جب شہری‘ ریاست کی عملداری کو چیلنج کر کے بندوقیں اٹھالیں اور سلامتی کے ذمہ دار سب سے بڑے ادارے پر حملے کرنے لگیں‘ تو وہ قوانین کی پابندی کرنے والے شہری نہیں رہ جاتے اور ریاست پر اپنا حق گنوا دیتے ہیں۔ اسی طرح جب ریاست ایسے باغیوں کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی نہیں کرتی‘ تو وہ بھی بطور ریاست اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برت رہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہم گزشتہ 12سال سے یہی تماشا دیکھتے آ رہے ہیں۔ اب تک ۔پاک فوج کے 5ہزار سے زیادہ افسر اور جوان‘ ان باغیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں اور 40ہزار سے زیادہ شہری‘ ان کی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اب یہ باتیں دہراتے ہوئے بھی اکتاہٹ ہونے لگی ہے کہ ہمارے بازار‘ خریداریوں کے مراکز‘ سکول‘ ہسپتال‘ ایجنسیوں کے دفاتر‘ بری‘ بحری اور فضائی افواج کے مراکز‘ مساجد‘ امام بارگاہیں‘ طالبات‘ طلبا‘ غرض یہ کہ زندگی کا کوئی شعبہ‘ دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رہا۔ شہید ہونے والے فوجیوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت تین جنرل شامل ہیں۔ گزشتہ روز میجرجنرل ثناء اللہ نیازی اور ایک لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان سرحدی دفاع کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے دہشت گردوں کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کر گئے ۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس کے باوجود ہمیں سمجھایا جا رہا ہے کہ یہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مخالفین کی کارروائی ہے۔ گویا جس کارروائی کی ذمہ داری طالبان خود قبول کر رہے ہیں‘ ان کے وکیل دوقدم آگے بڑھ کر ‘ انہیں بری الذمہ قرار دیتے ہوئے‘ مذاکرات کے مخالفین پر الزام لگا رہے ہیں۔ مدعی سست‘ گواہ چست۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مذاکرات کے مخالفین کون ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں‘ جو ریاست کی خودمختاری اور عملداری پر یقین رکھتے ہیں۔ جو پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔ جو آئین و قانون کی پابندی کو ہر شہری کا فرض سمجھتے ہیں۔ جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو شہری ریاست کے آئین اور قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہو‘ ریاست کی خودمختاری کی خلاف ورزیاں کر رہا ہو‘ اس کے ساتھ صرف دو ہی طرح کا سلوک ہو سکتا ہے۔ یا وہ بطور شہری اپنی ذمہ داریاں قبول کرے یا ریاست کے باغی کی حیثیت سے سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کرے۔ تحریک طالبان پاکستان اس معاملے میں کسی الجھن کا شکار نہیں۔ مذاکرات کا مطالبہ طالبان کی طرف سے کبھی نہیں کیا گیا۔ نہ ہی طالبان نے‘ پاکستان میں کسی کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ جو لوگ ان کے خودساختہ وکیل بن کر‘ ان کی طرف سے مختلف تجاویز پیش کرتے ہیں‘ طالبان نے انہیں کبھی تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے باضابطہ ترجمان مقرر کر رکھے ہیں اور ان کا موقف انہی کی طرف سے میڈیا میں آتا ہے۔ وہ اس معاملے میں اتنے سخت ہیں کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کا خیرمقدم کرنے پر‘ اپنے ایک ترجمان کو انہوں نے برطرف کر دیا تھا۔ طالبان کی طرف سے حکومت کے سامنے جو تجاویز پیش کی جا رہی ہیں‘ ان میں وہ اپنی آئین شکنی اور ریاست سے بغاوت کا ہرگز اعتراف نہیں کرتے۔ وہ ایک ساورن طاقت کی طرح حکومت پاکستان کے سامنے اپنی شرائط رکھتے ہیں۔ آج ہی ان کی طرف سے جو شرائط سامنے آئی ہیں‘ ان میں کہا گیا ہے کہ حکومت اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لئے پہلے ہمارے قیدی رہا کرے اور فاٹا سے فوج کو واپس بلائے۔ پاکستانی حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں‘ جن سے اعتماد سازی کا ماحول بہتر ہو اور شکوک و شبہات ختم ہو جائیں اور یہ کہ ہمارے خلاف جنگ کا آغاز خود حکومت نے کیا اور اب اسے ہی سیزفائر کا اعلان کرنا ہو گا۔ ہماری شرائط پر عمل کئے بغیر ‘ بات چیت کا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ طالبان کے خودساختہ وکیل‘ کیا ان کی اس پوزیشن کو قبول کرتے ہیں؟ اور اگر کرتے ہیں تو پھر کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ پاکستانی ریاست کو اپنی خودمختاری اور آئینی اختیار سے دستبردار ہو کر باغیوں کو برابر کا فریق مان لینا چاہیے اور پھر ان کی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہئیں۔ مذاکرات میں وہ کیا مطالبات پیش کریں گے؟ ان کی تفصیل نہ تو ابھی تک خود طالبان نے پیش کی ہے اور نہ ہی ان کے خودساختہ وکیل بتا رہے ہیں کہ حکومت پاکستان‘ ان کے ساتھ مذاکرات کس ایجنڈے پر کرے؟ ان کے تازہ مطالبات میں سے کتنے مطالبے مانے؟قیدیوں کی کونسی فہرست ہے‘ جس کے مطابق انہیں غیرمشروط طور پہ رہا کیا جائے؟ جنگ کے آغاز کی ذمہ داری حکومت پاکستان قبول کرے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ طالبان کی دوسری تمام شرائط تسلیم کرنے کے علاوہ انہیں تاوان جنگ بھی ادا کرے۔ فاٹا سے فوجیں نکالنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس علاقے سے دستبردار ہو جائے اور ان کے زیرتسلط علاقوں خصوصاً وزیرستان پر ان کا حق حاکمیت تسلیم کر لے۔ اگر اس کے علاوہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ ہو سکتا ہے‘ تو طالبان کے نام نہاد وکلا اس کا خاکہ عوام کے سامنے پیش کریں۔ یہ کہنا صریحاً فریب کاری ہے کہ طالبان ہمارے اپنے ہیں۔ ہمارے بچے ہیں۔ وہ ہمارے جنرلوں‘ ہمارے فوجی افسروں‘ ہمارے سرکاری ملازمین‘ ہمارے بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کے جسموں کے پرخچے اڑاتے رہیں اور انہیں ہم اپنا سمجھتے ہوئے‘یہ ساری ہلاکتیں جائز مان لیں اور ان سے مذاکرات کرتے رہیں۔ مجھے تو اس منطق میں کوئی بات بھی قابل فہم نہیں لگتی اور طالبان کے نام نہاد وکیل‘ ان مذاکرات کے لئے کوئی ایجنڈا رکھتے ہیں‘ تو ازراہ کرم اسے عوام کے سامنے پیش ہی کر دیں۔ حکومت پاکستان‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات میںانہیں کیا سٹیٹس دے؟کیا فاٹا پر ان کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے‘ ان کی آزادی و خودمختاری مان لے؟ کیا فاٹا سے فوجیں نکال کر‘ اس علاقے پر ان کا قبضہ جائز تسلیم کر لے؟ کیا انہیں اس علاقے کے حکمران سمجھتے ہوئے‘ ان کے ساتھ معاہدے کرے؟ اور اگر ایسا نہیں‘ تو پھر انہیں کیا سٹیٹس دے کر ان سے مذاکرات کرے؟اگر طالبان کی شرائط مان کر ‘ حکومت پاکستان‘ انہیں برابر کے فریق کی حیثیت دینے پر تیار ہو جائے‘ تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ ہم نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے‘ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے؟کیا ہماری فوج یہ بات تسلیم کر لے گی؟ کیا شہداء کی مائیں‘ بہنیں‘ والدین‘ بھائی اور اہل وطن یہ گوارا کر لیں گے کہ ہمارے ارباب اقتدار‘ انہیں قتل کرنے والوں سے ہاتھ ملائیں اور انہیں گلے لگا کر‘ ان کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ جائیں؟ میری سمجھ میں تو یہ منظرنامہ نہیں آ رہا۔ یہ درست ہے کہ ہر جنگ کا انجام آخرکار مذاکرات میں ہوتا ہے۔ لیکن مذاکرات کس کی شرائط پر؟ تاریخ ایسی صورت میں صرف ایک ہی طریقہ بتاتی ہے اور وہ یہ کہ جب دو فریق برسرپیکار ہوتے ہیں‘ تو ان میں سے ایک یا تو غلبہ حاصل کر کے اپنی شرائط منواتا ہے یا شکست تسلیم کر کے‘ حریف کی شرائط مان لیتا ہے۔ مگر یہ صورت ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ نہ طالبان نے شکست مانی ہے اور نہ ہی افواج پاکستان نے۔ اگر کچھ بزدل سیاستدان‘ آخری دن تک مقابلہ کئے بغیر‘ طالبان کے سامنے شکست تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں‘ تو بہتر ہے کہ وہ ہماری صفوں میں بیٹھ کر خنجر گھونپنے کی بجائے‘ برملا طالبان کے ساتھی بن جائیں۔ ان کے ساتھ مل کر پاکستانی فورسز کا مقابلہ کریں۔ یا پھر پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ‘ ان پر حملے کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ دوران جنگ جب حریف آپ کی لاشیں گرا رہا ہو‘ اس وقت نہ کبھی بات چیت ہوئی ہے۔ نہ ہو گی۔ جنگوں کے دوران ہونے والے مذاکرات محض امکانات کو آزمانے کی ایک مشق ہوتی ہے اور ان مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں کے لئے قابل قبول باتیں ڈھونڈی جاتی ہیں اور میدان میں بدلتی ہوئی پوزیشن کے مطابق ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن یہ باضابطہ مذاکرات نہیں ہوتے۔ محض امکانات کو آزمانے کی سعی ہوتی ہے۔ اصل مذاکرات اس وقت ہوتے ہیں‘ جب پہلی شرط کے طور پر جنگ بندی کر لی جائے۔ مگر یہاں پھر وہی سوال ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے انہیں کیا سٹیٹس دیا جائے؟ کیا کسی علاقے پر ان کا حق حکمرانی تسلیم کرتے ہوئے ان سے بات کی جائے؟ اور آخری بات کہ سیاستدانوں کے مابین ضروری نہیں کہ اتفاق رائے ہو۔ ملکی سلامتی کا سوال انتہائی نازک ہوتا ہے۔ فوج کو متذبذب اور مختلف خیال رکھنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر سلامتی کے سوال زیربحث نہیں لانا چاہئیں۔ فوج کا تعلق صرف اور صرف جائز اور منتخب حکومت کے ساتھ ہونا چاہیے‘ جو فیصلے کرنے کے بعد‘ انہیں فوجی قیادت سامنے رکھے۔ سیاستدانوں کی پریشان خیالی اور طرح طرح کی مخالف اور متضاد آرا‘ وہ میٹریل نہیں جو فوج کے کسی کام آسکے۔ فوج کو باربار کی آل پارٹیز کانفرنسوں میں بیٹھ کر اپنی یکسوئی میں خلل ڈالنے سے بچنا چاہیے۔ دہشت گردی کی جنگ ہمارے گلے پڑ چکی ہے۔ طالبان اس کی ذمہ داری ہم پر ڈالتے ہیں اور ظاہر ہے ہم انہیں ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ جنگ شروع ہو جائے‘ تو بلیم گیم کی افادیت باقی نہیں رہتی۔ دونوں طرف سے غلط الزام لگتے ہیںاور یہ حقیقت سب کو معلوم ہوتی ہے۔ جنگ گلے پڑ جائے‘ تو یا اسے لڑنا چاہیے یا ہتھیار ڈال دینا چاہئیں۔ گومگو کی کیفیت میں کوئی جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور تذبذب کی حالت میں جنگ لڑ کے‘ جو شکست ہوتی ہے‘ وہ زیادہ تباہ کن اور زیادہ ذلت آمیز ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved