تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-09-2013

سنبل کی بد دعا سے ڈرو

سنبل کے مجرم کے بارے میں کسی وقت خبر آجائے گی کہ اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے لیکن کیا اس معصوم بچی کے ساتھ گھنائونا ظلم کرنے والا مجرم اکیلا ہے؟ کیا اس کے شریکِ جرم درندے‘ جن کی فہرست طویل ہے‘ پکڑے جائیں گے؟ اور انہیںبھی اپنے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ ہوش میں آنے کے بعد سنبل نے آنکھیں کھولیں تو وہ خوفزدہ تھی‘ روتی رہی‘ کچھ بول نہ سکی۔ شاید اُسے اپنے چاروں طرف بھیڑیے اور خونخوار درندے اپنی طرف بڑھتے نظر آرہے ہوں گے۔ انسانوں کی شکل میں درندوں کا پورا جنگل سنبل کا مجرم ہے۔ شاید ہم سب بھی۔ یہ بات نہ بھولیں کہ قانون قدرت بروئے کار آ جائے تو پورے معاشرے کو اجتماعی سزا بھی دے دی جاتی ہے۔ سنبل پرہونے والے شرمناک ظلم پر سارا ملک سراپا احتجاج تو ہے لیکن یہ چند دن کی بات ہے۔ کچھ روز بعد ہم سب کچھ بھول جائیں گے۔ پھر کوئی اور سنبل معاشرے میں پھیلی ہوئی شیطنت کا شکار ہو کر خبروں اور احتجاجی بیانات کی زینت بن جائے گی۔ پھر وہ احتجاج بھی کچھ دنوں میں مدھم پڑ جائے گا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ سینما یا ٹی وی کی سکرین پر چلنے والی فلم کے دردناک منا ظر پر ہماری آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور ہم ظلم کرنے والے کو کوستے بھی ہیں لیکن جونہی وہ منظر غائب ہوجاتا ہے ہم سب کچھ بھول کر نارمل ہو جاتے ہیں۔ پنجاب پولیس کا ریکارڈ اور اخبارات کی فائلیں دیکھ لیں‘ سنبل کے واقعہ سے چند ماہ پہلے پنجاب کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات سے کئی معصوم بچوں کی بوری بند لاشیں مختلف مقامات سے ملی تھیں جنہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہیں پھول کی پتیوں کی طرح مسل کر پھینک دیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ معصوموں کی آنکھیں نکال دی گئی تھیں۔ صرف لاہور شہر میں زیا دتی کے بعد قتل کیے گئے سات بچوں کی بوری بند لاشوں کی تصویریں ٹی وی اور اخبارات میں دکھائی گئیں۔ گویا صوبائی دارالحکومت میں ہر روز ایک معصوم بچہ درندگی کا شکار ہو تارہا اور شاید ہم سب یہ کہہ کر چُپ رہے کہ چوہنگ، نشتر کالونی، ریس کورس ،ایچی سن کالج، کوٹ لکھپت اور باغبانپورہ سے مردہ حالت میں ملنے والے معصوم بچے ہمارے نہیں ہیں۔ ہم نے ان کا درد اپنے بچوں کی طرح محسوس نہ کیا۔ چند روز قبل تھانہ منصور آباد فیصل آباد کے لوگ شیخوپورہ روڈ بلاک کر کے گیارہ سالہ بچی کی جنسی زیا دتی کے بعد قتل کی گئی بوری بند تعفن زدہ لاش سڑک پر رکھے مظاہرہ کر رہے تھے تو میں نے کہا تھا کہ ان لوگوں نے سڑک بند نہیں کی بلکہ پورے معاشرے کی بند آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے‘ ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے اور عدلیہ تک آواز پہنچانے کی کوشش کی ہے‘ محلات اور عشرت کدوں میں پُرتعیش زندگی گزارنے والوں کی بے حسی کو جگانے کی کوشش کی ہے اور سیا ست دانوں کو ان کے کرتوت دکھانے کی کوشش کی ہے۔ فیصل آباد کے اس واقعہ پرچند دن شور ہوا‘ حکمرانوں کے تندو تیز بیانات آئے لیکن اس کا نتیجہ سنبل کی صورت میں سامنے آ گیا ۔ سنبل کی طرح معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے جو مجرم گرفتار ہوئے‘ حیران کن حد تک ان سب کی عمریں پندرہ سے اٹھارہ سال تک کی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سولہ سترہ سال کے لڑکوں میں جنسی جنونیت کی آندھیاں کیوں چلنے لگی ہیں؟ کس چیز نے نوجوانوں کے ذہنوں میں اس قدر فحاشی اور عریانی بھر دی ہے کہ وہ جنسی لذت کے لیے مجرمانہ حرکت کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ نوجوان اﷲ کے عطا کیے ہوئے بڑے ہی بلند مقام سے لڑھکتے ہوئے پستی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟ جو کچھ میں سمجھ پایا ہوں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عریانی اور ہیجان انگیز منا ظر سے بھر پور انگریزی فلموں اوربھارتی چینلز سے فحاشی کا ایسا طوفان امڈتا چلا آ رہا ہے کہ اس کی خوفناک لہریں نوجوان نسل کو بہا کر لے جا رہی ہیں۔ ہمارے بچے اس آسمان میں دلچسپی رکھتے ہیں جس میں ہر طرف سٹیلائٹ اُڑ رہے ہیں اورہماری بارہ سے بیس سال تک کے لڑکوں کی نئی نسل وہ فلمیں اور پروگرام دیکھ رہی ہے جن میں عریانی اورجنسی بے راہ روی کے وہ شرمناک منا ظر دکھائے جاتے ہیں جس سے کچے ذہنوں میں شیطنت اچھلنے لگتی ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز سے اخلاق سوز فلموں اور پاپ میوزک کا وہ ہلا گلا اور اچھل کود دکھایا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سمیت چھوٹے بچوں میں بھی بے راہ روی کے پست ترین جراثیم پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ملتان میں قلفیوں والے کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے اور یہ سب کچھ ہمارے سامنے اور حکومتوں کی سر پرستی میں ہو رہا ہے۔ اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ کل ذیشان، کنول اور چار سالہ حنا کے قتل اور آج سنبل سے وحشت ناک درندگی کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ ہم سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے تھیٹر وں میں ڈراموںکے نام پر فحش ڈانس کیبل کے ذریعے ہر گھر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ عریاں ناچنے والی آبرو باختہ عورتوں کو فن کار اور آرٹسٹ کے نام دے کر ان کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ تباہی اور بربادی کا یہ طوفان اور آندھی اسی طرح بڑھتے رہے تو کل کلاں‘ میرے منہ میں خاک‘ ہر گھر کی سنبل نشانہ بنے گی‘ ہر گلی سے معصوموں کی بوری بند لاشیں ملیں گی۔ اپنا ملک بچانے کیلئے‘ اپنا نظریہ بچانے کیلئے‘ معصوم بچے بچیوں کو ذبح ہونے سے بچانے کیلئے‘ آگے بڑھ کر وحشت کے اس طوفان کے آگے بند باندھنا ہو گا۔ کیبل کے ذریعے گھر گھر پہنچنے والے فاحشہ عورتوں کے بے لباس اور فحش ناچ دیکھنے کے بعد نوجوان لڑکے جنسی وحشت کا شکار ہو کر درندے بن جاتے ہیں اور وہ اپنی یہ وحشت با لکل اسی طرح مٹاتے ہیں جس طرح ایک درندہ جنگل میں پھرنے والے معصوم جانوروں کو چیرپھا ڑ کر مٹاتا ہے اور لوگ اپنے ٹی وی پر اکثر دیکھتے ہوں گے کہ بھوک کے ہاتھوں وحشی بنے ہوئے درندے ہرن کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کیسے چیر پھاڑ دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے فحش سی ڈیز اور کیبلز پر چلنے والے ہیجان انگیز ڈانس اور منا ظر دیکھنے کے بعد درندہ صفت نوجوان کمسن بچوں کے ساتھ درندگی کرتے ہیں۔ یہاں بم دھماکوں کے ملزموںکی گرفتاری کیلئے ان کے تصویری خاکے شائع کئے جاتے ہیں لیکن وہ جو انسانیت کو قتل کر رہے ہیں‘ جو اسلامی نظریے کو قتل کر رہے ہیں‘ جو معاشرے کی شرم و حیا کے پردے چاک کر رہے ہیں‘ ان کی تصویریں تو گلی گلی‘ شہر شہر اور اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہیں لیکن انہیں کوئی پکڑنے والا نہیں! سنبل کی طرف سے میں اپنی ایف آئی آر اللہ اور عوام کی عدالت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ کل اس دن جب کوئی جاہ و جلال نہیں ہو گا‘ ہاتھ پائوں بندھے رب کریم کے سامنے پیش ہوں گے‘ اس دن اپنی صفائی میں اپنے رب سے اتنا تو عرض سکوں… پروردگار! میں نے اپنا کچھ فرض تو ادا کرنے کی کوشش کی تھی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved