مناظرانہ ذہن‘ فرد اور سماج کے اخلاقی وجود کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ سوشل میڈیا پر بھانت بھانت کی بولیاں سننے کے بعد‘ میری یہ رائے مزید پختہ ہوئی ہے۔
مناظرانہ ذہن کیا ہے؟ اپنے قائم کردہ مقدمے کو واحد حق سمجھتے ہوئے‘ اس کا دفاع اور دوسرے کی تردید‘ قطع نظر اس احساس کے کہ اس میں حق کا امکان موجود ہے۔ مناظرے میں کمالِ فن یہ ہے کہ آپ مخاطب کو لاجواب کر دیں۔ اس میں یہ اہم نہیں کہ اس منزل تک پہنچتے پہنچتے آپ نے دروغ گوئی کے کتنے سنگِ میل عبور کیے۔ اصل شے انجام ہے۔ مناظرے کا انجام فتح ہے یا شکست۔ جمود اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
مکالمہ کیا ہے؟ اپنی کہنا اور دوسرے کی سننا۔ اپنی بات میں اگر کہیں کجی ثابت ہو جائے تو اس سے رجوع کر لینا۔ دوسرے کی بات میں کہیں حق دکھائی دے تو اس کا اعتراف کرنا۔ مکالمے کی روح درست بات تک پہنچنا اور تصفیہ ہے۔ فتح و شکست کے الفاظ‘ مکالمے کی دنیا میں اجنبی ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ فکری ارتقا اس کا ماحصل ہے۔ فرد یا سماج‘ جو مکالمے پریقین رکھتا ہے‘ وہ جمود سے آزاد ہو جاتا ہے۔
مناظرہ باز کج بحث ہوتا ہے۔ اس کی نظر اپنی فتح پر ہوتی ہے۔ وہ بحث کو اس رُخ پر لے جانا چاہتا ہے‘ جہاں اس کا مقدمہ ثابت ہوتا ہو۔ اگر گفتگوکے دوران میں اس کا کوئی کمزور پہلو سامنے آ جائے تو وہ اس سے گریز کرتا ہے کہ بات اس نہج پر آگے بڑھے۔ وہ کم ہی اپنی بات کو کسی ایک نکتے پر مرتکز رکھتا ہے کہ اس کی بھرپور تنقیح ہو سکے۔ اس کی دلیل عام طور پر سطحی ہوتی ہے کہ گہرائی میں اترنا اس کے لیے اکثر ساز گار نہیں ہوتا۔ طنز‘ دوسروں کی کمزوریوں کو نمایاں کرنا‘ اس کے ہتھیار ہیں۔ یوں وہ خلطِ مبحث پیدا کرتا اور چاہتا ہے کہ دوسرے کے موقف کو اپنے ذہنی سانچے میں رکھ کر پیش کرے۔ اسے اس سے کم ہی غرض ہوتی ہے کہ دوسرا اپنی بات کی کیا تعبیر کرتا ہے۔
مکالمے میں بھی لوگ اپنی بات پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ مکالمے کا انجام نتیجہ خیز نہ ہو؛ تاہم اس میں اس کا پورا امکان ہوتا ہے کہ زیرِ بحث مسئلے کی تنقیح ہو جائے۔ جو مکالمے میں فریق نہیں ہے‘ وہ صحت کے ساتھ دو یا زیادہ نقطہ ہائے نظر کو جان سکے۔ اسے معلوم ہو جائے کہ کس کی دلیل کیا ہے اور اس میں کتنا وزن ہے۔ اس کے لیے اپنے طور پر درست نتیجے تک پہنچنا آسان ہو جائے۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ جو مکالمے کا حصہ بنتا ہے‘ وہ ذہنی طور پر زیادہ صحت مند رہتاہے۔ اس کے سماجی تعلقات خوش گوار رہتے ہیں۔ اس میں ہیجان پیدا نہیں ہوتا۔ جب آپ ایک مختلف نقطۂ نظر کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں تو آپ پر ایک طرف معاملہ زیرِ بحث کے بعض ایسے پہلو منکشف ہوتے ہیں جن سے آپ پہلے واقف نہیں ہوتے۔ ممکن ہے وہ فوری طور پر آپ کی رائے پر اثر انداز نہ ہوں لیکن یہ پہلو آپ کے سوچنے کے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ آپ اس کے قائل ہو جاتے ہیں یا اس کی کمزوری آپ پر واضح ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اپنی رائے کی صحت پر آپ کے اطمینان میں اضافہ ہو۔ آپ اس نتیجے تک پہنچیں کہ دوسرا موقف کمزور ہے اور آپ درست جگہ پر کھڑے ہیں۔
دونوں میں البتہ ایک مسئلہ ہے۔ یہ عقل کی عیاری ہے۔ یہ مناظرہ ہو یا مکالمہ‘ ان کی اساس عقلی ہے۔ ہر وہ مقدمہ جسے دلیل سے ثابت کیا جائے‘ عقلی ہوتا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ عقل جو بھیس چاہے‘ بدل لیتی ہے۔ الحاد بھی بظاہر عقلی مقدمہ ہے اور اہلِ مذہب کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کا مقدمہ عقلی ہے۔ عدالتوں میں ہم آئے دن عقل کی عیاریوں کے مظاہر دیکھتے ہیں۔ ان کا ظہور وکیلوں کے دلائل میں ہوتا ہے اور عدالتی فیصلوں میں بھی۔ ایک واقعے کی صحت پر اتفاق کے باجود عقل اس کی مختلف بلکہ متضاد تعبیریں پیش کرتی ہے۔ عقل کی اس عیاری سے بچنے کی بھی کیا کوئی سبیل ہے؟
اس کا جواب ہے: عقل کے عوارض کا ادراک۔ عارضے کی تشخیص ہو جائے تو علاج ممکن ہو جاتا ہے۔ عقل کا ایک بڑا مرض تعصب ہے۔ گروہی وابستگی اس کا سبب ہو سکتا ہے اور شخصی مفاد بھی۔ یہ عصبیت سوچ کے دائرے کی تحدید کر دیتی ہے۔ یہ انسان کی فکری پرواز کو مفاد کی حد تک محدود رکھتی اور وہ اسی فضا میں اپنی جولانیاں دکھاتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک وکیل کی سوچ اس دائرے میں مقید ہو جاتی ہے کہ اس نے اپنے موکل کے مفاد میں سوچنا اور اس کے حق میں دلائل تراشنا ہیں۔
عقل کا ایک مرض یہ بھی ہے کہ وہ جذبات کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔ اپنی لگام ان کے ہاتھ میں دے دیتی ہے۔ یوں وہ جذبات کو دلیل میں ڈھالنے لگتی ہے۔ کوئی رشتہ‘ کوئی خاندانی وابستگی‘ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق‘ جذبات کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات تو جذبات ہی کو دلیل مان لیا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر مذہب میں ہوتا ہے۔ قتل جیسے جرم کے لیے بھی مذہبی جذبات کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ غیرت جیسے جذبات میں انسان حد سے گزر جائے تواسے جائز کہا جاتا ہے اور یہاں بھی عقل جذبات کی وکیل بن جاتی ہے۔
مناظرے میں عقل کی یہ کمزوریاں نسبتاً زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ کسی مذہبی یا سیاسی عصبیت کا دفاع فی نفسہٖ ایک عقلی مقدمہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اخلاقی حدود کی پامالی بھی جائز ہو جاتی ہے۔ مکالمے میں یہ امکان کم ہوتا ہے۔ مکالمے کی فضا عام طور پر کم متعصبانہ ہوتی ہے۔ یوں عقل کے لیے یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ کھلی ہوا میں پرواز کرے اور سچائی کو تلاش کرے۔
عقل کو ان عوارض سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ انسان کا اخلاقی وجود صحت مند ہو۔ اس کا اخلاقی مدافعتی نظام اتنا مضبوط ہو کہ جب تعصب یا مفاد کا کوئی جرثومہ حملہ آور ہو تو اس کا وار خالی جائے۔ انسان حق کا سچا طالب بن جائے۔ بہت سے تعصبات فطری ہوتے ہیں۔ ان سے وابستگی اخلاقی جرم ہے نہ عقلاً غلط۔ مسئلہ صرف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں کسی ایسے تعصب اور حق کا آمنا سامنا ہو۔ انسان کا اخلاقی وجود ثابت ہو تو وہ بہر صورت حق کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے لیے اپنی عصبیت کو قربان کرنے پر تیار رہتا ہے۔ یہاں 'عصبیت‘ اپنے لغوی مفہوم میں ہے۔ اس کا تعلق اس 'عصبیت‘ سے نہیں ہے جو علمِ سیاسیات یا عمرانیات کی ایک اصطلاح ہے۔
مجھے قومی مسائل پر لکھتے ہوئے تین عشرے ہو گئے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ ہماری سماجی ساخت مناظرانہ ہے۔ ہمیں دوسرے کے موقف کو سمجھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اگر دوسرے کا نقطۂ نظر ہم سے مختلف ہے تو ہماری نظر اس کے دلائل پر نہیں ہوتی‘ اس کی کمزوری کو نمایاں کرنے پر مرتکز رہتی ہے۔ یوں ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم نے مخالف پر فتح پا لی ہے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو۔ آپ نے دوسرے کو لاجواب کر دیا ہو لیکن مخالف پر فتح پانے کا مطلب کیا یہ ہے کہ آپ نے حق کو پا لیا؟ یہ سوال ہے‘ جس کو ہمیں ہر لمحہ سامنے رکھنا چاہیے۔ ہمارا اخلاقی وجود سلامت ہے تو اس کا جواب ہمارے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔
یہ سوال بھی صرف مکالمے کی فضا میں زندہ رہ سکتاہے‘ مناظرانہ ماحول میں نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved