تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-04-2023

دس لاکھ روپے سے دس کلو آٹے تک

پاکستان بھر میں کورونا کی سختیوں کی وجہ سے بڑی تجارتی مارکیٹوں‘ بازاروں اور شاپنگ پلازوں سے لے کر چھوٹی موٹی دکانوں اور ٹیلرنگ شاپس تک ہر قسم کے کاروبار کی بندش ہو چکی تھی جس کی وجہ سے ملکی ٹیکسز میں اربوں روپے کی کمی آ چکی تھی لیکن اس کے باوجود بجلی کے بلوں میں دس فیصد سے پچاس فیصد تک رعایت دی گئی جبکہ گیس کے بلوں میں بھی غیر معمولی کمی کی گئی۔ کیا یہ کوئی معمولی کارنامہ تھا؟ اسی طرح جب مستحق افراد کو بارہ ہزار روپے دیے گئے تو اس طرح کہ تمام افراد کو بہترین جگہوں پر انتہائی عزت و احترام کے ساتھ کرسیوں پر بٹھایا گیا اور پھر وزیراعظم عمران خان اور محترمہ ثانیہ نشتر نے مستحق گھرانوں کو رقوم ادا کیں۔ اگر عقل و شعور ہو‘ غریب کی عزتِ نفس کا بھرپورخیال کیا جاتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت چاہتی تو عمران خان حکومت کے اس ماڈل کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے دس کلو آٹے کا تھیلا بخوبی تقسیم کر سکتی تھی‘ اس طرح پندرہ کے قریب انسانی جانیں سستی سیاسی شہرت کی نذر ہونے سے بچ سکتی تھیں۔ یہ معصوم‘ غربت زدہ لاشیں خاموش لبوں سے جو فریاد اور چیخ و پکار کر رہی تھیں‘ یہ آہ و بکا کلنک کا ٹیکہ بن کر حکومت کے ماتھے پر کئی دہائیوں تک اپنا قہر برساتی رہے گی۔ دو سالہ کورونا بندشوں کے باوجود ملکی معیشت کو رواں رکھنا‘ عالمی اثرات سے بچانا اور پھر تقریباً چھ فیصد کی شرح سے ترقی‘ کیا یہ کوئی معمولی کارنامہ تھا؟ لیکن مخالفین کی منطق دیکھئے کہ آج بھی پوچھا جاتا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کا کوئی ایک کارنامہ ہی بتا دیں؟ یہ سوال کرنے والوں کو کئی دہائیوں بعد سستی بجلی پیدا کرنے والے ڈیموں سمیت دیگر آبی منصوبے نجانے کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ ان ناقدین اور مخالفین کو کوئی بتائے کہ آج اوور سیز پاکستانی اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ عمران خان نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کو ایک قوم بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی مخالفین کو نجانے اب مہنگائی کا بلند ترین گراف‘ پٹرولیم مصنوعات پر عائد بھاری بھرکم ٹیکسز‘ آٹے کی قیمت میں ہونے والا دو گنا اضافہ اور مفت آٹے کی لائنوں میں لگ کر کچلی جانے والی مفلس لاشیں کیوں دکھائی نہیں دے رہیں۔
ان حالات میں یہی سمجھا جائے گا کہ حکومت کے فیصلوں پر شاید کوئی امپورٹڈ حکم نافذ العمل ہے۔ایک جانب دس لاکھ کا صحت کارڈ اور دوسری جانب دس کلو آٹے کیلئے لمبی لمبی قطاریں۔ کئی‘ کئی گھنٹوں کے انتظار اور دھکوں کے بعد جن افراد کی باری آتی ہے انہیں بتایا جاتا ہے کہ آٹا ختم ہو گیا ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک خاتون کی جب باری آئی تو اسے جواب ملا کہ تمہارے شوہر کے نام پر آٹا جاری ہو چکا ہے‘ ایک گھر سے ایک فرد کو ہی آٹا مل سکتا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت کا دعویٰ ہے کہ اب تک لگ بھگ پونے تین کروڑ آٹے کے تھیلے تقسیم کیے جا چکے ہیں جن سے دس کروڑ سے زائد افراد مستفید ہوئے ہیں۔ کیا عقل یہ بات تسلیم کر سکتی ہے؟ کیا واقعی پنجاب کی لگ بھگ بارہ کروڑ آبادی میں سے دس کروڑ افراد مفت آٹے سے مستفید ہوئے ہیں؟ ہمیں تو اپنے آس پاس بے شمار سفید پوش ملے جن کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اکثر کو تو یہی جواب ملا کہ آپ اس سکیم کے لیے اہل نہیں‘ دیگر کو کئی کئی دن تک دھکے کھانے کے بعد بھی کچھ میسر نہ آیا۔ جس کسی خوش نصیب کو یہ مفت آٹا ملا‘ وہ بھی شاکی نظر آیا کہ بقول کسے‘ یہ آٹا انسانوں کے کھانے کے قابل ہی نہیں۔ اس کے برعکس ہیلتھ کارڈ سے حقیقی معنوں میں مستفید ہونے والے آپ کو اپنے اردگرد بہ آسانی مل جائیں گے۔
جب عمران خان کی حکومت تھی تو ہر دوسرے روز بہت سے مائیک بردار بازاروں میں گھومتے نظر آتے تھے‘ بازار میں موجود ہر شخص سے صرف ایک ہی سوال پوچھا جاتا تھا کہ اب تک عمران خان حکومت نے کون سا اچھا کام کیا ہے‘ پی ٹی آئی حکومت کا کوئی ایک کارنامہ بتا دو؟ اس قسم کے سوالات کے جواب میں جب پناہ گاہ‘ لنگر خانے‘ احساس راشن اور صحت کارڈ جیسے پروگرامز اور جی ڈی پی گروتھ کا حوالہ دیا جاتا تو ایک زبردست قہقہہ لگا کر اس طرح اس کا تمسخر اڑاتے کہ دیکھنے اور سننے والے حیران رہ جاتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان حکومت کی کارکردگی رجیم چینج کے تین ماہ بعد موجودہ حکومت نے اکنامک سروے آف پاکستان کی شکل میں خود شائع کی تھی۔ یہ رپورٹ ناقدین کے منہ پر موجودہ حکومت کا وہ طمانچہ ہے جس کی گونج کبھی مدہم نہیں ہو گی۔ عمران خان کی دینی خدمات کا باب ہی الگ ہے۔ اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی قرارداد‘ رحمۃ للعالمین اتھارٹی‘ عبدالقادر یونیورسٹی‘ قرآن پاک کی طباعت کیلئے استعمال میں آنے والے کاغذ پر لگائے گئے ٹیکس کی واپسی وغیرہ چند قابلِ ذکر اقدامات ہیں۔
اگر موجودہ حکومت کے ایک سال کا عبوری جائزہ لیا جائے تو بلند ترین شرحِ مہنگائی‘ بلند ترین شرحِ سود‘ غربت زدہ گھرانے‘ بے یار و مددگار افراد اور درد سے کراہتے اور چیختے ہوئے مریض‘ نیز 25 مئی اور 14 مارچ جیسے اقدامات‘ سیاسی مخالفین پر مقدمات کی بھرمار‘ آئین و قانون شکنی اور الیکشن سے فرار۔ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے مستحق گھرانوں کو کسی بھی اچھے سرکاری و پرائیویٹ ہسپتال سے دس لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت پر دس کلو ناقص آٹے کے تھیلے کو فوقیت دیتے ہوئے آج تالیاں بجائی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کو ریلیف تب دیا تھا جب کورونا کی وجہ سے دنیا بیکاری اور بھوک کا شکار ہو چکی تھی‘ جب کاروبار بند ہو رہے تھے۔ ایسے مشکل وقت میں ہر غریب کو عزت و احترام کے ساتھ بارہ ہزار روپے کی امداد دینا عمران حکومت کا ایساکارنامہ تھا جو اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑ چکا ہے۔ رجیم چینج والوں کے کارناموں کی بات کریں تو اس کیلئے سڑکوں‘ گلیوں‘ بازروں اور چوراہوں پر ذلیل و خوار کرتے ہوئے دس کلو ناقص ترین آٹے کی تقسیم ہی سب سے بڑی مثال ہے۔ سٹریٹ کرائمز میں بے پناہ اضافہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ شدید غربت کے سبب لوگ مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں سائٹ ایریا میں ایک صنعتکار نے کروڑوں روپوں کی اشیائے خوردنی کی تقسیم کا فیصلہ کیا‘ اشیائے خور و نوش کے بڑے بڑے پیکٹ بنائے گئے تاکہ مستحقین میں راشن تقسیم کیا جا سکے مگر وہاں اس قدر بھگدڑ مچی کہ مرد و خواتین نے کسی کی عمر کا لحاظ نہیں کیا اور ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے سب سے آگے بڑھنے کیلئے ہر ایک رکاوٹ کو روندنا شروع کر دیا۔ وہاں ایسی بھگدڑ مچی کہ بارہ سے زائد افراد ہلاک جبکہ تیس سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس پر پولیس نے مستعدی دکھاتے ہوئے خیرات بانٹنے والے فیکٹری مالک اور اس کے دس ملازمین کو گرفتار کر لیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ قریب پانچ سات سال قبل بھی ایک مخیر فیملی کے گھر میں پیش آیا تھا جس میں درجنوں افراد کچلے گئے تھے، اس مخیر خاندان کو بھی اپنی اس غلطی کی سزا بھگتنے کیلئے نجانے کتنی قید کاٹنی پڑی۔ شنید ہے کہ بعد ازاں کروڑوں روپے الگ سے دے کر جان خلاصی کرائی گئی۔ خدا نہ کرے کہ یہی حال اب اس فیکٹری مالک کا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر فیکٹری مالک اور اس کے ملازمین کو غفلت برتنے پر گرفتار کیا جا سکتا ہے تو ملک بھر میں آٹے کی تقسیم کے دوران لاپروائی برتنے کے جرم میں متعلقہ لوگوں کے خلاف مقدمات کیوں نہیں درج کیے جا سکتے؟ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر بتایا جائے کہ کس کس کی لاپروائی کی وجہ سے یہ درجن بھر افراد ہلاک ہوئے؟ کس کی غفلت سے سینکڑوں لوگ زخمی ہو چکے ہیں؟ کس کی وجہ سے پانچ خواتین کچلے جانے کے سبب عمر بھر کیلئے اپاہج ہو چکی ہیں؟ سستی سیاسی شہرت حاصل کرنے کیلئے بغیر کسی پلان اور منصوبے کے کس نے جگہ جگہ موت کے سرکس لگائے تھے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved