تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     05-04-2023

کیا اسرائیل تبدیل ہو رہا ہے؟

سیاسی‘ اقتصادی اور فوجی لحاظ سے اسرائیل اس وقت عالمی سطح پہ رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث ایسے داخلی تضادات میں الجھ گیا جس کے اثرات مڈل ایسٹ میں اس کی بڑھتی ہوئی بالادستی کے تصور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اسرائیلی مقتدرہ مغرب کی افسردہ کن جمہوریت سے جان چھڑا کر چین کی اُس توانا Authoritarian کی طرف بڑھنا چاہتی ہے جس نے یک جماعتی ڈھانچے کے ذریعے بیرونی مداخلتوں اور داخلی انتشار پر قابو پاکر اقتصادی ترقی کا بے مثال ماڈل تیارکیا‘ چین میں جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں پچھلی چار دہائیوں سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی تھیں وہاں اسرائیلی تھنک ٹینک 1980ء کی دہائی میں سوشلسٹ چین میں نافذ کی جانے والی معاشی اصلاحات اور نیواتھاریٹرین سسٹم کے مطالعے میں بھی مصروف تھے‘ جس کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست نے جمہوریت کا ہاتھ جھٹک کے اپنے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے کو چین کے جدید Authoritarian نظام کے مطابق ڈھالنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عدالتی اصلاحات کے ذریعے اختیارات کے منقسم نظام کو ایک مرکز پہ مرتکز کرنے کی مساعی کا آغاز کرنا چاہا‘ لیکن مغربی اشرافیہ اس دولت مند اقلیت کو جمہوریت کے طلسماتی جال سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہی۔
سوموار کو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی اتحادی حکومت اس وقت افراتفری کا شکار ہو گئی جب وزیر دفاع کی برطرفی کے خلاف ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ حکومت کی اتھارٹی کو مؤثر اور ریاستی ڈھانچے کو مربوط بنانے کی خاطر نیتن یاہو ایسی عدالتی اصلاحات لانا چاہتے ہیں جسے مخالفین ''جمہوریت‘‘ کے لیے خطرہ قرار دے کر مزاحمت پر اتر آئے ہیں۔ بلاشبہ تقسیم اختیارات کا موجودہ جمہوری نظام دراصل جمود(Status quo)قائم رکھنے کا وہ سنہرا جال ہے جسے توڑ کر ارتقا کی طرف بڑھنا‘ جال میں پھنسے شہریوں کو مشتعل کر دیتا ہے؛ چنانچہ اسرائیل میں بڑے پیمانے پر بھڑک اٹھنے والے مظاہروں اور قوم پرست مذہبی اتحاد کے ٹوٹنے کے خطرہ کے پیش نظر نتن یاہو نے وقتی طور پہ قانون سازی کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ حکمران لیکوڈ پارٹی کے قانون سازی میں شریک ایک اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم اوور ہال کو معطل کر دیں گے‘ جس نے اسرائیلی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں کو انگیخت کر کے وہاں بدامنی کی آگ کو ہوا دی۔ پارلیمانی اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف کے اراکین نے ''شرم کرو‘ شرم کرو!‘‘ کے نعروں کے ساتھ بل کی حمایت کرنے والے کمیٹی کے چیئرمین سمچا روتھمین پر حملہ کر دیا اور بل کا موازنہ شدت پسند گروپوں کی یلغار سے کرتے ہوئے اسے اسرائیل پر دشمنانہ قبضے کے مترادف قرار دیا۔ ممبران نے کہا: نیتن یاہو کے ہوتے ہوئے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں؛ تاہم اس کے باوجود جب اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے 2023-24ء کا بجٹ ابتدائی ووٹنگ کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا توحزبِ اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کو شکست ہوئی۔ حکمران اتحاد کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بینگویر نے ٹویٹ کیا کہ ہمیں انارکی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں‘ نہ عدلیہ میں اصلاحات کو روکنا چاہیے۔ لیکن اس وقت بین گوریان ہوائی اڈے سے ٹیک آف معطل اور اسرائیل کی اہم بندرگاہوں‘ بینکوں‘ ہسپتالوں اور طبی خدمات کے اداروں میں ہڑتالیں اور مشہور امریکی فاسٹ فوڈ چین کی تمام شاخیں بند کر دی گئی ہیں گویا احتجاج نے پوری ملکی معیشت کو لپیٹ لیا ہے۔ اسرائیل کی سب سے بڑی مزدور یونین ہسٹادرٹ کے چیئرمین آرنون بار ڈیوڈ نے کہا کہ حالات کو نارمل کریں‘ اگر اصلاحات واپس لینے کا اعلان کرکے حکومت نے ارادہ نہ بدلا تو صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ وسیع تر داخلی اور عالمی دباؤ کے بعد نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ عدلیہ کو تبدیل کرنے کا منصوبہ مہینوں کے احتجاج‘ بڑھتی ہوئی مزدور ہڑتالوں اور حکومت کے اندر سے مخالفت کے باعث مؤخر کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں کہا کہ بات چیت کے ذریعے خانہ جنگی سے بچنے کا موقع ملے تو بطور وزیر اعظم اسے ترجیح دوں گا؛ تاہم انہوں نے عدالتی اصلاحات کو منظور کرنے کے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے اس معاملے میں وسیع تر اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ تاخیر سے مراد ہے کہ بل کو اپریل کے آخر تک پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے لیے نہیں رکھا جائے گا۔ خطاب کے فوراً بعد ہسٹادرٹ نے کہاکہ وہ عام ہڑتال ختم کر رہے ہیں لیکن وزیر اعظم کے خطاب سے قبل ہی مخالفین نے کہہ دیا تھا کہ تاخیر اور عارضی انجماد کافی نہیں‘ اپوزیشن مذاکرات میں اسی صورت شریک ہو گی جب پارلیمنٹ اصلاحاتی بل کو مکمل طور پر ردّ کرے گی کیونکہ اس وقت قانون سازی کا عمل ایسے مرحلے میں ہے جہاں نیتن یاہو اگر چاہیں تو اسے بحال کرکے ایک دن سے بھی کم وقت میں منظور کرا سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ صدر جو بائیڈن اپنے خدشات نیتن یاہو پر واضح کر چکے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ مشترکہ جمہوری اقدار جو برطانیہ‘ اسرائیل تعلقات کی بنیاد ہیں‘ کو قائم اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو محفوظ رکھا جائے۔ اصلاحاتی منصوبوں پر عوامی جدوجہد اسرائیلی معاشرے
میں حکومت کے حامیوں کے درمیان گہری تقسیم کو بھی ظاہر کرتی ہے‘ کچھ لوگ عدالتی تبدیلیوں کو ضروری قرار دے کر ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن نیتن یاہو کے منصوبے کے مخالفین مُصر ہیں کہ ان اقدامات سے عدلیہ کمزور ہو گی اور اسرائیل کو آمریت میں بدل دیا جائے گا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ رپورٹ کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو شدید عوامی دبائو ٔکے باعث اپنے وزرا کے اصرارکے باوجود اصلاحاتی منصوبے کو روکنے کا اعلان کردیں گے۔ بظاہر نیتن یاہو کی جانب سے وزیر دفاع یووگیلنٹ کی برطرفی کو وزیر اعظم اور اتحادیوں کی طرف سے اوورہال پلان کی منظوری کا اشارہ سمجھا گیا ہے۔ گیلنٹ حکمران لیکوڈ پارٹی کے پہلے سینئر رکن ہیں جنہوں نے اصلاحات کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے‘ گہری تقسیم سے فوج کے کمزور ہونے کا خدشہ ظاہر کیاتھا جس کے بعد ہجوم سڑکوں پر آ گیا جس پر لیکوڈ پارٹی کے وزرا نے ایک قدم پیچھے ہٹنے پر آمادگی ظاہر کی۔ نیتن یاہو نے گیلنٹ کو برطرف کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب اسرائیلی بحریہ کے سابق ایڈمرل نے ہفتے کے روزاس انتباہ کے ساتھ کہ اوور ہال منصوبے سے سلامتی خطرات میں الجھ گئی ہے‘ اصلاحات روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں یائر لاپڈ اور بینی گینٹز نے مشترکہ بیان میں کہا کہ نیتن یاہو نے سرخ لکیر عبور کر لی کیونکہ سیاسی کھیل میں ریاستی تحفظ ممکن نہیں ہوتا۔ انہوں نے لیکوڈ پارٹی کے ممبران سے مطالبہ کیا کہ وہ قومی سلامتی کوکچلنے میں حصہ دار نہ بنیں۔ نیویارک میں اسرائیل کے قونصل جنرل نے کہا کہ وہ گیلنٹ کی برطرفی پر مستعفی ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کی تحقیقی یونیورسٹیوں نے اعلان کیا کہ وہ قانون سازی کے دباؤ کی وجہ سے کلاسز کا انعقاد روک دیں گی۔
اسرائیل میں یہ آئینی بحران اُس قانون سازی کے نازک مرحلہ پر پیش آیا جس میں اصلاحاتی بل کے ذریعے ججوں کی تقرری پر ایگزیکٹو کو کنٹرول دینے کیلئے اُس پارلیمنٹ کی توثیق حاصل کرنا تھی جہاں نیتن یاہو اور ان کے اتحادی 120 میں سے 64 نشستوں پر قابض ہیں۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ‘ جو پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم کرنے کا اختیار دیتا ہے‘ عدالتی اور انتظامی شعبوں کے درمیان توازن پیداکرکے اس منفی رجحا ن پر روک لگائے گا جسے وہ مداخلت پسند عدالت کے طور پر دیکھتے ہیں؛ تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت جو کرنا چاہتی ہے وہ یہ نہیں کہ وہ عدالتی نظام کو درست یا زیادہ منصفانہ بنانے کیلئے اس میں مناسب ترمیم کرے بلکہ اس کے برعکس وہ عدالتی نظام پر مکمل کنٹرول چاہتی ہے۔ اسرائیلی سیاستدان اور بائیں بازو کی ہداش پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اوفر کاسف نے کہا کہ نیتن یاہو اسرائیل کو یک نسلی استبداد سے بدلنا چاہتے ہیں کیونکہ میری نظر میں اسرائیل کبھی بھی جمہوریت نہیں رہا کیونکہ یہ ریاست یہودیوں کی بالادستی پر مبنی ہے‘ اس لیے اسے پہلے سے جمہوریت کے طور پر نہیں مانا جا سکتا۔ اوفر کاسف کا تجزیہ حقیقت سے قریب ہے جو چینی ماڈل کی طرف بڑھتی اسرائیلی ریاست کے عزائم کی درست تشریح کرتا ہے‘ شاید اسی لیے یروشلم کے ایک مغرب نواز تھنک ٹینک '' اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ‘‘ کے ریسرچ فیلو گائے لوری کہتے ہیں کہ موجودہ تیز رفتار قانونی اور سیاسی پیشرفت اسرائیل کو مغرب سے الگ کر دے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اس لحاظ سے آئینی بحران کے آغاز پر ہیں کہ مختلف گورننگ باڈیز کے اختیارات کے مآخذ اور قانونی حیثیت پر اختلاف پیدا ہو گیا۔
اگرچہ نیتن یاہو حکومت کا کہنا ہے کہ فعال ججوں کو لگام دے کر منتخب حکومت اور عدلیہ کے درمیان توازن قائم رکھنا ناگزیر ہے لیکن مخالفین اسے قانونی چیک اینڈ بیلنس کو کمزور اور جمہوریت کیلئے خطرہ باورکرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved