت کے ہاتھ میں گئے‘ انہوں نے اسے ایک سنہری موقع جانا کہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ وہ دن اور آج کا دن‘ حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے تک‘ وہ سب معاملات عدالت میں حل ہو رہے ہیں جو دراصل صوبائی یا قومی اسمبلی میں طے ہونے چاہئیں تھے۔ پہلے مرحلے میں عدالت کا کندھا استعمال کیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں‘ جب کندھا استعمال کر نے والی قوت پیچھے ہٹی تو عدالت نے معاملات براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس نئی قانون سازی سے‘ 2016ء کے بعد پہلی بار‘ پارلیمان نے اپنا حق واپس لینے کی کوشش کی ہے جو پارلیمانی نظام کی روح ہے۔
اصولی طور پر یہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمان ہی بالادست ہے اور اس بالا دستی کو قائم رہنا چاہیے۔ یہ بالادستی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک آئین کی تشریح کا اختیار بھی پارلیمان کے پاس نہ ہو۔ فطری اور عقلی طور پر یہ اختیار قانون ساز ہی کے پاس ہونا چاہیے۔ کتاب اللہ کی سب سے مستند تشریح وہی ہوتی ہے جو اللہ کے رسولؐ نے کی ہو۔ اسی اصول پر‘ اگر آئین کی کسی دفعہ کے فہم میں کوئی ابہام تو اس کو دور کرنے کی ذمہ داری بھی پارلیمان ہی کی ہے۔ اگر عدالت کے پاس کوئی مقدمہ ایسا ہے جس میں آئین کی تشریح ضروری ہے تو لازم ہے کہ اسے پارلیمان کو لوٹا دیا جائے۔ سپریم کورٹ ماضی میں یہ کام کرتی رہی ہے۔
کسی قانون یا فیصلے کا ماضی کے واقعات پر اطلاق نہ اللہ کے قانون میں ممنوع ہے نہ انسانی قانون میں۔ توبہ کے قانون کا اطلاق تو ہوتا ہی ماضی پر ہے۔ اسی طرح انگلستان میں فیصلوں کا اطلاق ماضی کے مقدمات پر کیا گیا۔ گئے دنوں میں جنہیں مجرم ٹھیرایا گیا‘ ان کے بے گناہی کا پروانہ جاری کیا گیا۔ جرمنی نے نازی دور سے اجتماعی طور پر اعلانِ لاتعلقی کیا۔ یہ بھی اجتماعی توبہ ہی کی ایک صورت ہے۔
اہلِ سیاست کو اپنا مقدمہ خود لڑنا ہوگا۔ فدویانہ سیاست سے نہ صرف ان کا وقار مجروع ہوا بلکہ جمہوریت کی روح بھی باقی نہیں رہی۔ عزت اسی کو ملتی ہے جو اس کے بارے میں حساس ہو۔ اختیار اور اقتدار سے عزت کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ جنرل(ر) باجوہ صاحب سمیت بہت سے لوگوں کی کہانی یہی بتا رہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved