جب ہر طرف سے بری خبریں آ رہی ہوں تو عوام میں اداسی اور مایوسی پھیل جاتی ہے۔ اداسی اور مایوسی کے اس دور میں گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ کیا ہے جو بہت لوگوں کے لیے ایک بڑی خوش خبری تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124اے کو پاکستان کے آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ اگر یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے تو یہ پاکستان کی قانونی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ دفعہ 124‘ جسے عام طور پر 'سیڈیشن لاء‘ کہا جاتا ہے‘ نوآبادیاتی ماضی کی ایک بدصورت نشانی ہے۔ یہ قانون نوآبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے متعارف کرایا گیا تھا۔ اس لیے یہ قانون ان حکمرانوں کی اپنی نوآبادیوں پر مکمل کنٹرول کی بے لگام خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ اس قانون کا استعمال حکمران طبقات کے لیے کسی قسم کا تکلیف دہ چیلنج پیدا کرنے والے مخالفین کو قابو کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔
یہ قانون کیا تھا؟ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 124اے میں لکھا ہے کہ جو کوئی شخص قانونی طور پر قائم شدہ مرکزی یا صوبائی حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے‘ اس کی توہین کرنے یا اس کے خلاف بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ اسے تین سال سے لے کر عمر قید تک اور جرمانے کی سخت سزا ہوگی۔ حکمران طبقات کا خیال رہا ہے کہ یہ قانون ریاست کی سلامتی اور تقدس کا تحفظ کرتا ہے جبکہ دوسری طرف تاریخ کے ہر دور میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حامی یہ اصرار کرتے رہے کہ یہ قانون بنیادی طور پر حکمران طبقات سے سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو مجرم قرار دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ تاریخی طور پر نو آبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے اس قانون کے ممتاز متاثرین میں موہن داس کرم چند گاندھی اور بال گنگا دھر تلک جیسی مشہور شخصیات رہی ہیں‘ جو ہندوستان کی آزادی کی بات کرتے تھے۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح کے خلاف یہ قانون کبھی استعمال نہیں ہوا لیکن جب بال گنگا دھر کے خلاف یہ قانون استعمال کیا گیا تو عدالتوں میں ان کا مقدمہ قائداعظم نے خود ایک نوجوان وکیل کے طور پر لڑا تھا اور ان کا کامیاب دفاع کیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کا ہزاروں بار غلط استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں جمہوریت اور شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی جدو جہد میں شاید ہی کوئی قابلِ ذکر شخص گزرا ہو جس نے حکمران طبقات کے خلاف کوئی مظاہرہ‘ جلسہ یا جلوس منظم کیا ہو اور اس پر یہ دفعہ نہ لگی ہو۔ انگریزوں نے یہ قانون نو آبادیوں کے لیے بنایا تھا‘ اس لیے انہوں نے اپنے شہریوں کے خلاف اس کا استعمال کم ہی کیا؛ تاہم یہ قانون طویل عرصہ تک انگلستان کے قانون کا حصہ رہا۔ سال 2010ء میں انہوں نے بالآخر اس قانون میں ترمیم کر دی۔ اس کے بر عکس انگریزوں کے چلے جانے کے بعد پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں نہ صرف یہ قانون باقی رہا بلکہ اس کے استعمال میں شدت آتی گئی۔ بھارت میں آزادی کے فوراً بعد سے اس قانون کی ترمیم پر بحث ہوتی رہی۔ انسانی حقوق کے علمبردار اس کی تنسیخ کا مطالبہ کرتے رہے لیکن عملی طور پر یہ قانون موجود رہا۔ وہاں بغاوت کا یہ قانون ایک بار پھر اس وقت بحث کا موضوع بنا جب بھارتی سپریم کورٹ نے اس کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت شروع کی۔ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں میں کہا گیا کہ یہ قانون آزادیٔ اظہار جیسے بنیادی حق پر ایک غیر معقول پابندی ہے۔ اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو 1847ء میں برطانوی مورخ اور سیاستدان تھامس بیبنگٹن میکالے کی طرف سے اس قانون کا مسودہ تیارکیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت حکومت کے خلاف بغاوت کو ایک جرم کے طور پر شامل کیا گیا تھا تاکہ نو آبادیوں میں آزادی کی بات کرنے والوں کو غدار قرار دے کر کچلا جائے۔ تعزیراتِ ہند کے تحت جو شخص‘ الفاظ کے ذریعے‘ بولنے‘ لکھنے یا نشانات کے ذریعے‘ حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے یا لانے کی کوشش کرتا ہے‘ حکومت کی توہین کرتا ہے یا اس کے خلاف بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ غداری کا مرتکب ہوتا ہے جس پر دفعہ 124اے کا طلاق ہوتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت بھارت میں آزادی کے بعد بھی بغاوت کو ایک ناقابلِ ضمانت جرم کے طور پر برقرار رکھا گیا جس کی سزا تین سال سے لے کر عمر قید تک اور جرمانے کی تھی۔ اس قانون کے تحت فردِ جرم عائد ہونے پر ملزم کو سرکاری ملازمت سے بھی روکا جا سکتا ہے اور سرکار اس کا پا سپورٹ بھی ضبط کر سکتی ہے۔
بھارت میں اس قانون پر لا کمیشن آف انڈیا نے 2018ء میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی جس سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ اس رپورٹ کے مطابق آئین بناتے وقت دستور ساز اسمبلی نے اس وقت کے آرٹیکل 13کے تحت آزادیٔ اظہار اور اظہارِ رائے پر پابندی کے طور پر بغاوت کو شامل کرنے کی مخالفت کی تھی لیکن بد قسمتی سے یہ جرم دفعہ 124اے کے تحت برقرار رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جمہوریت میں ایک ہی گانوں کی کتاب سے گانا حب الوطنی کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کو اپنے طریقے سے اپنے ملک کے لیے اپنا پیار ظاہر کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے ہر شہری حکومت کی پالیسی میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تعمیری تنقید یا بحث و مباحثے میں حصہ لے سکتا ہے۔ اس طرح کے خیالات میں استعمال ہونے والے تاثرات کچھ لوگوں کے لیے سخت اور ناخوشگوار ہو سکتے ہیں لیکن اس عمل کو فتنہ انگیز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کمیشن نے رائے دی کہ دفعہ 124کو صرف ان صورتوں میں لاگو کیا جانا چاہیے جہاں کسی بھی سرگرمی کے پیچھے امنِ عامہ میں خلل ڈالنا یا تشدد اور غیر قانونی طریقوں سے حکومت کا تختہ الٹنا مقصود ہو۔ اس قانون کے خاتمے کے لیے بھارتی پارلیمنٹ میں بھی کئی دفعہ مباحثہ ہوا مگر دنیا کی سب سے بڑے جمہوریت کے دعویدار قانون ساز بھی اس قانون میں ترمیم لانے سے قاصر رہے۔ 2011ء میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے ممبر پارلیمنٹ پیڈی راجہ نے راجیہ سبھا میں ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا جس میں تجویز کیا گیا کہ اس دفعہ کو ختم کر دیا جائے لیکن ان کا یہ بل پاس نہ ہو سکا۔ 2015ء میں کانگرس کے مشہور پارلیمنٹیرین ششی تھرور نے لوک سبھا میں ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا جس میں کہا گیا کہ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124اے میں ترمیم کی جائے اور صرف براہِ راست تشدد کے استعمال یا تشدد کو بھڑکانے کو غداری قرار دیا جائے لیکن یہ بات آگے نہ بڑھی۔
بھارت میں اس قانون کے خلاف بولنے کا سہرا بھارتی سپریم کورٹ کے سر بندھا۔ جولائی 2021ء میں چیف جسٹس آف انڈیا اینوی رمنا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ غداری ایک نوآبادیاتی قانون ہے۔ یہ آزادیوں کو دباتا ہے۔ اسے مہاتماگاندھی اور بال گنگا تلک کے خلاف استعمال کیا گیا۔ کیا یہ قانون آزادی کے 75 سال بعد ضروری ہے؟ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جب تک تشدد کا استعمال نہ ہو‘ 124اے کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔ ان حالات میں لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے اس قانون کو واضح طور پر آئین سے متصادم قرار دینا پاکستان کی عدالتی اور قانونی تاریخ کا ایک بڑا دلیرانہ اور عادلانہ قدم ہے جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے‘ کم ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved