آج یکم اپریل ہے اور سب کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کوئی بھی غیرذمہ دار یا عقل و اخلاق سے عاری شخص آپ کے یا آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ کوئی ایسا مذاق کر سکتا ہے جوخدانخواستہ جان لیوا یا کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ یوں تو آج کل ہمارے ملک کے معاشی و سیاسی حالات ایسے ہیں کہ ہر روز یہاں عوام کو ''فُول‘‘ بنایا جا رہا ہے لیکن آج کے دن خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ پہلے اپنے قارئین کو آج کے احمقانہ تہوار یا روایت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ کیا ہے اور کیسے شروع ہوا؟ اپریل فول دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور انہیں بے وقوف بنانے کا تہوار ہے۔ یہ ہر سال اپریل کی پہلی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا اور اب ساری دنیا میں مقبول ہے۔ 1508ء سے 1539ء کے کچھ ولندیزی اور فرانسیسی ذرائع سے یہ پتا چلتا ہے کہ مغربی یورپ کے علاقوں میں یہ تہوار اس وقت بھی منایا جاتا تھا۔ برطانیہ میں اٹھارہویں صدی عیسوی کے شروع میں اس کا عام رواج ہوا۔ دراصل سولہویں صدی کے آخر تک یعنی 1564ء تک فرانس سمیت اکثر یورپی ممالک میں نیا سال مارچ کے آخر میں شروع ہوتا تھا۔ نئے سال کی آمد پر لوگ تحائف کا تبادلہ کرتے تھے۔ فرانس کے بادشاہ نے جب کیلنڈر کی تبدیلی کا حکم دیا کہ نیا سال مارچ کے بجائے جنوری سے شروع ہوا کرے گا تو غیر ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اس تبدیلی کا علم نہ ہو سکا اور وہ بدستور یکم اپریل کو ہی نئے سال کی تقاریب مناتے رہے اور باہم تحائف کا تبادلہ بھی جاری رہا۔ اسی بنا پر اُن لوگوں نے جنہیں اس تبدیلی کا علم تھا‘ دوسروں کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور انہیں اپریل فول کے طنزیہ نام سے پکارنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ ایک رواج کی شکل اختیار کر گیا اور اب دنیا بھر میں یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ آج بھی ایرانی کیلنڈر کے مطابق نیا سال 21 مارچ سے شروع ہوتا ہے۔ سال کے پہلے دن ایران میں نوروز کا تہوار منایا جاتا ہے جو ایران کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ یہ محض سردیوں کے رخصت ہونے اور بہار کے آنے کی خوشی میں منایا جاتا تھا کیونکہ سردیوں میں نہ کوئی فصل اگتی تھی نہ مویشیوں کے لیے چارہ دستیاب ہوتا تھا۔
اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprilis یا Aprire سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا، کونپلیں پھوٹنا۔ قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتی اور اسے خوش کرنے کے لیے شراب پی کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتی تھی۔ یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک اہم بلکہ غالب حصہ بن گیا۔ انسائیکلو پیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو ''عملی مذاق‘‘ (practical jokes and hoaxes) کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ اس دن ہر طرح کی مزاحیہ حتیٰ کہ نازیبا حرکات کی بھی چھوٹ ہوتی ہے۔ جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ آپس میں مذاق، جھوٹ، دھوکا دہی، فریب کاری، وعدہ خلافی اور ایک دوسرے کی تذلیل و تضحیک کی جاتی ہے۔ سماجی، مذہبی اور اخلاقی‘ ہر اعتبار سے اپریل فول منانا سراسر غلط اور ناجائز ہے۔ ہمارا وطن اسلام کے نام پر قائم ہوا، ہمارا آئین و قانون اسلامی اصولوں اور روایات کا امین ہے لہٰذا اس دن جن امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے وہ اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ایک واقعہ شاید میں پہلے بھی اپنے کالم میں تحریر کر چکا ہوں‘ یوں ہے کہ ایک یونیورسٹی میں ایک معروف دانشور صاحب ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے، سب لوگ ان کی باتوں پر واہ واہ، بہت خوب، ماشاء اللہ اور زبردست جیسے الفاظ سے داد دے رہے تھے۔ جب بھی کسی بات پر تالیاں بجتیں تو ان کا جوشِ خطابت مزید بڑھ جاتا۔ وہ فرما رہے تھے کہ انسان کو کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہئے‘ خواہ اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ انہوں نے بڑے فخر سے اپنی مثال پیش کی کہ میں ایک بڑے قومی ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز تھا، میری اٹھارہ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ تھی، کثیر مراعات کے علاوہ معاشرے میں بلند مقام تھا، لوگ بڑا احترام کرتے تھے اور میرے ایک اشارے پر بڑے بڑے کام ہو جایا کرتے تھے، پھر کسی بات پر میرا ادارے کی انتظامیہ کے ساتھ اختلاف ہوا لیکن میں ہرگز مصلحت کا شکار نہیں ہوا۔ میں نے اٹھارہ لاکھ کی نوکری چھوڑ دی، مراعات کو لات مار دی لیکن اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ مجھے دوچار مہینے بیروزگار رہنا پڑا لیکن اس کے بعد میں نے اپنا کام شروع کیا اور آج اللہ پاک نے مجھے اس ٹھاٹ باٹ کی نوکری سے بھی زیادہ خوشحال کردیا ہے اور میں زیادہ پُرسکون ہوں۔
ایک گھنٹے کی کتابی باتیں سنانے کے بعد انہوں نے سیمینار کے شرکا سے کہا کہ اب اگر کسی شخص کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو وہ اس کا جواب دینے کے لیے حاضر ہیں۔ پہلی قطار سے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، پھر ایک شخص نے سوال کیا کہ جناب! آپ نے خود بتایا کہ آپ اٹھارہ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے۔ گھر کا خرچ تو آپ کا چار‘ پانچ لاکھ سے زیادہ نہ ہو گا۔ کم ازکم بارہ‘ پندرہ لاکھ روپے ماہانہ بچت ہو جاتی ہوگی۔ اگر آپ دو‘ ڈھائی سال بھی اس کرسی پر براجمان رہے ہوں تو آپ کی بچت کروڑوں روپے بنتی ہے، لہٰذا آپ کی بات تو سمجھ آتی ہے کہ جس بندے کے اکائونٹ میں تین‘ ساڑھے تین کروڑ روپے ہوں‘ اسے چند ماہ کی بیروزگاری سے ڈر نہیں لگتا۔ اب آپ نے انہی پیسوں سے ایک ذاتی کمپنی کھڑی کر لی‘ لیکن جس کی تنخواہ ہزاروں میں ہو‘ وہ تو ایک ہفتے کی بیروزگاری کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا‘ پھر وہ کیسے مصلحت کا شکار نہ ہو؟ وہ اپنے اصول اپنائے گا یا بچوں کی بھوک مٹائے گا؟ اس سوال کو سن کر وہ دانشور صاحب خاموش ہو گئے۔ کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ پھر دھیمے لہجے میں بولے: بات آپ کی بالکل بجا ہے، لیکن اگر انسان اصولوں پر کاربند رہے تو اسے کامیابی ضرور ملتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ انہیں کسی ضروری کام سے جانا ہے اور ساتھ ہی سوال و جواب کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
پاکستانی سیاست اور معیشت آج ایسے ہی دانشوروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف‘ دونوں ہمارا مخاطب ہیں۔ ہمارے ننانوے فیصد سیاسی لیڈرز وہ ہیں جن کا مسئلہ غربت یا مہنگائی سرے سے ہے ہی نہیں۔ جن کے ذرائع آمدن اخراجات سے کہیں زیادہ ہیں اور وہ جتنے بھی پریشان ہوں‘ ان کی پریشانیوں میں مالی مشکلات کا عنصر کہیں دکھائی نہیں پڑتا۔ لہٰذا وہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسی سیاسی چال چلتے ہیں جس سے عوام کو بیوقوف بنا سکیں، یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں عوام کو روزانہ فُول بنایا جاتا ہے۔ کبھی کوئی کہتا ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ تو کوئی مزید قربانی مانگتا ہے۔ غریب عوام سے قربانی مانگنے والے یہ نہیں سوچتے کہ اسّی فیصد پاکستانیوں کی آمدن ان کے اخراجات کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف صاحب فرما رہے تھے کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کوئی بھوک سے نہیں مرتا، ان کا کہنا تھا کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ ہمارے خطے میں کوئی بھوک سے مرا ہو گا۔ کوئی انہیں بتائے کہ بھوک تو دور‘ یہاں تو درجن سے زائد افراد محض آٹے کے حصول کیلئے لائنوں میں لگ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ آئے دن لوگ غربت اور بیروزگاری سے تنگ آ کر نہ صرف خودکشی کر رہے ہیں بلکہ اپنے معصوم بچے تک بیچنے پر مجبور ہیں۔
ایک بار پھر یاددہانی کرا دوں کہ آج یکم اپریل ہے‘ لہٰذا ہمیں آج کے دن خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کسی بھی خبر پر یقین کرنے سے پہلے اس کی تصدیق ضرور کریں تاکہ کوئی آپ کو فُول نہ بنا سکے۔ اپریل فول کی آڑ میں دشمن بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ لہٰذا اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں کہ بغیر تصدیق کیے‘ کسی بھی خبر پر یقین نہ کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved