تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     07-04-2023

آگے خطرہ ہے!

ہم تو کناروں پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے والوں کی صفوں میں شامل ہیں‘ ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ ظالم حکمران گھرانوں اور ان پر دستِ شفقت رکھنے والوں کو کیا کرنا چاہیے۔ وہ تو وہی کرنے کی کوشش میں ہیں جو وہ گزشتہ ایک سال سے کرتے چلے آئے ہیں۔ کپتان کو نکال باہر کرو اور خود گھس بیٹھو۔ اتحاد ضروری تھا‘ جوڑ توڑ کی سیاست کے وہ جغادری تھے اور ہر ایک ان میں مخصوص کرتبوں کا بادشاہ تھا۔ اپنے طور پر تو وہ کچھ نہیں کر پائے تھے‘ بس مشاورتی اجلاس ہوتے‘ لانگ مارچ کے اعلانات کیے جاتے‘ ایک ہلکا پھلکا کر بھی لیا‘ ایک دوسرے کی تائید کرتے۔ کچھ دن بعد مل بیٹھنے کا اعلان کرکے گھروں کو رخصت ہو جاتے۔ کپتان کا پاکستان کی سیاست میں دھماکے سے کیا آنا ہوا‘ سب کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ تین چار بڑے موروثی سیاسی گھرانوں نے اجارہ داری کی بنیادیں گہری اور پختہ بنا رکھی تھیں۔ ہر صوبے‘ ہر ضلع اور پورے ملک میں قومی زندگی کے ہر شعبے میں گماشتوں کا منظم نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ اگر چہ یہ ختم نہیں ہوا‘ اب بھی ہے مگر کپتان کے احتساب اور حساب کتاب کے بیانیے نے روایتی حکمرانوں کے مصنوعی بت پاش پاش کر دیے ہیں۔ اکثر مبصرین کا خیال تب یہ ہوا کرتا تھا کہ ملک پر راج لاڑکانہ اور رائیونڈ والے کریں گے اور ان کی باریاں طے تھیں۔ تمام سیاسی اتحادوں کے مراکز دو ہی تھے اور یہ اس وقت سے استوار ہوگیا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ سرپرستی میں ابھرنے والوں کا پلڑا بھاری رہا مگر تمام المیوں اور حوادث کے باوجود بھٹو زندہ رہا۔ وارثت البتہ بدل گئی تو بہت کچھ بدل گیا۔ بھٹو کا کرشمہ بہت مضبوط تھا۔ مرتے مٹتے لوگوں میں اب بھی موجود ہے۔ کچھ لوگ ان سے خلوص اور عقیدت کا رشتہ زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رکھنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ جانشیں بے نظیر بھٹو بہرحال بے نظیر تھیں۔ بہت مشکل حالات میں پارٹی کو زندہ کیا‘ بھٹو کامقدمہ عوام کی عدالت میں لڑتی رہیں۔ پرانے کارکنوں کو نیا حوصلہ دیا اور ان کا بھی ڈٹ کا مقابلہ کیا جو نہ جا نے انہیں کن کن خطابات سے نوازتے رہے۔ بے نظیر کے بعد چراغ تو جل رہے ہیں مگر وہ روشنی کہاں۔
دوسری طرف میاں نواز شریف کی سیاسی ولادت کا سیاق و سباق‘ سرپرستی اور ذمہ داری سے ضیائی دور کا دفاع اور بھٹو صاحب کی وراثت کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس کارِ خیر میں وہ اکیلے نہیں تھے۔ مہربانوں نے ان کے ساتھ وہ تمام سیاسی قوتیںجوڑ دی تھیں جو متبادل قیادت کے لیے گورنر ہائوس لاہور کے ماہرین نے تیار کررکھی تھیں۔ اقتدار ملے تو وسائل پیدا کر لیے جاتے ہیں کہ ہمارے جیسے ملکوں میں منڈیوں میں جہاں بولیاں لگنی شروع ہو جائیں تو مقابلے کے لیے جیب بھاری ہونی چاہیے۔ یہ فلسفۂ سیاست اور ریاست ہمارا ہر گز نہیں۔ ہم اسے سیاست نہیں‘ کاروبار تصور کرتے ہیں۔ دوبڑے حکمران گھرانوں میں مقابلہ بازی کا محور وسائل برائے سیاست بازی پیدا کرنا تھا۔ صرف اپنے قریبی اور بااعتماد گماشتوں سے کہتے کہ مخالف کے پاس اتنی دولت ہے‘ اس کا مقابلہ کیسے کریں گے‘ اگر ہم اس قومی دولت اور سرکاری خزانوں کی فیض یابی سے محروم رہے؛ چنانچہ وہ امیر ہوتے چلے گئے اور ملک غریب اور پسماندہ ہوتا چلا گیا۔ کئی ملکوں میں محلات خریدے گئے۔ سرمایہ سوئٹزر لینڈ سے لے کر گئے گزرے ممالک کی کمپنیوں میں جگہ پانے لگا۔ اس کاروبار میں وسیع تر شراکت کی ضرورت پڑتی ہے۔ کئی ملکوں کی ایسی لوٹ مار کی دستاویزی کہانیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اپنی تو ہم آنکھوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ مشاہدے میں ہیں۔ حکومتی اداروں میں جہاں مال پانی بنانے کی تھوڑی سی بھی گنجائش ہوتی ہے‘ کرائے کے لوگ تعینات کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنا واجبِ خفیہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ عجیب و غریب‘ بے تکے ترقی کے نام پر منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ سرمایہ ادھار پر لیا جاتا ہے اور یوں کمیشن کی کھیتی پھولنے پھلنے لگتی ہے۔ اعتبار نہیں تو ذرا آنکھیں کھول کر اپنے ارد گرد رائج اس 'چلن‘ کا مشاہدہ کریں۔ زوال ایسے ہی نہیں آیا۔ یہ منظم سازش تھی کہ اس ملک کو کسی کے کیے کی سزا دینی ہے۔ نجی پاور کمپنیوں کا منصوبہ‘ بجلی کی خرید کے معاہدوں کو اگر کوئی دیکھ سکے تو سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔
ایسے کاروبار میں‘ اور جب کاروبار سب کرنے لگیں‘ کوئی شعبۂ زندگی پیچھے نہ رہے تو منافع میں شراکت کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے ملک کے المیے کو دیکھنے سے پہلے لاطینی امریکہ اور کچھ افریقی ممالک کی حالت دیکھ چکے تھے۔ اب حکمرانوں میں دولت‘ طاقت کے اعتبار سے صرف وہ نہیں جو موروثی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور کئی صد سیاسی خاندان ہیں‘ بہت سے اور بھی ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ جب خزانے اور عوام لٹتے ہیں‘ طرزِ حکمرانی خراب ہو جاتا ہے اور قانون صرف کمزوروں کے لیے رہ جاتا ہے توزوال قوموں کا مقدر بن جاتا ہے۔ نکمے لوگ دولت کی سیڑھیوں سے اوپر کا سفر کرنے لگتے ہیں۔ گماشتے اور خوشامدی اپنے فن میں کمالات دکھا کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ کئی کتابیں‘ مقالے اور تحقیقاتی رپورٹیں عالمی سطح پر اس موضوع پر گردش میں رہی ہیں۔
اچھی سیاست کا فن یہی ہے کہ کوئی قیادت‘ تحریک یا کرشماتی لیڈر عصر حاضر کی سیاست کا موروثی جائزہ لے سکے اور جرأت اور بے باکی سے اس کا حل تلاش کرکے ملک کو نئی راہ پر ڈالنے کی کوشش کر سکے۔ کپتان کا بدعنوانی اور نامور سیاسی خاندانوں کے خلاف بیانیے کا عوامی سطح پر اتنا اثر ہونے کی دلیل عام آدمی کا روزانہ کا سرکاری دفتروں‘ بازاروں اور سکرینوں پرہونے والا تماشا ہے۔ اگر عوامی جذبے‘ احساسات اور دکھوں کو بااعتبار سیاسی زبان اور قیادت میسر آجائے تو سمجھیں کہ ''تبدیلی آنہیں رہی‘ آگئی ہے‘‘۔ اس میں صبر اور جہدِ مسلسل بھی شامل ہیں۔
جناب والا‘ اگر آپ بھی مقبول ہیں‘ عوام میں آپ کی کوئی ساکھ رہ گئی ہے تو سامنے آئیں اور انتخابات میں مقابلہ کریں۔ ڈر ہے کہ کرسی سے نیچے جیسے ہی اتریں گے تو ا س کے بعد پھر اس پر بیٹھنا تو درکنار‘ اس کے قریب بھی پھٹکنا نصیب نہیں ہوگا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد کپتان بطور ایک تیسری قوت سامنے آچکا تھا۔ تیرہ جماعتوں نے خطرہ بھانپ لیا تھا۔ راہ و رسم بڑھنا شروع ہو چکی تھی۔ 2018ء میں پھر سب شیر و شکر ہو گئے کہ معاملہ سیاسی بقا کا تھا۔ حریف طاقتور ہو تو کمزور ایسا ہی کرتے ہیں مگر نعرہ بازی‘ بیان بازی‘ تلخ جملے اور الزامات کی طومار کسی کام نہ آئی۔ عشروں سے جامد سیاسی نام و نشان مٹنے کے خطرے سے دوچار ہونے لگے۔ کپتان کا خطرہ کہیں اور بھی محسوس کیا جانے لگا۔ ڈر پیدا ہونے لگا کہ پتلی تماشا لگائے رکھنے کا شغف تمام ہونے کو ہے۔ جب ''ووٹ کو عزت دو‘‘ والوں کا مسئلہ اپنا عزت و وقار کا مسئلہ بن جائے تو پھر ہماری سیاست میں سب چلتا ہے۔ غلط فیصلہ تھا۔ بڑی دیر تک (ن) لیگ والے پچھتائیں گے۔ تھوڑی سی اجرت پر بہت بڑا نقصان کرا بیٹھے ہیں۔ کپتان کے بیانیے میں ایک اور رخ طاقت کے سرچشمے والوں کے پرانے حوالوں سے پیدا ہوا تو اس کی سحر انگیزی میں بڑے خاندانوں کے سب بھرم اور بیانیے دم توڑ نے لگے۔ اب بہانے ہیں‘ عدالت عظمیٰ کے تاریخ ساز فیصلے پر ان کی تنقید ہے‘ انتخابات سے فرار ہے کہ آگے خطرہ ہے۔ اور خطرہ وہ جو موورثی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved