تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     16-09-2013

ایک ٹیلی فون کال

’’سر، ہمارے پروجیکٹ پر قبضہ ہوگیا ہیـ، بائیس لڑکے ہیں اور پچاس لاکھ روپے مانگ رہے ہیں‘‘، منیجر نے علی الصبح فون پر اسے یہ خبر دی تھی۔ ’’کیا بکواس کررہے ہو، میری بلڈنگ پر کون قبضہ کرسکتا ہے، یہ تم نے تو کوئی چکر نہیں چلایا؟‘‘ اس نے غصے سے پوچھا۔ ’’سر ، آپ کیسی باتیں کررہے ہیں، میں تو خود چوکیدار کے فون پر یہاں پہنچا ہوں اور ان لڑکوں کو آپ کے بارے میں بتا بھی چکا ہوں لیکن وہ بلڈنگ سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہورہے۔ اس وقت کام کرنے والے سارے مزدور باہر کھڑے ہیں‘‘، منیجر کی زبانی کچھ تفصیل سن کر اس کے غصے میں کمی اور پریشانی میں اضافہ ہوگیا ۔ ایک کامیاب کاروباری ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی کی سیاست میں اس کا ایک مقام تھا، وہ کئی بار اسمبلی کا رکن منتخب ہوچکا تھا اور اس کی سیاسی جماعت اس کی ہر طرح کی مدد کے لیے تیار رہتی تھی ۔شہر کی روایت تھی کہ بد ترین سیاسی حریف بھی ایک دوسرے کے کاروباری معاملات سے دور رہتے تھے اور اپنے کارکنوں کو بھی قابو میں رکھتے تھے۔ اسے یہ اعتماد تو تھا کہ جو لوگ بھی اس کے اس رہائشی منصوبے پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ ہوں گے اور وہ متعلقہ جماعت کے سربراہ کو فون کرکے انہیں بطریق احسن وہاں سے گھر بھیج دے گا، لیکن ایک انجانا سا دھڑکا بھی تھا ۔ انہی سوچوں میں گھرا وہ گاڑی چلائے جارہا تھا اور اسے پتا ہی نہ چلا کہ کب وہ شہر کے دوسرے کونے سے یونیورسٹی روڈ پر واقع اپنے زیرتعمیر پلازہ تک پہنچ گیا تھا۔ اس کی پہلی نظر ان مزدوروں پر پڑی جو اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ کسی طرح ان مسلح لڑکوں کو باہر نکالے اور وہ اپنی دیہاڑی لگا ئیں۔ وہ گاڑی سے اترنے بھی نہیں پایا تھا کہ اس کا منیجر تیر کی طرح اس تک پہنچا۔ اس کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور وہ بس اتنا کہہ پایا ’’سر معاملہ زیادہ خراب لگتا ہے‘‘۔ اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن منیجر اس کا ہاتھ پکڑ کر عمارت کی طرف کھینچنے لگا۔ باوجود اس کے کہ اندر مسلح لڑکے موجود تھے، اسے اندر جاتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اسے ابھی معلوم ہوا تھا کہ اس کے پیچھے پیچھے اس کے وہ گارڈ بھی چلے آرہے ہیں جو گھر سے اسے نکلتا دیکھ کر کچھ پوچھے بغیر دوسری گاڑی میں پیچھے ہولیے تھے۔ مسلح گارڈز کی موجودگی میں اسے خیال آیا کہ اگر ان لڑکوں نے کچھ زیادہ اکڑ دکھائی تو پھر وہ اسلحہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ عمارت میں داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ بیس بائیس لڑکے دائرے میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔ دور سے انہیں دیکھتے ہی اس کے اندر غصے کی ایک شدید لہر اٹھی اور اس نے گالیاں دیتے ہوئے انہیں للکارنا شروع کردیا۔ تھوڑا قریب پہنچ کر اسے یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ ان میں سے کچھ کو وہ پہچانتا بھی ہے کیونکہ وہ اسی کی جماعت کے کارکن تھے، اس نے خود اس گروپ کو ریکوری ٹیم کا نام دیا تھا، کیونکہ کچھ مخصوص علاقوں سے جماعتی اور اپنے ذاتی اخراجات کے لیے رقم کی فراہمی کا یہ گروپ ذمہ دار تھا۔ اس گروپ کو یہاں دیکھ کر جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کہیں اس کی جماعت نے اسے نکال تو نہیں دیا۔ اس ایک لمحے میں اس نے جو خود احتسابی کی اس کا جواب اسے یہ ملا کہ ایسی کوئی بات نہیں جس پر ناراض ہوکر اسے نکالا جاسکے۔ اگر ایسا ہوچکا ہوا تو؟ یہ اتنا خوفناک خیال تھا جسے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ لڑکوں کے اس گروپ کے سربراہ نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور ’’صاحب، صاحب، صاحب‘‘ کہتا ہوا اس سے لپٹ گیا۔ جواب میں اس نے خشک رویہ ہی اختیار کیے رکھا اور پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے۔ ’’ارے صاحب، کچھ خرچہ چاہیے تھا اور پھر آپ نے پچھلی بار جلسے کے لیے پیسے بھی کم دیے تھے تو سوچا کہ وہ بھی پکڑ لوں‘‘، اس مسلح نوجوان نے یہ کہنے کے لیے اس کے پاؤں کے قریب ہی گٹکے سے بھرا ہوا منہ خالی کیا تھا۔ اس نے اس کا جواب دینے کی بجائے صرف یہ کہا ’’اب تم جاؤ اور یہ بات دفتر میں ہوگی، میں دیکھوں گا کہ تمہیں کس نے بھیجا ہے‘‘۔ یہ سن کر نوجوان مسکرایا اور بولا ’’ابھی تو جانے کے لیے کچھ دینا ہی پڑے گا، میں ان بائیس لڑکوں کو یونہی تو نہیں لایا‘‘۔ یہ سن کر اس نے جیب سے فون نکالا اور نوجوان کو دکھا کر بولا ’’اچھا یہ بات ہے تو میں اس سے بات کرتا ہوں جو ہم سب کا باپ ہے‘‘۔ یہ سن کر نوجوان کچھ پریشان ہوگیا اور کچھ سوچ کر بولا ’’ٹھیک ہے ابھی ہم جاتے ہیں، پھر دفتر میں ہی ملاقات ہوگی‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے لڑکوں کو اشارہ کیا اور سارے اس عمارت سے نکل گئے۔ ان لڑکوں کو نکلتا دیکھ کر مزدور خاموشی سے اندر آنے لگے اور اپنے اپنے کام پر لگ گئے۔ اس کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے فون پر اپنی جماعت کے تمام سرکردہ رہنماؤں کو ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کی درخواست کی اور دو گھنٹے کے اندر اندر وہ تمام لوگ ایک بڑے کمرے میں بیٹھے اس کی داستان سن رہے تھے۔ اس نے بڑے مؤثر انداز میں اپنامقدمہ پیش کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ اب وقت بدل گیا ہے لہٰذا ہمیں ان تمام لوگوں سے جان چھڑانا ہوگی جن کی وجہ سے یہ شہر بدنام ہوچکا ہے۔ متفقہ طور پر یہ تجویز منظور کرلی گئی اور یہ بھی طے ہوگیا کہ اس سلسلے میں دوسری جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ اعتماد میں لینے کا یہ سارا عمل بند کمروں میں ایک سال سے زیادہ چلتا رہا۔ اسے کئی بار اسلام آباد جا کر دوسری جماعتوں کو سمجھانا پڑا کہ معاملات کتنے خراب ہوچکے ہیں۔ اسے یہ جان کر حیرانی اور خوشی ہوئی کہ دوسری جماعتوں کے ’’کارکن‘‘ بھی اپنے ہی رہنماؤں سے بھتہ لے کر عیاشی کررہے ہیں، یہی ایک سبب سب لوگوں کو ایک مؤقف پر اکٹھا کرنے کے لیے کافی تھا۔اس ایک سال میں الیکشن بھی ہوا اور بندکمروں میں ہونے والے مذاکرات میں یہ طے پایا کہ الیکشن میں اپنے اپنے جتھوں پر قابو رکھا جائے گا۔ جب الیکشن مناسب انداز میں ہوچکا تو ایک دوسرے پر یہ اعتماد بھی بڑھ گیا کہ اب اگر کوئی اقدام کیا جاتا ہے تو کوئی بھی فریق اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ کراچی میں بننے والے اس اتفاق رائے میں وفاق کو نیوٹرل امپائر کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سہراب گوٹھ سے قائد آباد تک شہر کے کسی حصے میں بھی مرکز میں حکمران جماعت، پاکستان مسلم لیگ ن کا کوئی سیاسی دعویٰ نہیں ہے۔کراچی کے سارے متحارب فریق اس وقت ایک غیر جانبدار مگر خالصتاً سیاسی قوت کو اپنا بڑا مان کر امن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی اسی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ جس بلڈر سیاستدان سے بھتہ لینے کی کوشش کے بعد سیاستدانوں میں کراچی کے حالات ٹھیک کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ، اس کا نام اسی کی خواہش کے احترام میں نہیں لکھ رہا، لیکن یہ ضرور لکھا جاسکتا ہے کہ سازشیں کرنے والے اسلام آباد میں وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان کو ورغلانے میں مصروف ہیں اور سندھ کابینہ میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو اپنی پارٹی کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے ندیم ہاشمی کی گرفتاری اسی سازش کی کڑی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح کے معاملات کو سلجھانے کے لیے وزیراعلیٰ کو ایک سیاسی اور ایک غیر سیاسی کمیٹی تشکیل دینا تھی لیکن آپریشن شروع ہونے کے باوجود کوئی کمیٹی نہ بن سکی، اسی وجہ سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ صوبائی حکومت میں ایک گروپ معاملات پر قابض ہے۔ جیسے جیسے یہ تاثر مضبوط ہوگا وفاقی حکومت کی ناکامی سامنے آتی چلی جائے گی اور کراچی میں غنڈہ گردی کے خلاف جاری متفقہ آپریشن کے لیے بنا ہوا اتفاق رائے ختم ہو جائے گا۔ ایک دفعہ اتفاق رائے ٹوٹا تو پھر کراچی میں بہت کچھ ٹوٹ جائے گا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے درمیان ایک ٹیلی فون کال اس وقت ،بہت کچھ سنبھال سکتی ہے۔ بعد میں شاید یہ موقع نہ ملے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved