آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق دیتا ہے مگر جب سپریم کورٹ کیلئے قواعد و ضوابط بنانے کا مرحلہ آیا تو پارلیمان نے اپنا یہ حق سپریم کورٹ کو دے دیا کہ وہ اپنے لئے خود قواعد و ضوابط بنا ئے۔ 1980ء میں سپریم کورٹ نے اپنے لئے جو رولز بنائے ان کے تحت بینچ کی تشکیل اور ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔چونکہ پارلیمان نے آئین و قانون سازی کا اختیار سپریم کورٹ کو تفویض کر دیا تھا اس لئے جو قواعد و ضوابط سپریم کورٹ نے اپنے لئے بنائے ہیں وہ آئین کہلائیں گے‘ البتہ پارلیمان جب چاہے آئینی ترمیم کر کے سپریم کورٹ سے یہ حق واپس لے سکتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ سے قانون سازی کا حق سلب نہیں کیا جا سکتا۔ تحریکِ انصاف اگر اس پر واویلا کر رہی ہے تو وہ بلا جواز ہے۔ تحریک انصاف کے علاوہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر اتفاق کیا ہے‘ چند ایک ارکان نے قرارداد کی ٹائمنگ پر اختلاف کیا ہے‘ یہ درست ہے کہ عدالتی اصلاحات سے سیاسی شخصیات اور جماعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ 1980ء سے لیکر آج تک ان 43 برسوں میں ایسا کیا ہوا ہے کہ اہلِ سیاست کو عدالتی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوئی؟
نظام انصاف مکمل طور پر غیر جانبدار اور بے لاگ احتساب کا متقاضی ہے‘ عدالتی فیصلے ایسے ہونے چاہئیں کہ برسوں بعد بھی انہیں چیلنج نہ کیا جا سکے‘ اس کے برعکس جب ہم پاکستان کے نظام انصاف اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا جائزہ لیتے ہیں تو بے شمار متنازع فیصلے تاریخ کا حصہ نظر آتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو اورمیاں نواز شریف کے خلاف دیے جانے والے فیصلوں پر عدلیہ خود بھی تقسیم کا شکار ہے۔ 4اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی حکم کے تحت پھانسی دی گئی اس کے پیچھے کون سے قوتیں تھیں یہ الگ بحث ہے مگر اعلیٰ عدالتیں اس فیصلے کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ نوے کی دہائی میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کی حکومتوں کو ختم کرنے کیلئے اعلیٰ عدالتوں کا سہارا لیا۔ نظریۂ ضرورت کی بڑی مثال ہمیں پرویز مشرف کے مارشل لاء کے وقت دیکھنے کو ملی‘ 1999ء کو جب پرویز مشرف نے ایک منتخب جمہوری حکومت کو ختم کیا اور دوتہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم نواز شریف کو قید کر دیا‘ نہ صرف آئین پامال کیا بلکہ اعلیٰ عدالت کے ججز کو بھی برطرف کر دیا گیا مگر انہی عدالتوں کے معزز جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر پرویز مشرف کے اقدام کی توثیق کر دی۔ 1998ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف سوئس اکاؤنٹس سے متعلق ایک درخواست دائر کی گئی‘ چودہ برس بعد 2012 ء کو اس کیس کی سماعت میں پیپلزپارٹی کے منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اس بات پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیا گیا کہ انہوں نے سوئس حکومت کو خط کیوں نہیں لکھا۔ یوسف رضا گیلانی کو پانچ سال تک الیکشن میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا۔ جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل قرار دے کر ان پر تاحیات پابندی عائد کر دی‘ اس فیصلے پر بھی قانونی ماہرین کی آراء مختلف ہیں‘ کیونکہ کیس میں عائد کردہ الزامات پر بات نہیں کی گئی تھی‘ الزامات کے حوالے سے معاملہ نیب کو منتقل کر دیا گیا ‘ نیب سے فیصلہ آنے کا انتظار کئے بغیر سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو سزا سنا کر ایک اور متنازع فیصلے میں اضافہ کیا‘ مسلم لیگ (ن) آج تک یہ مؤقف اپنائے ہوئے ہے کہ ایک مفروضے کے تحت میاں نواز شریف کو سزا دی گئی۔
عدالتی اصلاحات اگرچہ دیرینہ مطالبہ تھا مگر بوجوہ برسوں تک اس پر عمل نہیں ہو پا یا‘ اب جبکہ سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور چیف جسٹس کے اختیارات زیر بحث ہیں تو اہلِ سیاست نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ مرحلہ عبور کر لیا ہے۔ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل2023ء کو پہلے مرحلے میں منظور کیا جسے بعدازاں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور وہاں سے منظوری ہوئی پھر سینیٹ سے بھی اس بل کو منظور کر لیا گیا۔ بل کے تحت چیف جسٹس اپنی صوابدید پر از خود نوٹس نہیں لے سکیں گے‘ ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل کمیٹی کو ہو گا‘ بینچ کی تشکیل بھی اسی کمیٹی کے ذریعے ہو گی‘ کمیٹی چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان مختلف اوقات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتے رہے ہیں تاہم چند روز قبل سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس جمال مندو خیل نے عدالت کے دو فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے ازخودنوٹس لینے اور بینچز کی تشکیل کے اختیار کو ریگولیٹ کیا جائے‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلہ کے بعد جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ سے الگ ہو گئے‘ انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد یا رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تین (از خود نوٹس) کے تحت سنے جانے والے تمام کیسز ملتوی کردیے جائیں۔
پنجاب و خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خودنوٹس کیس میں اب تک چار ججز بینچ سے الگ ہو چکے ہیں‘ جسٹس یحییٰ آفریدی‘ جسٹس اطہر من اللہ‘ جسٹس منصور علی شاہ‘ اور جسٹس امین الدین خان۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور حکومتی وکلا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ مؤقف اپنایا تھا کہ فیصلہ چار تین کا تھا جسے تین دو میں تبدیل کیا گیا‘ اب عدالت کے معزز جج صاحبان بھی اس کی تائید میں بول رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کے سیاسی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس لئے ہر سیاسی جماعت اُن ججز کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے جن کا فیصلہ انہیں اپنے حق میں نظر آتا ہے‘ پہلی بار ایسا نہیں ہوا بلکہ ہر دور میں نظریۂ ضرورت اور سیاست ساتھ ساتھ چلے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے ازخود نوٹس پر ابتداً نو رُکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا‘ حکومت نے دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے استدعا کی کہ فل کورٹ کا بینچ تشکیل دیا جائے‘ سپریم کورٹ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا‘ البتہ جن دو ججز پر اعتراض کیا گیا تھا وہ از خود بینچ سے الگ ہو گئے تھے‘ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہ کہہ کر سماعت سے معذرت کر لی تھی کہ از خود نوٹس کیس قابل سماعت نہیں ہے‘ یوں نو رکنی بینچ سے چار ججز الگ ہو گئے‘ پیچھے پانچ جج صاحبان رہ گئے‘ جب فیصلہ آیا تو دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی سے اتفاق کیا اسی بنا پر مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین دو کا نہیں بلکہ چار تین کا ہے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ ججز بھی یہی کہہ رہے ہیں ۔ میاںنواز شریف نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ جب سپریم کورٹ میں بہت سے جج صاحبان ہیں تو پھر تین جج ہی ہر کیس کی سماعت کیوں کرتے ہیں؟ معزز جج صاحبان کو بہرصورت ایسے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ پانچ رکنی بینچ سے جسٹس امین الدین خان کے الگ ہونے کے بعد ایک بار پھر سپریم کورٹ سے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی مگر چیف جسٹس نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا حالانکہ معاملات کو سدھارنے کا یہ بہترین موقع تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظریۂ ضرورت ابھی مرا نہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved