ملکِ عزیز میں سیاست الزامات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سیاسی پلیٹ فارم مسائل کو مل بیٹھ کر بات چیت سے حل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن اب ہماری سیاسی جماعتیں خود اپنے مسائل بھی مل بیٹھ کر حل کرنے سے قاصر ہیں۔ پہلے مقتدرہ بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن اب سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی کی وجہ سے یہ پلیٹ فارم زیادہ فعال دکھائی نہیں دے رہا۔ دنیا کی نظریں اس وقت پاکستانی عدالتوں پر مرکوز ہیں۔ جہاں سے ہر روز نئی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اب پیر کے روز اچھی خبر آنے کی امید ظاہر کی گئی ہے مگر کسی مثبت خبر کے لیے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کو لچک دکھانے کی ضرورت ہے۔ آئین پر عملدرآمد ضروری ہے لیکن ملکی حالات کے پیش نظر اگر کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جاتا ہے تو اسے آئین اور قانون کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ اگر عدالتِ عظمیٰ تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے اور مسائل کے حل پر اتفاق کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے نہ صرف سیاسی استحکام آئے گا بلکہ معاشی سمت بھی درست ہو سکے گی۔ پیر کو اس حوالے سے کیا خبر آتی ہے‘ اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا مناسب نہیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ آئیے اب ایک نظر معاشی حالات پر ڈالتے ہیں۔
حکومت نے کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور کے ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا‘ اس ضمن میں عملی اقدامات کا آغاز ہو چکا ہے۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان ائیرپورٹس کو غیر ملکیوں کے حوالے کر رہی ہے تاہم سول ایوی ایشن اتھارٹی اس تاثر کو غلط قرار دے رہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت ملکی ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کا فائدہ عوام کو پہنچانا چاہتی ہے۔ ملکی ہوائی اڈے دوسرے ممالک کے حوالے کیے جانے کے تاثر کو غلط قرار دیے جانے کے باوجود نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ اس آؤٹ سورسنگ کے ذریعے حکومت بے روزگاری میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ ملکِ عزیز میں پہلے ہی 8کروڑ سے زیادہ افراد غربت میں رہ رہے ہیں۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ مزید لوگوں کو بے روزگاری کی طرف دھکیلا جائے گا۔ حکومت نے ملکی ہوائی اڈوں پر پہلے ہی ٹریڈ یونینز کی سرگرمیوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ آج اگر ٹریڈ یونینز سرگرم ہوتیں تو حکومت اتنی آسانی سے یہ قدم نہیں اٹھا پاتی۔
اس نقطۂ نظر کو اس لیے مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ سرکاری ادارے اس وقت نجکاری کی طرف جاتے ہیں جب وہ نقصان میں چلتے ہیں اور حکومت اس نقصان کو ایک بڑا جواز بنا کر پیش کرتی ہے۔ نجکاری کے حامی ایسے اداروں کو مردہ ہاتھی گردانتے ہیں جو ملکی وسائل پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ریلوے‘ واپڈا‘ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن سمیت کئی اداروں کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن اگر ان ائیرپورٹس کے نفع اور نقصان کو دیکھا جائے تو سال 2020-21ء کے دوران لاہور کراچی اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس سے تقریباً 120 ارب روپے کا ریونیو وصول ہوا تھا یعنی یہ ادارہ نقصان میں نہیں چل رہا۔ کیا حکومت خود ان ائیرپورٹس کو مزید بہتر نہیں بنا سکتی تھی۔ انتظامی اعتبار سے پاکستان کے یہ تین ائیر پورٹس بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ کوئی بڑی بدانتظامی یا نالائقی آج تک سامنے نہیں آ سکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سی اے اے کے زیر انتظام چلنے والے مختلف ہوائی اڈوں میں سے کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے ائیر پورٹس سب سے زیادہ منافع بخش ہیں۔ شاید اسی لیے سرمایہ کاروں کی نظر بھی ان پر ہے۔
آؤٹ سورس کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ حکومت نے ورلڈ بینک سے الحاق شدہ ایک ادارے کو کنسلٹیشن کے لیے مقرر کیا ہے۔ کئی ملین ڈالرز تو صرف کنسلٹیشن اور انٹرنیشنل ٹینڈرز کے اشتہارات کے لیے حکومت کو دینا پڑیں گے۔ نہ جانے سرمایہ کاری کب آئے گی‘ فی الحال تو حکومت کی جیب سے بہت زیادہ پیسہ جاتا نظر آ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ہر ائیرپورٹ کے لیے دو ملین ڈالرز فیس ادا کرنا ہو گی۔ اس حساب سے تین ائیرپورٹس کی فیس ساٹھ لاکھ ڈالرز بنے گی۔ پہلے حکومت نے اس معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وزراتِ خزانہ کو بتایا گیا کہ معاہدہ توڑنے پر جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ کم سے کم جرمانہ تقریباً پندرہ لاکھ ڈالرز ہے۔ اس وقت پندرہ لاکھ ڈالرز جرمانہ ادا کرکے ساٹھ لاکھ ڈالرز کی فیس سے بچا جا سکتا ہے۔ ملک اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر غیر مستحکم ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہو پارہا۔ قطر پاکستان کے ایل این جی ٹرمینلز کو خریدنا نہیں چاہتا اور امریکہ کے ساتھ حالات بھی خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وزارتِ خزانہ کے مطابق حکومت کے پاس الیکشنز کروانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ان حالات میں جیب سے ڈالرز خرچ کرکے ائیرپورٹس کو کسی اور کے حوالے کرنے کا فیصلہ مناسب نہیں۔ یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ حکومت اس حوالے سے مزید کیا فیصلے کرتی ہے‘ اس بارے میں کچھ بھی مکمل یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
ادھر اسحاق ڈار صاحب کے مطابق چین سے پاکستان کا دو ارب ڈالر کا قرضہ ایک سال کے لیے رول اوور ہو چکا ہے۔ قرض کی ادائیگی میں تاخیر سے ادائیگیوں میں توازن کے شدید بحران کے شکار پاکستان کو سہولت میسر آئے گی۔ اس قرضے کی ادائیگی میں توسیع بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر صرف چار ہفتوں کے درآمدی بل کے برابر رہ گئے ہیں اور بیل آؤٹ پیکیج کے تحت آئی ایم ایف کی طرف سے ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کا معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ دوسری طرف مگر چینی حکومت یا چین کے مرکزی بینک میں سے کسی نے بھی پاکستان کا قرضہ رول اوور کیے جانے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب کی جانب سے دیا گیا بیان پہلا سرکاری اعلان ہے۔ میچیورٹی کی نئی تاریخ یا انتظامات کی دیگر شرائط نہیں بتائی گئیں۔ شاید اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ری فنانسنگ کی باضابطہ تصدیق کی جائے گی۔
ایک اور اچھی خبر نے پاکستان کے دروازے پر دستک دی ہے۔ یورپی یونین نے پاکستان کو انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ یورپی یونین نے اکتوبر 2018ء
میں پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس فہرست میں شامل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ یورپی یونین کمیشن پاکستان میں انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق نگرانی کرتا رہے گا جبکہ آئی ایم ایف بھی پاکستان کو بطور بین الاقوامی مالیاتی آف شور سنٹر کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ یورپی یونین کی ہائی رسک ممالک کی لسٹ ایف اے ٹی ایف سے جڑی ہوئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ممالک کو یورپی یونین خود بخود ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ یوروپول کی رپورٹس کی بنا پر بھی یورپی یونین بعض ممالک کو ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کر دیتی ہے۔ انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست سے نکلنے سے پاکستان کے تین کاروباری شعبوں کو فائدہ ہو سکتا ہے جن میں ٹیکسٹائل‘ بینکنگ اور آئی ٹی شامل ہیں۔ برآمدات کی رقوم تیزی سے پاکستان آ سکتی ہیں۔ پاکستانی بینکوں کا یورپی ممالک کے ساتھ لین دین آسان ہو سکتا ہے اور آئی ٹی کی برآمدات کی ترسیلاتِ زر بھی جلد پاکستان پہنچ سکتی ہیں۔ فہرست سے نکلنے کے بعد پاکستان کے کاروباری افراد اور کمپنیوں کو انتہائی سخت نگرانی کے عمل سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ ان میں کریڈٹ انسٹیٹیوشنز‘ مالیاتی ادارے‘ آڈیٹرز‘ ایکسٹرنل اکاؤنٹنٹس اور ٹیکس مشیر شامل ہیں لیکن یہ خبر پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی کیونکہ اس وقت کریڈٹ ریٹنگز انتہائی منفی ہو چکی ہیں اور اب حکومت نے دو ارب ڈالرز کے بانڈز جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ یہ اچھی خبریں بھی اب بے معنی محسوس ہونے لگی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved