مشرقِ وسطیٰ میں چین نووارد ملک نہیں۔ تقریباً دو سو سال قبل مسیح سے لے کر تقریباً 1500 ء سال تک قدیم شاہراہِ ریشم کے ذریعے چین کا رابطہ مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ رہا ہے کیونکہ چین کے شہر شیاں (Xian) سے شروع ہو کر شاہراہِ ریشم اور اس کی تینوں اہم شاخیں وسطی ایشیا‘ افغانستان‘ قراقرم اور خلیج فارس سے میسوپوٹیمیا میں سے گزرتی ہوئی بحیرہ روم میں واقع بندرگاہوں پر ختم ہو تی تھیں۔ یہاں سے چھوٹے جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے چین‘ ہندوستان اور وسطی ایشیا کے تجارتی کاروانوں کے ذریعے آنے والے سامان کو یورپ کی منڈیوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ شاہراہِ ریشم‘ جو دراصل چھوٹی بڑی بہت سی تجارتی سڑکوں کا مجموعہ تھی‘ چین اور یورپ کے درمیان محض تجارتی اشیا کی نقل و حرکت کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے‘ مختلف زبانیں بولنے والے‘ مختلف ثقافتوں کے حامل لوگوں کے درمیان باہمی میل جول اور علم و فن‘ فلسفہ‘ رسوم و رواج‘ مذہب اور خیالات کے تبادلے کے بھی کام آتی تھی۔
مشرقِ وسطیٰ میں یہ شاہراہ کئی شاخوں میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ ان میں سے ایک شاخ موجودہ اردن اور فلسطین سے گزر کر مصر اور شمالی افریقہ تک چلی جاتی تھی۔ ان تجارتی شاخوں کے ذریعے نہ صرف بحیرہ روم کے مشرقی ساحل ترکی سے لے کر شمالی افریقہ تک تجارتی منڈیوں کی رونق قائم تھی بلکہ چین کی قدیم تہذہب کی سائنس‘ صنعت‘ زراعت‘ علم و فن اور فلسفے کے شعبوں میں خدمات سے بھی مقامی لوگ مستفید ہوتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کئی صدیاں قبل بھی چین مشرقِ وسطیٰ میں علم و فن کے منبع کے طور پر جانا پہچانا جاتا تھا اور یہ سب کچھ شاہراہِ ریشم کی بدولت تھا‘ مگر 1453ء میں جب عثمانی سلطنت کے حکمران سلطان محمد نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے جبرالٹر سے لے کر درۂ دانیال (آبنائے باسفورس) تک بحیرہ روم پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور اسے یورپ اور چین کے درمیان خشکی کے راستے تجارت کے لیے بند کر دیا تو شاہراہِ ریشم کے ذریعے چین کے وسطی اور مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ روابط بھی منقطع ہو گئے۔ بحیرہ روم بلاک ہونے کی وجہ سے ہی کولمبس 1492ء میں ہندوستان کی تلاش میں امریکہ اور پرتگالی ملاح واسکوڈے گاما 1498ء میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر واقع ایک مقام کالی کٹ پر (موجودہ ممبئی کے قریب) اترا تھا۔ اس کی آمد سے جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں مغربی نوآبادیاتی بالا دستی کے دور کا آغاز ہوا جو تقریباً ساڑھے چار سو برس تک قائم رہی۔
نوآبادیاتی تسلط کے اس طویل دور میں مغربی استعماری طاقتوں نے شاہراہِ ریشم کے سب سے بڑے کیچ منٹ (Cachment) ایریا یعنی ہندوستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کی بیرونی تجارت کا رخ ایران‘ میسوپوٹیمیا اور بحیرہ روم کے راستے کے بجائے سمندر (بحر ہند) سے براعظم افریقہ کے انتہائی جنوبی حصے میں واقع خلیج راس امید ( Bay of Good Hope) سے گزرتے ہوئے یورپ کی طرف موڑ دیا۔ انیسویں صدی کے وسط میں وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں پر زارِ روس کے قبضے سے چین کے مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ روابط اور بھی محدود ہو گئے مگر 1949ء میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد چین نے مشرقِ بعید‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ جنوبی اور مغربی ایشیائی ممالک کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ تعلقات کے قیام کا آغاز کیا مگر ان تعلقات کی نوعیت سفارتی‘ ثقافتی اور سیاسی تھی۔ دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے شعبے میں تعلقات محدود تھے لیکن 1980ء کی دہائی میں جب چین نے جدید شاہراہِ ترقی پر سفر کا آغاز کیا اور اسے اپنی صنعتوں کے لیے توانائی اور خام مال اور پیداوار کے لیے منڈیوں کی ضرورت پیش آئی تو اس نے سب سے پہلے اپنے ہمسایہ ممالک اور اس کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ‘ یورپ‘ شمالی اور جنوبی امریکہ میں منڈیوں کے لیے روابط پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور وسطی ایشیا اور بحیرۂ کیسپین کے خطے میں آزاد ریاستوں کے ظہور نے اس عمل کو تیز کر دیا۔ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس چین کو تیل اور گیس سپلائی کرنے والے سب سے اہم علاقے بن چکے ہیں۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ چین نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا آغاز ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کنندہ کے طور پر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب نہ صرف چین کو تیل سپلائی کرنے والے بڑے ملک ہیں بلکہ خلیج فارس میں امن اور استحکام کا انحصار ان دونوں ملکوں کے درمیان امن اور تعاون ہی پر ہے۔ اسی لیے مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطوں میں چین کا فوری طور پر سٹریٹجک ہدف امن اور استحکام ہے تاکہ اسے تیل کی سپلائی متاثر نہ ہو۔ اگرچہ ایران کے مقابلے میں چین سعودی عرب سے کہیں زیادہ تیل درآمد کرتا ہے مگر چین نے ایران کی جغرافیائی پوزیشن کے پیش نظر اس پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ ایران کے ذریعے چین شمال میں بحیرۂ کیسپین کے تیل کے ذخائر‘ مغرب میں عراق اور شام کے ذریعے اردن‘ اسرائیل‘ مصر اور اس سے آگے شمالی افریقہ اور جنوب میں خلیج فارس کے ذریعے بحر ہند اور مشرقی افریقہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن ہے اور سعودی عرب نے حال ہی میں اس تنظیم میں بحیثیت ڈائیلاگ ممبر شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان امن اور تعاون سے چین کے ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (B&RI)‘‘ کو شمال میں ترکیہ اور مغرب میں مصر اور اس سے آگے شمالی افریقہ تک وسعت دی جا سکتی ہے۔یاد رہے کہ ایران اور سعودی عرب B&RI کے فلیگ شپ منصوبے سی پیک سے وابستگی کی خواہش پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں میں چین نے دو طرفہ بنیادوں پر مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ وسیع تجارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ اپنے آپ کو ایک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لیے چین ان تعلقات میں مزید فروغ کا خواہاں ہے‘ جس کے لیے اس خطے میں امن ضروری ہے‘ مگر مشرقِ وسطیٰ میں چین کے طویل المیعاد سٹریٹجک مفادات تیل اور تجارت تک محدود نہیں۔ چین کا اصل مقصد شاہراہِ ریشم کو بحال کرنا ہے تاکہ اس کا درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے بحر ہند پر انحصار کم ہو جائے کیونکہ اس وقت مغرب میں باب المندب سے لے کر مشرق میں آبنائے ملاکا تک بحر ہند کے مختلف مقامات پر امریکہ کی بحری‘ فضائی اور بری افواج موجود ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کی وجہ سے چین بحر ہند کے راستے توانائی کی ترسیل کی حفاظت کے بارے میں فکرمند ہے۔ بھارت کے ایک سابق آرمی چیف چین کو دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع میں اس نے بھارت پر زیادہ فوجی دباؤ ڈالا تو بھارت آبنائے ملاکا کو بلاک کرکے بحر ہند کے راستے چینی معیشت کی لائف لائن مشرقِ وسطیٰ سے تیل اور سپلائی منقطع کر سکتا ہے۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved