تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     01-04-2023

سیاسی درجۂ حرارت

ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت نیچے آنے کے بجائے اوپر جا رہا ہے۔ کبھی لانگ مارچ‘ کبھی دھرنا‘ کبھی زمان پارک میں وارنٹ گرفتاری لانے والی پولیس پر پتھراؤ اور سکیورٹی فورسز کے خلاف پٹرول بموں کا آزادانہ استعمال۔ خان صاحب نے کئی ماہ تک یہی وتیرہ رکھا کہ وہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔ اس کیلئے وہ ہر حیلہ بہانہ استعمال کرتے رہے۔ بالآخر وہ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ایک عدالت میں اس شان کے ساتھ پیش ہوئے کہ اُن کے ساتھ اپنے دیوانوں اور مدّاحوں کا جمِ غفیر تھا۔ ان جوشیلے ٹائیگرز نے بلاخوف توڑ پھوڑ کی‘ عدالت کے باہر کھڑی گاڑیوں کو چکنا چور کر دیا جب اُن کی گاڑی کیلئے عدالت کا گیٹ کھلا تو ساتھ ایک ہجوم بھی اندر چلا گیا۔ خان صاحب نے عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کیلئے تشدد کا حربہ استعمال کیا۔ ان صاحب کے بعد رانا ثنا اللہ نے نہایت جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ رانا صاحب نے کہا کہ اگر ہمیں کنارے لگانے کی کوشش کی گئی تو ہم ہر حد تک جائیں گے۔ پھر ہم یہ بھی نہ دیکھیں گے کہ جمہوری کیا ہے اور غیر جمہوری کیا ہے۔ ہم یہ بھی نہ سوچیں گے کہ قانونی کیا ہے اور غیر قانونی کیا ہے۔ رانا صاحب نے جوشِ جنوں میں یہ تک کہہ ڈالا کہ جب تک عمران خان سیاست میں موجود ہیں‘ اس وقت تک ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘ اس لیے یا ہم رہیں گے یا عمران خان۔
سیاسی کشیدگی کسی حد تک بھی کیوں نہ پہنچ جائے‘ حکومت اور اپوزیشن کے لب و لہجے میں ہمیشہ فرق قائم رہتا ہے۔ رانا ثنا اللہ کا بیان ہر لحاظ سے قابلِ گرفت ہے۔ یہ بیان تو کھلم کھلا انارکی کی دعوتِ عام دیتا ہے۔ تبھی تو سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے رانا صاحب کے بیان کو انتہا پسندی قرار دیا ہے۔ رہی سہی کسر میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان نے منگل کے روز قومی اسمبلی میں دھواں دھار خطاب سے پوری کر دی۔ انہوں نے کہا‘ لاڈلے کو کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے۔ شعلہ بیانی میں میاں شہباز شریف نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک عمران خان قوم سے معافی نہیں مانگیں گے‘ اس وقت تک ان سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔ عدلیہ میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ اس مؤقف پر قائم ہیں کہ از خود نوٹس کیس پر فیصلہ چار تین سے آیا ہے۔ پارلیمان سے پاس ہونے والے بل کے مطابق چیف جسٹس کے از خود نوٹس اختیارات کو تین سینئر ترین ججوں کی کمیٹی کے فیصلے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس نوٹس کے متاثرین تیس روز میں اپیل کر سکیں گے۔ اس قانون سازی کے مطابق میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو اپیل کا حق حاصل ہو جائے گا۔
ہم اپنے داخلی جھمیلوں میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے خطے میں بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہو گئی ہیں۔ شرقِ اوسط میں سارا امریکی و اسرائیلی کھیل عربوں کو ایران کا ہوّا دکھا کر کھیلا جا رہا تھا۔ عام تاثر یہ تھا کہ دیگر کئی عرب ممالک کی طرح سعودی عرب بھی عنقریب اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرے گا؛ تاہم خاموش چینی سفارت کاری نے‘ گزشتہ سات برس سے سعودی ایرانی منقطع تعلقات کی بحالی کا تاریخی اعلان کرکے ساری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا جبکہ اسرائیل اور امریکہ دونوں شدید صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ وہ تو کچھ اور ہوتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے مگر ہو کچھ اور گیا۔ اگرچہ ان تعلقات کی بحالی میں بظاہر ہمارا کوئی براہِ راست یا بالواسطہ حصّہ نہیں مگر یہ وہ وقت ہے کہ جب ہم ان تعلقات کی بحالی سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب سعودی عرب اور ایران پاکستان کی طرح چینی منصوبوں میں شامل ہو جائیں گے۔ پاکستان کے ان تینوں ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ چین کے سب سے پرانے دوست کی حیثیت سے پاکستان سعودی عرب اور ایران کو اپنے تجربات سے آگاہ کر سکتا ہے اور چینی اخلاص و دوستی کی روایات سے روشناس کرا سکتا ہے‘ یہ ساری صورتحال پاکستان کے لیے ایک عظیم نعمت سے کم نہیں۔
ہماری ساری پارلیمانی و جمہوری صلاحیت اتنی بھی نہیں کہ ہم آپس میں بیٹھ کر اگلے انتخابات کی تاریخ پر گفت و شنید کر سکیں اور افہام و تفہیم سے کوئی راستہ نکال سکیں۔ ایک اور انتہائی اہم موضوع کی طرف لاس اینجلس سے مسز صباحت رفیق اور ڈیلس‘ امریکہ سے پروفیسر زبیر بن عمر صدیقی نے توجہ دلائی ہے۔ دونوں شخصیات نے بھارت کی طرف سے پاکستان کیلئے 25جنوری 2023ء کو جاری کیے گئے نوٹس کی کاپیاں بھی مجھے ارسال کی ہیں۔ یہ نوٹس انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے ہے۔ ہمیں داخلی معاملات میں الجھا ہوا دیکھ کر بھارت نے لکھا ہے کہ اگر آپ نے 90روز کے اندر اندر اس نوٹس میں اٹھائے گئے نکات کے تسلی بخش جوابات نہ دیے تو بھارت اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر توڑ سکتا ہے اور پاکستان کی طرف بھارت سے آنے والے پانی کو روک سکتا ہے اور سارے پانی کی ملکیت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ دوسری طرف بعض عالمی رپورٹوں کے مطابق پاکستان صرف سات برس بعد 2030ء میں پانی کے شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اہم ترین موضوعات پر ہمارے اخبارات و جرائد اور ہمارے ٹاک شوز بڑی حد تک خاموش ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس موضوع پر پاکستان نے بھارت کو کیا جواب دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں انتخابات یوں آتے ہیں جیسے کوئی قومی تہوار آتا اور گزر جاتا ہے۔ انتخابات کو ایک روٹین کی کارروائی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں الیکشن زندگی موت کا معاملہ نہیں بنتے۔
اب عمران خان فرماتے ہیں کہ کھیل سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ خان صاحب کرکٹ تو اس کے قواعد و ضوابط کے مطابق کھیلتے رہے مگر سیاست کو وہ ایک ایسا فری اسٹائل کھیل سمجھتے رہے کہ جس کا کوئی قاعدہ قانون نہیں۔ اسی طرح کے جذبات کا اظہار مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے کیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں تو حل نکل سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تجویز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیلشمنٹ‘ عدلیہ اور میڈیا بھی سیاستدانوں کی طرح پاور سٹرکچر میں شامل ہیں۔ اگرچہ ہماری سابقہ تاریخ تو اس سے مختلف ہے۔ 1970ء پھر 1977ء اور اس کے بعد 1999ء میں سیاستدانوں کو محرومِ اقتدار ہونا پڑا۔ شاید اب ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کی خونچکاں تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہو۔ بظاہر اس ساری تشویشناک صورتحال میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے اور بقول فیض احمد فیضؔ:
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
کوئی ایسے امکاں بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہے مگر ہمیں امید کی ایک کرن ضرور نظر آ رہی ہے۔ امید کی کرن یہ ہے کہ ہر سطح اور ہر فورم پر حالات کو سدھارنے اور سنوارنے کی خواہش اور ضرورت کا احساس کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے درست کہا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو نیچے لائے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ عمران خان بھی اب مذاکرات پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ خواجہ آصف نے بھی تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ہمارے خطے میں اتنی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان کیلئے شاندار مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ سارے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو فی الفور نیچے لایا جائے اور سیاسی جماعتیں مذاکرات کا آغاز کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved