پاکستانی سیاست ایک بار پھر عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے یا یہ کہیے کہ عدالت ایک بار پھر سیاست کی گتھی سلجھانے پر لگا دی گئی ہے۔ معاملہ تو سیدھا سادا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے قائد جناب عمران خان کے حکم پر اپنی اسمبلیاں تحلیل کر ڈالی تھیں۔ان کا خیال تھا کہ حکومت پر دبائو بڑھے گااور وہ عام انتخابات کے فوری انعقاد کا مطالبہ مان لینے پر مجبور ہو جائے گی۔قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی تحلیل کرنا پڑیں گی اور یوں ملک بھر میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہو جائے گا۔حریفانِ سیاست خان صاحب کو چیلنج دیتے رہے تھے کہ فوری انتخابات چاہتے ہیں تو اپنے زیر اثر دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے دکھائیں۔اُن کا خیال تھا خان دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کا خاتمہ کرنے کا رسک نہیں لے سکیں گے یوں ملک بھر میں فوری انتخابات کا مطالبہ ہوا میں اُڑ جائے گا لیکن عمران خان عمران خان ہیں‘ وہ ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جو اُن کے مخالفوں کو تو کیا‘ حامیوں کو بھی حیران کر دیں۔انہوں نے دونوں صوبوں میں اپنے اقتدار کو لات مار دی۔ چودھری پرویز الٰہی دہائی دیتے ر ہ گئے لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی‘ نتیجتاً پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں۔ اتحادی حکومت اس پر چکرا کر رہ گئی۔ کوشش ہونے لگی کہ90 روز کے اندر تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات نہ ہونے پائیں۔انہیں اتنا موخر کر دیا جائے کہ وفاقی اور دوسری دو اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر لیں۔پنجاب اور کے پی کے گورنر انتخابات کی تاریخ دینے سے گریزاں ہو گئے۔ معاملہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹ تک پہنچا‘لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ انتخابات90دن میں کرانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔اس حکم پر یہاں بحث جاری تھی کہ سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا‘اس کیلئے نو رکنی بینچ مقرر کر دیا گیا۔اس بینچ کے ججوں میں اختلاف پیدا ہوتا گیا‘ یہاں تک کہ یہ تین ججوں تک محدود ہو گیا۔ سوال یہ تھا کہ جب ہائی کورٹ میں کوئی معاملہ زیر سماعت ہو تو ازخود نوٹس لیا جانا چاہیے یا نہیں۔ اس نکتے پر بحث اتنی بڑھی کہ اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں صرف تین جج اس معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔راوی کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی یوں بہہ چکا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کر دیے۔خیبرپختونخوا میں جنابِ گورنر نے فوراً آٹھ اکتوبر ہی کی تاریخ اپنے صوبے کے لیے بھی قبول کر لی۔ سپریم کورٹ میں اب یہ سوال زیر بحث ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ مقرر ہونے کے بعد اسے تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے یا نہیں؟الیکشن کمیشن نے انتخابات کو ملتوی کرنے کے حق میں28صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کر رکھا ہے‘ مختلف حکومتی محکموں کی طرف سے تعاون نہ کرنے کو اس کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اس معاملے کا جائزہ بھی لے رہی ہے کہ محکموں کا یہ موقف کس قدر وزن رکھتا ہے۔
تحریکِ انصاف کو توقع ہے کہ سپریم کورٹ جلد انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے گی جبکہ اُس کے مخالفین کی یہ کوشش ہے کہ معاملہ طول پکڑے۔ انتخابات سے توجہ بٹ کر ''ازخود نوٹس‘‘ پر چلی گئی ہے‘اس کے حوالے سے غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔مطالبہ ہو رہا ہے کہ یہ معاملہ فل کورٹ طے کرے۔ اہل ِ سیاست کے ساتھ ساتھ وکلا تنظیمیں بھی اس پر تقسیم ہو گئی ہیں۔ عدالتی اصلاحات کے نام پر حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک بل بھی منظور کرا لیا ہے‘ جو بینچ بنانے اور ازخود نوٹس لینے کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرتا ہے‘یہ اختیار چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ازخود نوٹس اور184(3) کے تحت براہِ راست کیے جانے والے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ ہی کے لارجر بینچ کے سامنے اپیل کا حق بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔اس بل پر ابھی صدرِ مملکت کے دستخط ہونا ہیں‘ اس کے بعد ہی یہ قانون کی شکل اختیار کرے گا۔اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے‘ اور یہ کسی کے ساتھ کیا کر پاتا ہے‘ یہ آنے والے وقت کے پردے میں چھپا ہوا ہے۔
سب نکتوں اور سب شوشوں کے درمیان سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے جو سماعت کر رہا ہے‘ وہ فل کورٹ کو ریفر ہونی چاہیے۔جناب چیف جسٹس یہ استدعا مسترد کر چکے ہیں‘وہ سیاسی درجہ حرارت میں کمی پر بھی زور دے رہے ہیں لیکن ازخود نوٹس اور زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے جج صاحبان کے درمیان اختلاف نے معاملے کو بہت گمبھیر بنا دیا ہے۔فاضل چیف جسٹس فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن جذبات میں جو شدت پیدا ہو چکی ہے اور دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جو سوالات پیدا ہو چکے ہیں یا کیے جا رہے ہیں‘ان کا تقاضا ہے کہ فل کورٹ کے سامنے معاملہ رکھا جائے۔اہل ِ سیاست اور وکلا تنظیموں میں سے کسی کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہے۔قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں‘ توقع کی جا رہی ہے کہ تکنیکی بنیادوں پر نہیں‘ وسیع تر تناظر میں فیصلہ صادر ہو گا۔
سپریم کورٹ ہمارے دستور کے تحت تنازعات طے کرنے کا آخری اور حتمی ادارہ ہے۔افراد کے درمیان‘ افراد اور ریاست کے درمیان یا اداروں کے درمیان جب بھی کوئی اختلاف پیدا ہوتا ہے تو اس ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف‘ حکم عدولی کی جسارت نہیں ہو سکتی۔ سپریم کورٹ کے سامنے سر تسلیم خم کر کے ہی ریاست کا نظمِ اجتماعی قائم رہ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جن فیصلوں پر آج تنقید کی جاتی ہے‘ وہ بھی جب صادر ہوئے تھے تو ان پر عمل کیا گیا تھا اور ریاست نے اپنا استحکام برقرار رکھا تھا۔ آج بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے ہر ادارے اور ہر شخص کو آمادہ و تیار رہنا چاہیے لیکن فاضل چیف جسٹس پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے ادارے کو منقسم نہ ہونے دیں‘ اس کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لائیں۔ سپریم کورٹ کو ایک‘ دو‘ تین یا سات‘ آٹھ‘ نو کی گنتی میں کیوں الجھایا جائے‘ سارے جج برابر ہیں تو برابر بیٹھ کر فیصلہ فرما دیں۔
ممتاز بھی ‘ طاہر بھی
روزنامہ ''آفتاب‘‘ کے چیف ایڈیٹر ممتاز طاہر بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ جمعرات کی صبح نمازِ تہجد ادا کی ہی تھی کہ دل بیٹھنے لگا۔ چند لمحوں میں اس فانی دنیا سے عالم ِ جاوداں تک کا سفر طے کر لیا۔ اُن سے ذاتی تعلق عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔وہ اپنے نام کی تصویر تھے‘ اہل ِ صحافت میں ممتاز تھے اور طاہر بھی۔ان کی پاکیزگی اور شرافت کی ہر شخص گواہی دیتا تھا۔ایک کارکن کے طور پر زندگی کا آغاز کیااور ایک بڑے اخباری گروپ کی بنیاد رکھی۔روزنامہ ''آفتاب‘‘ نے ملتان سے اشاعت شروع کی اور کئی شہروں تک پھیل گیا۔قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفی میں مجاہدانہ کردار ادا کیا‘ علاقائی صحافت کے تحفظ اور فروغ کے لیے عمر بھر کوشاں رہے۔تفصیلی تذکرہ پھر ہو گا۔دل ہے کہ سنبھلنے میں نہیں آ رہا۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر سے نوازے ؎
احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظؔ
دنیا چلی گئی میری دنیا سے لٹے ہوئے
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved