کائنات کتنی وسیع ہے! یہی معاملہ زندگی کا بھی ہے۔ زندگی بھی اِتنی وسیع ہے کہ ہم سوچیں تو سوچتے ہی رہ جائیں اور کائنات و زندگی کا تو کیا‘ اپنا سِرا بھی مشکل سے پائیں! یہ کائنات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم اِس کے بارے میں سنجیدہ ہوکر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کائنات کے دامن کی طرح زندگی کے دامن میں بھی ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ کسے کیا ملتا ہے اِس کا مدار بہت حد تک اس بات پر ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ خواہش، لگن اور محنت کے حامل افراد کو بہت کچھ مل کر رہتا ہے۔ اگر کسی نے طے کر رکھا ہو کہ زندگی کے دامن سے اپنے لیے کچھ حاصل کرنا ہی نہیں تو اور بات ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں اور اُس کا اجر پاتے رہتے ہیں۔ صلاحیت و سکت سے مناسبت رکھنے والی محنت کی جائے تو انسان بہت پاتا ہے۔ ناکامی سے دوچار رہنے والوں کا معاملہ تو رہنے ہی دیجیے، جو کامیاب ہوئے وہ بھی اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ یہ سفر کسی مقام پر رُکنا نہیں چاہیے۔
ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ چھوٹی موٹی کامیابی کو بہت کچھ یا سبھی کچھ سمجھتے ہوئے خوش اور مطمئن ہو رہتے ہیں۔ معاشرہ کامیاب اور ناکام انسانوں سے بھرا پڑا ہے۔ جنہوں نے ناکام ہونے کا سوچ لیا ہے وہ کسی بھی حال میں کامیابی کے نسخے آزمانے کا ذہن نہیں بناتے۔ قدم قدم پر مایوسی کا شکار ہونے والے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی پژمردگی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اُن کی باتوں میں پائی جانے والی پژمردگی دوسروں کے لیے بھی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے اور وہ بھی اپنے ارادوں میں کمزوری محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اِس دنیا میں کسی بھی انسان کیلئے بے مثال کامیابی یقینی بنانے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ہم اپنے ماحول کو دیکھ کر سیکھ سکتے ہیں کہ جہاں بظاہر کچھ بھی کرنے کی گنجائش نہ ہو وہاں بھی کچھ لوگ بھرپور محنت کے ذریعے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرنے والوں کو کامیابی ضرور ملتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ مواقع نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں مگر جب مواقع ہاتھ آتے ہیں تو اُن سے بھرپور استفادہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ایسا کبھی تو بے ذہنی کے باعث ہوتا ہے اور کبھی تساہل کے نتیجے میں۔ جب کسی بھی حوالے سے ذہن سازی کا رجحان نہ پایا جاتا ہو تب ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہم بالعموم کتنے کامیاب ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہر انسان کے نزدیک مختلف ہوسکتا ہے۔ کیا ہر انسان اپنی صلاحیت و سکت کے تناسب سے کامیاب ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب بالعموم نفی میں دیا جاسکتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ زندگی بھر خاصی کمتر کامیابی پر گزارا کرتے رہتے ہیں۔ قدرت نے ہر انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ سکت بھی کم نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمومی سطح پر انسان ہی کو درست اندازہ نہیں ہوتا کہ اُس میں کتنی صلاحیت و سکت ہے۔ کیوں؟ ایسا بالعموم لاپروائی یا بے ذہنی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ بے ذہنی یعنی متوجہ نہ ہونا۔ ہر انسان کو اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچنا چاہیے تاکہ ہمیشہ اس بات کا درست اندازہ رہے کہ اُس میں کیا کرنے کی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خود کو آزماتے بھی رہنا چاہیے۔
کسی بھی کامیاب انسان کو اپنے آپ پر فخر ہونا چاہیے کہ اُس نے محنت کی اور پھل پایا۔ کامیابی ایسی کیفیت ہے جو انسان کو بھرپور اعتماد سے ہم کنار رکھتی ہے اور وہ زیادہ دلجمعی سے کام کرنے کی تحریک پاتا ہے۔ کامیاب ہونا بہت اہم ہے مگر اِس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کامیابی صلاحیت و سکت کے تناسب سے ہو یعنی ہر انسان اس بات کا جائزہ لے کہ وہ جتنی کامیابی یقینی بناسکتا تھا اُتنی کامیابی یقینی بنانے میں کامیاب رہا ہے یا نہیں۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ جو تھوڑا بہت مل جائے اُسی میں خوش رہتے ہیں۔ گویا بقول اقبالؔ ع
تو ہی ناداں! چند کلیوں پر قناعت کر گیا
کبھی آپ نے اپنی صلاحیت و سکت کے تناظر میں اپنی محنت اور کامیابی کا تجزیہ کیا ہے؟ کبھی سُکون سے کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے تمام معاملات کا جائزہ لیا ہے؟ آپ کو اندازہ ہے کہ آپ میں کتنی صلاحیت اور سکت ہے؟ اپنی صلاحیت و سکت کا درست اندازہ لگانے کی صورت میں آپ کو ایسا لگا ہے کہ جو کامیابی آپ نے اب تک یقینی بنائی ہے وہ اُتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے تھی؟ سوال اور بھی بہت ہیں جن پر غور کرنا لازم ہے۔ عمر کے کسی بھی مرحلے اور کسی بھی کیفیت میں انسان کیلئے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ اپنی صلاحیت و سکت کا جائزہ لیتا رہے، اپنی مہارت کا گراف بلند کرنے پر متوجہ رہے اور مواقع شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے بھرپور استفادے کا ہنر بھی سیکھے۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ اپنی صلاحیت و سکت سے بے نیاز رہے یا بے ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ سب نہ کرے جو وہ کرسکتا ہے اور کرنا چاہیے۔ ہمارا پورا وجود اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور امانت کے درجے میں ہے۔ جو سانسیں قدرت نے عطا کی ہیں وہ عمل کی کسوٹی پر پرکھی جانی چاہئیں۔ ہم سے ایک ایک سانس کے فکر و عمل کا حساب لیا جائے گا۔ اگر کوئی انتہائی باصلاحیت ہونے پر بھی زیادہ کامیابی کے بارے میں سوچتا نہیں، سنجیدہ نہیں ہوتا تو اُسے سخت تر حساب کتاب کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ یہ دنیا دارالعمل اور دارالمحن ہے۔ محن محنت کی جمع ہے۔ قدیم اردو میں یہ لفظ (محن) مسائل، مصائب اور پریشانیوں کیلئے بھی استعمال ہوا کرتا تھا۔ محنت بھی پریشانی اور رنج و غم کے معنوں میں استعمال ہونے والا لفظ تھا۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ نے کہا ہے ؎
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
دارالمحن کے دو مفاہیم ہیں‘ وہ مقام کہ جہاں محنت کرنی ہے یا پھر وہ مقام جہاں مصائب ہیں۔ یہ دنیا ہمارے لیے کھیتی کی طرح ہے جس میں ہمیں وہ فصل اگانی ہے جو آخرت میں کاٹی جائے گی۔ ہر انسان کیلئے لازم ہے کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتا ہے، کر
گزرے۔ کسی بھی انسان کیلئے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب وہ اپنی صلاحیت و سکت سے اچھی طرح واقف ہو۔ ہر انسان کو یہ جاننا اور سمجھنا ہی چاہیے کہ کیریئر اور دیگر بہت سے معاملات میں وہ کہاں تک جاسکتا ہے، کتنا فرق پیدا کرسکتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ اپنی صلاحیت و سکت سے کہیں کمتر پر گزارا کرلیتے ہیں۔ بھرپور محنت کے ذریعے بہت دور تک جایا جاسکتا ہے مگر بالعموم ایسا ہوتا نہیں کیونکہ لوگ (بقولِ فرحت شہزادؔ) ع
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
کے مصداق بہت تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں یا پھر لاپروائی کے ہاتھوں اپنے وجود کو خاطر خواہ حد تک بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہیں۔ کوئی بھی انسان حقیقی معنوں میں سُکون اور مسرت کے ساتھ اُسی وقت جی سکتا ہے جب وہ طے کرے کہ اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرے گا اور جتنی کامیابی ممکن بنائی جاسکتی ہے، ممکن بنائے گا۔ یہی کیفیت انسان کو حقیقی اطمینان عطا کرتی ہے۔ اپنی صلاحیت، مہارت اور سکت کو بروئے کار لا کر جینے کی صورت میں انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کیلئے بھی بہت کچھ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ کسی بھی انسان کیلئے اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے کہ دوسروں کیلئے بھی کارآمد ثابت ہو؟ آپ کیلئے بھی زندگی کے دامن میں بہت کچھ ہے۔ صلاحیت و سکت کے مطابق جو کچھ بھی ملنا چاہیے وہ آپ کا حق ہے مگر آپ کو بھی متوجہ رہنا ہے، بھرپور ادراک کے ساتھ کام کرنا ہے تاکہ اپنے وجود کو بروئے کار لانا ممکن ہو۔ زندگی چند کلیوں پر قناعت کرنے کا معاملہ نہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیت و سکت کی حقیقی حدود پہچاننے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ جو کچھ ہمیں ملنا چاہیے وہ پانے کی کوشش فریضے کے درجے میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved