اللہ کی کتاب میں حالانکہ یہ لکھا ہے : خود کو پاک باز نہ کہا کرو۔ اللہ کی کتاب میں مگر یہ رقم ہے کہ جو لوگ غور نہیں کرتے ، وہ بدترین جانور ہیں ۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ اس کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں ۔ اس کے سچے پیمبرؐ نے کہا تھا کہ اس دنیاسے کوئی اٹھے گا نہیں ، جب تک اس کا ظاہر و باطن واشگاف نہ کر دیا جائے ۔ وہ لوگ جو اب بھی طالبان کی حمایت کر رہے ہیں ، وہ قوم کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں اور اپنی رسوائی کو دعوت دے رہے ہیں ۔ مذاکرات کی دعوت کے جواب میں فوجی افسروں کا قتل اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعتراف؟ کب تک قوم اس پہ صبر کرے گی ، کب تک ؟ رحمتہ اللعالمینؐ کی خد مت میں ایک شخص حاضر ہوا اور بتایا کہ کس طرح اس نے اپنی بیٹی کو زندہ دفن کیا تھا۔ کہا : جب میں گڑھا کھود رہا تھا اور مٹی میرے کپڑوں پر گرتی تو وہ اسے جھاڑتی لیکن مجھے ترس نہ آیا اور میں نے اسی مٹی میں اسے جھونک دیا۔ عالی مرتبتؐ اس قدر روئے کہ داڑھی تر ہو گئی ۔ قرآنِ مجید کہتاہے : روزِ حساب بے گناہ ماری گئی بچی سے پوچھا جائے گا ’’باَیّ ذنب قتلت‘‘ تو کس جرم میں قتل کی گئی۔ قاتلوں کے و کیل اس دن کے لیے اپنا جواب ابھی سے سوچ لیں ۔ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ مارکیٹوںمیں خریداری کرنے والی بے بس گھریلو خواتین، بوڑھوں اور کمسنوں کا قصور کیا تھا، جو بموں سے اڑا دئیے گئے ؟ حیرت ہے کہ یہ لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں ۔ خدا کی قسم انہیں معلوم ہی نہیں کہ اسلام کیا ہے ۔پچاس ہزار بے گناہ انسانوں کا قتل ؟ خدا کی کتاب تو یہ کہتی ہے کہ ایک بے گناہ کا خون تمام بنی نوع انسان کو ہلا ک کردینے کے مترادف ہے ۔ اس کا مرتکب جہنم میں ڈالا جائے گا اور اللہ کے غضب کا سزاوار ہوگا۔ جنگِ بدر سے پہلے …اور اس میں تاریخ کا افضل ترین گروہ بدترین کے خلاف رزم آرا تھا، سیدنا بلالؓ نے اپنی آواز بلند کی اور وہ اصول بیان کیے جو حالتِ جنگ میں بہرحال مسلمانوں کو ملحوظ رکھنا ہوں گے ۔ کسی بوڑھے ، بچے اور عورت کو قتل نہ کیا جائے گا۔ کھیت میںبروئے کار کسان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے گا؛حتیٰ کہ درخت نہ کاٹا جائے گا ۔ یہ کیسے لو گ ہیں ، جو اللہ کا نام تو بہت جپتے ہیں مگر اس کے کسی حکم ، اس کے طے کردہ کسی ضابطے کی رتّی برابر بھی انہیں پروا نہیں ۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت کہ ان میں تو ایسے ہیں کہ جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ۔ مذاکرات کے حامیوں کا موقف مان لیا گیا۔ پورے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت یکجا ہوئی اور اس نے فیصلہ کر ڈالا کہ بات سن لی جائے ، اتمامِ حجّت کیا جائے۔ اب کس چیز کا تقاضا ہے ؟ اب کیوں قتل وغارت گری ہے ؟ کیا اس کے سوا بھی کوئی مقصد ہے کہ ریاست کو قاتلوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا جائے؟من مانی کی انہیں کھلی چھٹی رہے اور وہ اپنی وحشتوںکو جب اور جس طرح چاہیں آسودہ کریں؟ اگر ریاست ان کی بات مان لے گی توکیسے وہ باقی رہے گی ؟ کیا بیس کروڑ انسانوں کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، وہ کہ جن کا کوئی اصول نہیں ، جو اپنے قوانین خود بناتے اور بدلتے ہیں ، جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ، جن کی اپنی تخلیق کردہ شریعت ہے اور اس میں جب چاہیں ، وہ ترمیم کر سکتے ہیں ۔ جب چاہیں اور جتنا چاہیں ،ا س میں پیوند لگا سکتے ہیں ۔ کیسے کیسے جواز ہیں ۔ آدمی تعصب میں اندھا ہو جائے تو بدترین کے لیے دلیل گھڑتا ہے اور گھڑتا چلا جاتاہے ۔ ذہن جب مسخ ہو جاتے ہیں تو سچائی اور عدل کی کوئی پروا باقی رہتی ہے اور نہ انجام کار کا کوئی ادراک ۔ ایسی ہولناک ناعاقبت اندیشی جنم لیتی ہے کہ آدمی دوسروں کو برباد کرنے کے درپے رہتا ہے اور خود کو بھی ۔ تابہ کے ؟ مگر تابہ کے ؟ آخر اللہ کے عذاب کا کوڑا برستاہے اور وہ لوگ فنا کر دیے جاتے ہیں ،جو خدا کی زمین پر فساد کے ذمہ دار ہوں ۔ پہلی بار نہیں کہ آدمیت نے احمقوں اور مجرموں کے کسی گروہ کو دیکھا ہے ۔ ہر زمانے میں ایسے لوگ جنم لیتے اور تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بنتے ہیں ۔ حیرت تو خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ کے مارے ان لوگوں پر ہے ، جو بظاہر بھلے چنگے نظر آتے ہیں مگر ان کی وکالت فرماتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ تھے ، قیامِ پاکستان کی جنہوںنے مخالفت کی تھی ، اقبالؔ اور قائد اعظم کو جنہوںنے مسترد کیا تھا، مسلم برصغیر کی عظیم الشان اکثریت جن پر متفق تھی ۔انہی کے آبائو اجداد نے قائد اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا تھا۔ جنگ کے بعد سرکارؐ نے مالِ غنیمت فراوانی سے تقسیم کیا اور نو مسلموں کو زیادہ دیاکہ دل جوئی ہو ۔ اصحابِ کبارؓ کو تو درہم و دینا ر سے کوئی محبت تھی ہی نہیں ۔ان کے لیے سب کچھ سرکارؐ ہی تھے ۔ خوب اچھی طرح سے وہ جانتے تھے کہ پیمبرؐ کا ہر فیصلہ احکامِ الٰہی کی ر وشنی میں برپا ہو تاہے ۔ اللہ کا فرمان قرآنِ کریم میں رقم ہے : پیمبرؐ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتا ۔ وہی کہتاہے ، جو اس کے قلب پر نازل کیا جا تاہے ۔ کچھ مغالطے میں پڑے ۔انصار میں سے بعض …کہ طوفان کے مقابل توہم کھڑے رہے ،زندگیاں ہم قربان کرتے رہے ، پھر مکّہ کے نو مسلموں پر اس قدر عنایات کیوں ۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کی تربیت کی تھی ۔ وہ آزاد لوگ تھے ۔ انہیں اس کا حق دیا گیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی کہ وہ سوال اٹھایا کریں ۔ انہیں جمع کیا گیا اور آپ ؐ نے ارشادکیا : اے گروہِ انصار ، کیا یہ بات تمہیں پسند نہیں کہ لوگ مال و دولتِ دنیا لے جائیں اور تم مجھے اپنے ساتھ لے جائو، تو وہ روئے اور اس قدر روئے کہ ان کے چہرے آنسوئوں سے تر ہو گئے ۔ بات انہیں سمجھادی گئی کہ وہ سمجھنے اور سوچنے پر ہمیشہ آمادہ رہتے ۔ وہ اللہ کی کتاب پہ غور و فکر کیا کرتے ، جس میں لکھا ہے : جو تباہ ہوگا ، وہ دلیل سے تباہ ہوگا اور جو جیے گا ، وہ دلیل سے جیے گا۔ ایک بدبخت مگر ایسا بھی تھا ، جس نے یہ الفاظ کہنے کی جسارت کی تھی ’’محمدؐ ، انصاف کرو ‘‘عالی مرتبت ؐ کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔ فرمایا: اگر محمدؐ انصاف نہ کرے گا، تو کون کرے گا ؟ پھر اصحابؓ سے فرمایا : اس کی اولاد میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے ، جو اتنی نمازیں پڑھیں گے کہ تم نہیں پڑھتے ، جو اتنا قرآن پڑھیں گے کہ تم نہیں پڑھتے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ قاتلوں اور درندوں سے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ باز آئیں اور زندہ رہیں ،زاہدانِ بے مغز ، یہ خالی کھوپڑیوں والے مفکر قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان کے سامنے جھک جائے۔ کیا یہ ممکن ہے ، کیا یہ ممکن ہے ؟ بعض وہ ہیں، امام غزالیؒ نے جن کے بارے میں کہا تھا کہ خلوص سے خالی وہ عبادت کرتے رہتے ہیں ۔ خود کو پارسا اور اللہ کی مخلوق کو گھٹیا گردانتے ہیں ۔ اللہ کی کتاب میں حالانکہ یہ لکھا ہے : خود کو پاک باز نہ کہا کرو۔ اللہ کی کتاب میں مگر یہ رقم ہے کہ جو لوگ غور نہیں کرتے ، وہ بدترین جانور ہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved