تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     03-04-2023

یہ سو موٹو کیا ہے ؟

یہ سو موٹو کیا ہے اور کیوں ہے؟اس موضوع پر گزشتہ دنوں پاکستان میں کافی بحث ہو تی رہی ہے۔ قانونی حلقوں کے علاوہ اس بحث میں عام لوگ بھی شامل رہے ہیں۔ دنیا بھر کے بیشتر قانونی نظاموں میں لاطینی الفاظ یا اصطلاحوں کا استعمال عام ہے۔ کامن لاء میں اس کا تو اس قدر استعمال رہا ہے کہ بعض قانون دان اس علم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے لاطینی زبان سیکھنا بھی ضروری قرار دیتے رہے ہیں۔ دوسری طرف ان پیچیدہ اور بسا اوقات ناقابلِ فہم لاطینی اصطلاحوں کے خلاف رد عمل بھی ہوتا رہا ہے۔ بہت سے ممالک نے اپنے قانون کی نصابی کتب میں لاطینی الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال کو کم کرنے کی بڑی طویل شعوری کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں یہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے ملکوں میں ان لاطینی اصطلاحوں کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کامیابی کے باوجود ان اصطلاحوں سے مکمل چھٹکارا شاید کبھی بھی ممکن نہ ہو۔ ان اصطلاحوں کی خوبصورتی اور افادیت یہ ہے کہ یہ انتہائی پیچیدہ خیالات‘ تصورات اور اصولوں کو مختصر الفاظ میں اور بسا اوقات چند لفظوں میں بیان کر دینے کی سہولت فراہم کرتی ہیں‘ جبکہ ان خیالات یا قانونی اصولوں کو عام سادہ زبان میں بیان کرنے کے لیے طویل فقروں بلکہ پیرا گراف کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام استعمال کی وجہ سے ہمارے ہاں قانون دان تو ایک طرف عام لوگ بھی لاطینی اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہیں جو صدیوں پہلے قدیم روم کے قانونی نظام سے شروع ہوئی تھی۔ ''سو موٹو‘‘ بھی ان اصطلاحات میں سے ایک ہے۔ اس اصطلاح کا سادہ مطلب کسی عدالت یا اتھارٹی کی طرف سے کسی فریق کی درخواست کے بغیر کسی معاملے کا '' از خود نوٹس لینا‘‘ہے۔ اس اصطلاح سے عام طور پر ایسی صورتحال مراد ہے جس میں ایک جج عدالت کے سامنے کارروائی کے لیے کسی بھی فریق کی درخواست کے بغیر خود ہی یہ طے کرتا ہے کہ کوئی معاملہ ضروری اور حساس ہے اور اس پر خود ہی اس کا نوٹس لے کر اس پر کارروائی شروع کرتا ہے۔ از خود نوٹس لینے کا رواج یا روایت دنیا میں عام نہیں ہے۔
دنیا میں جہاں جہاں کامن لاء ہے‘ وہاں گاہے یہ اختیار استعمال ضرور ہوتا رہا ہے لیکن یہ اتنا عام نہیں ہے۔ قانونی ماہرین نے سو موٹو کو جنوبی ایشیا کی ایک منفرد خصوصیت قرار دیا ہے۔ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں سوموٹو کا استعمال کثرت سے ہوتا رہا ہے اور یہاں کی اعلیٰ عدالتوں کی یہ عام روایت رہی ہے۔ دولتِ مشترکہ کے دیگر حصوں میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ کینیڈا میں مختلف صوبوں کی عدالتوں کو اس طرح کا نوٹس لینے سے منع کیا گیا ہے‘ جب تک کہ کسی قانون کی طرف سے ایسا کرنے کی واضح طور پر اجازت نہ دی گئی ہو‘ جو طاقت کے دائرہ کار اور حد کو بیان کرتا ہے۔ یہاں گزشتہ کئی برسوں میں رپورٹ ہونے والا کوئی ایسا کیس نہیں ہے جہاں عدالت نے کسی ایک فریقِ مقدمہ کی طرف سے باقاعدہ درخواست دائر کیے بغیر کسی معاملے کا از خود نوٹس لیا ہو یا اس پر کارروائی کی ہو۔ آسٹریلیا‘ جنوبی افریقہ اور کیریبین ممالک میں‘ جنوبی ایشیا کی طرح کے سوموٹو کی روایت نہیں ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کا آئین امریکی عدالتوں کو صرف مخصوص مقدمات میں از خود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عدلیہ ایسے مقدمات کا از خود نوٹس نہیں لے گی جو نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر قائم ہوں۔ یہ اختیار پاکستان اور بھارت میں بہت استعمال ہوا ہے اور فی زمانہ تقریباً انہی ممالک تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ باقی دنیا کے کئی ممالک میں یہ تصور سرے سے موجود ہی نہیں‘ اور کئی ممالک کے قانون دان تک نہیں جانتے کہ یہ سوموٹوکیا بلا ہے۔ پاکستان میں از خود نوٹس کی روایت اتنی عام ہے کہ اس موضوع پر 'روزنامہ دنیا‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2000 ء سے آج تک سپریم کورٹ آف پاکستان نے 204 از خود نوٹس لیے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک جسٹس نے 79 کے قریب نوٹس لیے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک ایسی مملکت میں ہوتا رہا ہے جہاں ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات کئی عشروں سے عدالتوں میں پڑے ہیں اور درخواست گزاروں کی سماعت اور انصاف کے انتظار میں عمر گزر جاتی ہے۔ یا طویل انتظار کے بعد ملکِ عدم سدھار چکے ہوتے ہیں تو ان کے مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں کئی قانونی ماہرین اور دانشور حضرات کا خیال رہا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں عدالتوں کو یقینی طور پر از خود کارروائی شروع کرنے کا اختیار حاصل رہا ہے اور یہ ایک باقاعدہ روایت بھی بن چکی ہے مگر یہ کوئی بے لگام طاقت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک لکیر کھینچنے کی ضرورت تھی کہ کون سے مقدمات از خودنوٹس لینے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور کون سے اس سے باہر ہیں۔ قانونی دانشوروں کی رائے تھی کہ از خود کارروائیوں کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ عدالتیں قانون کی تشریح کرتے ہوئے آئینی حد سے آگے بڑھتی رہی ہیں۔ اس سے انتظامی کاموں میں پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ غیر متوقع صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے حلقوں کی جانب سے اس عمل پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ اس معاملے میں صورتحال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ بالآخر پارلیمنٹ کو باقاعدہ قانون سازی کرنا پڑی۔ اس قانون سازی کے تحت از خود نوٹس لینے کا طریقہ کار‘ اس کے لیے مطلوبہ ججوں کی تعداد اور اس کے خلاف اپیل کا قانون وضع کیا گیا ہے جو وقت کی ضرورت تھی۔ نئے قانون کے تحت از خود نوٹس لینے کی روایت میں معقولیت اور ٹھہرا ؤ آئے گا۔ یہ روایت اگر جاری رہتی بھی ہے تو اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ بچوں‘ عورتوں اور سماج کے دیگر کمزور طبقات کی حفاظت اور صاحبِ اختیار طبقات کی طرف سے کی جانے والی کسی نا انصافی کے معاملات تک ہی محدود رہنا چاہیے۔ از خود نوٹس کے سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر قائم ہونے والے مقدمات میں بے محابا استعمال سے اس تصور کی نفی ہوتی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس طرح کی روک تھام صرف ایک پختہ جمہوریت میں ممکن ہے جہاں قانون کی حکمرانی کو قبول کیا جائے اور وہاں انتظامی اور انتظامی اداروں کی صلاحیتوں پر عوام کا اعتماد ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں‘ جیسا کہ جنوبی ایشیا میں‘ اس طرح کی 'شاندار تنہائی‘ناقابلِ برداشت ہے۔ یہ یقینی طور پر درست ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں انسانی ترقی اور ادارہ جاتی سالمیت کی شرح مغرب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا درست ہو گا کہ جمہوری اداروں کو پختہ ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ جمہوریت میں‘ تقریباً تمام قانون سازی میں سمجھوتا شامل ہوتا ہے اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ادارے حقیقت میں پختہ ہو جائیں اگر ریاست کے عدالتی اعضاکی طرف سے انہیں مسلسل کمزور کیا جائے۔
سو موٹو‘ بہتر یا بدتر کے لیے‘ یہاں رہنے کے لیے ہے؛ تاہم جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ عدالتیں اپنے دائرہ کار اور عملدر آمد کے لیے ایک مناسب فریم ورک تیار کریں جس کا اب تک فقدان ہے۔ اس کے بغیر یہ عدالت کے اقدامات کے بارے میں غیر یقینی اور غیر متوقع پن کا باعث بنتا ہے اور جیسا کہ ایک امریکی جج نے ایک بار کہا تھا ''آزادی غیر متوقع ہونے میں کوئی پناہ نہیں پاتی‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved