1968ء میں جب بطور پروڈیوسر میری ریڈیو پاکستان کراچی میں تعیناتی تھی تو ریڈیو کے نمائندے کے طور پر شہر کی اہم تقریبات میں جانے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ ان تقریبات کی جو بات مجھے حیرت زدہ کرتی تھی وہ یہ تھی کہ ان تقریبات میں کھانے کا اس قدر وسیع انتظام ہوتا تھا کہ شادیوں میں بھی اس قدر اہتمام دیکھنے کو نہ ملتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں شراب پر کوئی پابندی نہیں تھی لہٰذا شوقین مہمان میزبان کے خرچے پر یہ شوق بھی فرما لیا کرتے۔ میری تنخواہ محض چند سو روپے ماہانہ تھی اور ایسی پارٹیاں قریب سے دیکھ کر مجھے عجیب سا احساس کمتری محسوس ہوتا تھا۔ ریڈیو کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے میزبان میری آئو بھگت تو کافی کرتے تھے مگر پیسے کی اس قدر فراوانی اور پھر اس کے بے دریغ خرچ کو دیکھ کر اپنی مالی حالت پر بہت ترس آتا تھا۔ اس دور میں ریڈیو کے نمائندوں کی واقعتاً بہت پزیرائی ہوتی تھی کیونکہ ٹیلیویژن بالکل نیا نیا اور بلیک اینڈ وائٹ تھا اور اس پر تقریبات کی کوریج کم ہی ہو پاتی تھی۔ پیر کے روز نشریات کا ناغہ ہوتا تھا اور کراچی جیسے شہر میں بھی ٹی وی سیٹ رکھنے والے گھروں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ یہ تفصیل میں نے اس غرض سے لکھ دی ہے کہ آج کل کے ماحول کو دیکھ کر یہ یقین کرنا کافی مشکل ہے کہ اہم تقریبات کے میزبان ریڈیو کے نمائندے کی بھی آئو بھگت کیا کرتے تھے۔ بہرحال اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ صورت یہ تھی کہ کراچی میں تقریبات کے میزبان کچھ زیادہ ہی کھل کر خرچ کرتے تھے اور مجھے اس بات کا کچھ زیادہ احساس ہوتا تھا کیونکہ میری تنخواہ بہت کم تھی۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ ہمیں دفتر کی طرف سے حکم ملا کہ ایوب خان کا جو عشرہ اصلاحات چل رہا ہے اس سلسلے میں ہم سندھ کے مختلف اضلاع میں، جو ترقیاتی کام ہوئے ہیں ان پر دستاویزی پروگرام بنا کر نشر کریں۔ اس طرح مجھے سندھ کے چند اضلاع میں جانے کا موقع ملا۔ اگرچہ ہم زیادہ تر سرکاری لوگوں کے انٹرویو کرتے تھے مگر ساتھ ہی عام لوگوں کی حالت بھی دیکھتے تھے۔ ظاہر ہے عام لوگوں کی بے کسی اور غربت کا تو ہم ذکر نہ کرسکتے تھے کیونکہ سرکاری ریڈیو پر سرکار کی محض تعریف ہی ہوسکتی تھی اور پھر ہم تو ایوب خان کے عشرہ اصلاحات کی پبلسٹی کے لیے ہی بھیجے گئے تھے۔ تاہم ان پروگراموں کی ریکارڈنگ کے دوران اندرون سندھ عام لوگوں کی حالت دیکھ کر مجھ پر جو احساسِ کمتری کی کیفیت کراچی کی تقریبات کی فضول خرچیوں کے سبب طاری رہتی تھی وہ بالکل ختم ہوگئی اور ان دیہی علاقوں کی باسیوں کی غربت دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا تھا گویا میں انتہائی متمول شخص ہوں۔ یہ دو انتہائیں تھی جو میں نے آج سے پینتالیس برس قبل اپنے اس پیارے دیس میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ یعنی ایک طرف کراچی میں امارت کا وہ مظاہرہ کہ ایک تقریب میں ہونیوالے اخراجات سے سندھ کے ایک پورے گائوں کی سال بھر کی مالی ضروریات پوری ہوسکتی تھیں۔ دوسری طرف اندرون سندھ میں وہ غربت کہ بعض عمر رسیدہ لوگوں نے زندگی بھر سو روپے کے ایک نوٹ کی حسرت دل میں رکھی۔ عمر ختم ہوگئی مگر وہ نوٹ کے مالک نہ بن سکے۔اپنے اس تاثر کا ذکر میں نے اس دور میں اپنے کئی دوستوں سے کیا مگر ان میں سے ہر ایک کا یہی جواب تھا کہ ابھی نیا نیا ملک بنا ہے۔ دیکھو بھارت ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا مگر ہم نے اتنی ترقی کرلی ہے جبکہ وہاں بھوک ہی بھوک ہے۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ واقعتاً یہ بات درست ہے کہ اس دور میں عام پاکستانی یہی محسوس کرتے تھے کہ ہمارا ملک بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ ساتھ ہی ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ مغربی پاکستانیوں میں بنگالیوں کے خلاف اچھی خاصی نفرت پیدا ہوچکی تھی جبکہ مشرقی پاکستان ہم سے بالکل بیزار ہوچکا تھا۔ ان مسائل کی سنگینی کا کسی کو اندازہ نہ تھا۔ شہروں میں عام لوگ قدرے معاشی آسودگی محسوس کرتے تھے اور دیہی آبادی کی محرومیوں سے مسلسل بے خبر تھے۔ غریبوں کی آہوں کا کسی کو احساس ہی نہ تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا اور کس طرح 1971ء میں ہم پاکستان کے دولخت ہونے کے سانحے کا شکار ہوئے۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ 1968ء میں جو صورتحال تھی اس کا جب میں آج کی صورتحال سے موازنہ کرتا ہوں تو خوف آنے لگتا ہے۔ آج تو ہماری حالت 1968ء والی حالت سے بھی بُری ہے۔ پینتالیس برس بعد امیر اور زیادہ امیر ہوچکے ہیں اور غریب اور زیادہ غریب۔ ایوب خان کے دور میں 22 امیر ترین گھرانوں کا چرچا تھا اب ان کی تعداد 22 سے کہیں زیادہ ہے جبکہ غریبوں کی تعداد بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ جس طرح 1968ء میں ہمیں احساس نہیں تھا کہ ہم 1971ء کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی اور بڑی تباہی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے‘ جس کا ہمیں اندازہ ہی نہ ہو!! کیونکہ غریبوں کی آہوں میں تو اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی اب بھی پالیسیاں ایسی ہیں‘ جیسے ہمارا ملک ملائشیا جیسی ترقی کر چکا ہے اور اب انہیں ’’پتراجایا‘‘ قسم کا نیا شہر بسانا چاہیے۔ ملائشیا نے اگر نیا شہر بسایا تھا تو پہلے ملک میں خوشحالی کا انتظام کیا تھا‘ پھر ’’پتراجایا‘‘ کے نام سے نیا شہر بسایا تھا۔ ہمارے دیہات میں جا کر تو دیکھیں وہاں تو لوگ اس طرح رہتے ہیں کہ اگر ان کا موازنہ موہنجودڑو میں ہزاروں برس پہلے رہنے والوں سے کیا جائے تو اُن کی حالت آج کے لوگوں سے بہتر معلوم ہوگی۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں ترقیاتی اخراجات اس انداز سے کرتی ہیں کہ ہماری غریب آبادی تک ان کے اثرات برائے نام رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ غریبوں کی ہمارے ہاں کوئی آواز نہیں ہے مگر پروردگار کے ہاں تو سب کی سنی جاتی ہے۔ ہمارا ملک جن خطرات سے دوچار ہے اور یہ خطرات ہمیں جس انجان سمت میں لیے جارہے ہیں اس کی وجہ مجھے تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ ہم اپنے ملک کی غریب آبادی کے ساتھ انصاف نہیں کررہے اور غربت کے مارے ان لوگوں کی خاموش آہوں نے ہمیں اس حال کو پہنچا دیا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو غریبوں کے دکھ کا احساس نہیں ہے۔ جب تک ہمارے حکمران غریبوں کے دکھ دور نہیں کریں گے، ہم انجانے خوفناک انجام کی طرف بڑھتے رہیں گے۔ اللہ ہم پر رحم کرے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved