جس بازار میں قدم قدم پر صرف طاقت کا سِکّہ چلتا ہو وہاں کمزوری وہ کرنسی ہے جسے کوئی تول کے حساب سے بھی قبول نہیں کرتا۔ جو طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اُن سے طاقت ہی کی زبان میں بات کرنی پڑتی ہے۔ اُن سے کسی اور زبان میں بات کرنا اپنی بات کھونے کے مترادف ہوتا ہے۔ جیسے بند ہو مُٹّھی تو لاکھ کی، کُھل گئی تو پھر خاک کی! پندرہ بیس منٹ تک بیوی گرجتی برستی رہی۔ اِس گرج چمک اور گھن گرج کو بے چارا شوہر سہم کر، دَم بخود اور مُہر بہ لب دیکھتا اور سُنتا رہا۔ بیوی جب بجلی کی طرح کڑکتے کڑکتے تھک گئی تو بولی۔ ’’فی الحال تو میں یہ لڑائی(!) ختم کر رہی ہوں مگر اِتنا ضرور بتائے دیتی ہوں کہ تمہاری یہ ’گونگی بدمعاشی‘ اِس گھر کو جہنم بنا رہی ہے۔‘‘ زبردست کا ٹھینگا سَر پر۔ گھر کا محاذ ہو یا بین الاقوامی سیاسی مناقشوں کا میدان، ہر جگہ گونگی بدمعاشی ماحول کو جہنم ہی بنا رہی ہے۔ ع ہے جَرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات! 1951 میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’بہار‘‘ میں شمشاد بیگم کا گایا ہوا ایک گانا وجینتی مالا پر فلمایا گیا تھا۔ اِس گانے میں دُنیا سے نپٹنے کا ہُنر سِکھایا گیا تھا۔ گانے کے بول تھے۔ دُنیا کے مزے لے لو، دُنیا تمہاری ہے! اور پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ دُنیا کے مزے کِس طرح لینے ہیں۔ دُنیا کو لات مارو، دُنیا سلام کرے کبھی نمستے جی تو کبھی رام رام کرے ہلکے پُھلکے، چہکتے ہوئے گیت کا مرکزی خیال یہ تھا کہ جینا ہے تو سَر اُٹھا کے، اکڑ دِکھاکے جیو۔ اگر مُنہ میں گھنگھنیاں ڈالے، سب کچھ محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھتے اور جھیلتے رہے تو دُنیا سَر پر چڑھ کر ناچے گی۔ قصہ مختصر یہ کہ گونگی بدمعاشی زندگی کو صرف جہنم ہی بناکر دَم لے گی! بات گھر کے محاذ سے شروع ہوئی اور عالمی سیاست کے اکھاڑے تک جاپہنچی۔ کیوں نہ پہنچتی؟ حقیقت ہر جگہ ایک ہی رہتی ہے۔ جو دَبے گا اُسے دَبایا جائے گا۔ جو پلٹ کر وار کرے گا یا مُنہ توڑ جواب دے گا اُس کی بات مانی جائے گی۔ امریکا جیسا بدمست ہاتھی بھی پلٹ کر وار کرنے والوں کے سامنے جُھکنے میں دیر نہیں لگاتا۔ایک زمانے سے اسلامی ممالک نے گونگی بدمعاشی کو اپنے بُنیادی اور امتیازی وصف کی حیثیت سے حِرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ اِس کا نتیجہ؟ عضوِ معطل ہوکر رہ جانے کے سِوا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا! ہم نے تو یہی سُنا اور دیکھا ہے کہ دولت آتی ہے تو اِنسان میں گھمنڈ اور عیاشی کے ساتھ ساتھ خود کو تھوڑا سا بدلنے کی لگن بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہی زمانے کا اُصول ہے۔ اسلامی دُنیا کے معاملے میں اِس اُصول نے استثنائی انداز اختیار کیا ہے۔ عرب دُنیا میں پیٹرو ڈالر آیا تو راتوں رات زندگی کچھ سے کچھ ہوگئی۔ مگر کچھ سے کچھ ہو جانے کا معاملہ محض عیاشیوں تک محدود رہا ہے۔ کسی نے خود کو نہیں بدلا بلکہ دولت کی فراوانی شب و روز تبدیل کرتی (یعنی بگاڑتی) گئی ہے! عرب کے شُیوخ کی دریا دِلی آج بھی ساری دُنیا میں معروف، بلکہ بدنام ہے۔ جو کچھ مستقبل کی تیاری اور اُمت کی بہبود پر صرف ہونا چاہیے تھا وہ ذاتی تعیشات پر خرچ یا برباد ہو رہا ہے۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ایک عرب باشندے نے پسند آ جانے پر ایک بکرا ایک کروڑ 30 لاکھ ریال یعنی 36 کروڑ 40 لاکھ روپے میں خریدا ہے! تصور یا فرض کرلیا گیا ہے کہ دولت یعنی پیٹرو ڈالر کی گنگا بہتی رہے گی۔ ایسا کبھی ہوا ہے جو اب ہوگا؟ دیکھا تو نہیں مگر سُنا ہے کہ سب سے بڑا خزانہ قارون کا تھا۔ بڑے بُوڑھے کہتے ہیں کہ بیٹھے بیٹھے کھاتے رہیے تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہوجائے! بات سیدھی سی ہے، بچوں کی بھی سمجھ میں آسکتی ہے۔ مگر بڑوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ شاید اِس لیے کہ بڑے ذہنوں میں چھوٹی باتیں آسانی سے فِٹ نہیں ہو پاتیں، خلاء زیادہ ہونے کے باعث اِدھر سے اُدھر لڑھکتی رہتی ہیں! ایک زمانے سے ہم پاکستانیوں نے بھی گونگی بدمعاشی کے آپشن کو گلے لگا رکھا ہے، بدلتے حالات کے مطابق خود کو بدلنے کی بجائے کچھ نہ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اِس روش کا جو منطقی نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا، ہوا ہے۔ اب ہر چیز ہمارے سَروں پر چڑھ کر ناچ رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، افلاس، بے امنی، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری، کرپشن، اقربا پروری، بے عملی، ہڈ حرامی اور دوسری بہت سی عِلّتوں کا سامنا ہم نے گونگی بدمعاشی سے کیا ہے۔ ؎ اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں! کچھ نہ کرنا ہمارا بُنیادی شیوہ بن چکا ہے اور یہ سوچ کر دِلوں کو بہلایا جارہا ہے کہ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ ٹھیک تو خیر ہوتا ہی گیا ہے مگر ہمارے لیے نہیں، ہمارے سَروں پر چڑھ کر ناچنے والوں کے لیے! ہر مَدِ مقابل نے ہماری گونگی بدمعاشی کے مقابل ’’بولتی شرافت‘‘ کو بروئے کار لاکر کامیابی کے جھنڈے ہمارے سینوں میں گاڑے ہیں! عشروں تک گونگی بدمعاشی کا قہر اور عذاب سہنے کے بعد اب اِتنی دانائی تو ہم میں پیدا ہو ہی جانی چاہیے کہ کب خاموشی کا آپشن ترک کرکے بولنے کی ابتدا کی جائے۔ قُدرت نے ہمیں کان سُننے کے لیے دیئے ہیں۔ باہر کی آوازیں سُننے میں کچھ ہرج نہیں مگر اچھا ہے کہ کبھی کبھی ہم دِل کی آواز بھی سُن لیا کریں۔ حلق صرف کھانے پینے کی اشیاء اور آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کے لیے نہیں ہوتا، کبھی کبھی اِس کی گہرائی سے کوئی صدائے حق و احتجاج بھی اُبھرنی چاہیے! محض برداشت کرتے رہنے سے کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہوا کرتی۔ عمل کی دُنیا بہت کچھ مانگتی ہے۔ پہلی قُربانی یہ ہے کہ کوئی بھی لگا بندھا طریق نہ اپنایا جائے بلکہ خود کو ہر آن بدلا جائے۔ ایسا نہ کیا جائے تو حریف مَرضی کا بدلہ لیا کرتے ہیں! زندگی ہم سے قدم قدم پر گونگی بدمعاشی ترک کرکے بولتی شرافت اپنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ اِس تقاضے کو نباہنے پر خود کو آمادہ کرنا ہی زندگی کا جوہر ہے۔ تحمل یقیناً قابلِ ستائش وصف ہے مگر حدود کا خیال رکھنا لازم ہے۔ کم لوگ ہی تحمل کے مُتحمّل ہو پاتے ہیں۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ برداشت کرتے رہنے کا وصف کِس مقام پر گونگی بدمعاشی میں تبدیل ہوتا ہے! بس، اِس مقام پر ہی آپ کی شرافت کو بولنے کا آغاز کرنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved