اس پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو غیب کی خبر سے مطلع فرمایا کہ جب آپ سفرِ جہاد سے واپس مدینہ طیبہ پہنچیں گے تو بغیر کسی عذر کے جہاد سے پیچھے رہ جانے والے منافقین جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے عذر پیش کریں گے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ بہانے بنانے کی ضرورت نہیں ہے‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے حالات سے مطلع فرما دیا۔ یہ واقعہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان سے صرفِ نظر کریں یہ ناپاک لوگ ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ آیت 98 سے عرب کے دیہاتی لوگوں کے دو طبقوں کا بیان ہوا‘ ایک وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان سمجھتے ہیں اور مسلمانوں پر برے دن آنے کے منتظر رہتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اِسے اللہ تعالیٰ کی رِضا اور نبیﷺ کی نیک دعاؤں کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آیت 100 میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے میں پہل کرنے والے مہاجرین و انصار اور نیکی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کو اپنی رضا مندی کی قطعی سند عطا فرمائی اور ان کیلئے جنت کی دائمی نعمتوں کی بشارت سنائی۔ آیت 103 میں فرمایا: (اے رسول!) مسلمانوں کے مال داروں سے زکوٰۃ لیجئے تاکہ اس کے ذریعے آپ انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں‘ بے شک آپ کی دعا ان کے لیے سکون کا سبب ہے۔ آیت 107 میں ''مسجد ضرار‘‘ کا ذکر ہے‘ منافقین نے حضورﷺ کو اس میں نماز پڑھنے کی دعوت دی تا کہ یہ مستند ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو منع فرما دیا اور بتایا کہ یہ مسجد مسلمانوں کو ضرر پہنچانے‘ کفر پھیلانے‘ اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے‘ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں کیلئے سازشوں کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو واپسی کے سفر میں مسجدِ قبا میں قیام کا حکم دیا‘ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے نماز پڑھتے ہیں‘ منفی مقاصد کے لیے بنائی ہوئی مسجد اس کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات بظاہر نیک کام اگر منفی مقاصد کیلئے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے قبولیت نہیں مل سکتی۔ آیت 111 میں فرمایا کہ اہلِ ایمان نے اپنی جان و مال اللہ کو فروخت کر دی ہے‘ اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی نعمت عطا فرمائے گا۔ آیت 112 میں اہلِ ایمان کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ آیت 118 میں غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ (کعب بن مالک‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم) کی توبہ کی قبولیت کا بیان ہے۔ آیت 122 میں بیان کیا کہ سارے مسلمان اپنے سارے مشاغل کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دین کیلئے وقف نہیں کر سکتے‘ پس ضرور ی ہے کہ ہر علاقے اور طبقۂ زندگی میں سے کچھ لوگ دین کی راہ میں نکل کھڑے ہوں اور دین میں مہارت حاصل کریں تا کہ وہ اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں‘ یعنی یہ پورے معاشرے پر فرضِ کفایہ ہے۔ آیت 124 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وحی نازل ہونے سے مخلص مومنوں کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور منافقین اور منکرین کے کفراور نفاق کی بیماری میں اضافہ ہوتا ہے۔
سورۂ یونس: اس سورت کی آیت 5 میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کو روشنی دینے والا بنایا اور چاند کو روشن بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں‘ تاکہ برسوں کا حساب ہو سکے۔ آیت 11 میں بتایا کہ لوگ دنیا کے مفادات طلب کرنے میں جتنی جلدی کرتے ہیں‘ اگر اللہ تعالیٰ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اتنی ہی جلدی فرمائے‘ تو ان کی موت جلد آ جائے لیکن انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ آیت 15 میں بتایا کہ منکرینِ آخرت کے سامنے جب آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں آپ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیں یا اس کو تبدیل کر دیں تواللہ تعالیٰ نے فرمایا (اے رسول!) آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اپنی جانب سے اس میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے‘ میں تو صرف وحیِ ربانی کی پیروی کرتا ہوں۔ آیت 18 میں فرمایا کہ مشرک اللہ کو چھوڑ کر ایسے باطل معبودوں کو پوجتے ہیں جو انہیں نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔ آیت 22 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ آیت 26 میں بتایا کہ قیامت کے روز نیک اَعمال کرنے والوں کو بہترین جزا ملے گی اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ آیت 57 میں قرآنِ مجید کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک عظیم نصیحت آئی ہے‘ جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ آیت 63 میں اولیاء اللہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں نہ کسی آنے والی بات کا خوف ہو گا اور نہ ہی کسی گزری ہوئی بات کا رنج وملال‘ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہمیشہ تقویٰ پر کاربند رہے‘ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بشارت ہے اور آخرت میں بھی‘ اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ آیت 68 میں فرمایا کہ ان منکروں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے‘ اللہ اس سے پاک ہے اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اس سے بے نیاز ہے‘ تو کیا اس باطل دعوے کی ان کے پاس کوئی دلیل ہے؟ آیت 71 سے حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا تمہارے درمیان رہنا اور تمہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا کیوں ناگوار ہے جبکہ میں نے تواللہ پر توکل کیا ہے اور تم سے دعوتِ حق کے صلے میں کسی اجر کا طلبگار بھی نہیں ہوں۔ ''انہوں نے نوح علیہ السلام کو جھٹلایا‘ ہم نے نوح اور ان کے پیروکاروں کو نجات دے دی اور آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے والوں کو طوفان میں غرق کر دیا۔ اس کے بعد ہم نے موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون اور اس کی قوم کیلئے بھیجا‘ انہوں نے قبولِ حق سے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ ہیں‘‘۔ قومِ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو جادو قرار دیا اور کہا کہ آپ ہمیں آبائو اجداد کے دین سے پھیرنا چاہتے ہیں اور زمین پر اپنی سرداری چاہتے ہیں‘ اس کے بعد جادوگروں سے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کا ذکر ہے‘ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے موسیٰ وہارون علیہما السلام کوحکم دیا کہ مصر میں اپنی قوم کیلئے گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو عبادت گاہ بناؤ اور نماز قائم کرو‘ یہ حکم اس لیے ہوا کہ بنی اسرائیل کیلئے فرعونیوں کے جبر کی وجہ سے کھلے عام عبادت کرنا مشکل تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی فرعون اور درباریوں کو چونکہ مال و دولت اور دنیا کی زینت میسر ہے اور اس کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں‘ تو اے اللہ! توان کے مالوں کو تباہ کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ وہ درد ناک عذاب سے دوچار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے تمہاری دعا قبول کر لی ہے‘ آپ دونوں ثابت قدم رہیں اور جاہلوں کی پیروی نہ کریں۔ آیت 90 سے بیان کیا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو سلامتی کے ساتھ سمندر پار کرا دیا اور فرعون اور اس کا لشکر عداوت اور سرکشی میں ان کے تعاقب میں آئے‘ یہاں تک کہ جب سمند ر میں غرق ہونے لگے تو فرعون نے کہا میں اُس ہستی پر ایمان لایا‘ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور جس کے سوا کوئی بھی مستحقِ عبادت نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سکراتِ موت‘ موت اور غرغرہ کی کیفت طاری ہونے سے پہلے تک اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے‘ لیکن اس مرحلے پر توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو فرمایا کہ آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچا لیں گے تاکہ تم بعد میں آنے والوں کیلئے نشانِ عبرت بنے رہو۔ قرآن کا یہ معجزہ آج بھی سچا ہے کہ مصرکے فرعون کی حنوط شدہ مورتیاں آج بھی موجود ہیں۔
آیت 96 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ صادر ہو چکا ہو‘ وہ ایمان سے محروم رہتے ہیں‘ خواہ ان کے پاس ساری نشانیاں آ جائیں۔ آیت 104 میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ آپ کفارِ مکہ سے کہہ دیں کہ اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک ہے‘ تو میں کسی بھی صورتِ حال میں تمہارے باطل معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا بلکہ میں اس اللہ کی عبادت کروں گا جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے‘ یعنی جس کے قبضۂ قدرت میں تمہاری جان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی ایسے باطل معبود کی عبادت نہ کرو جو تمہارے نفع و نقصان پر قادر نہ ہو‘ اگر (بالفرض) آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ آیت 107 سے فرمایا کہ ہر چیز اللہ کی قدرت و اختیار میں ہے‘ اگر وہ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو کوئی بچانے والا نہیں اور اگر وہ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے‘ تو کوئی اس کے فضل کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا‘ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے‘ اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا‘ مہربان ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved