تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     08-04-2023

کس خانقاہ پہ دعا کرنے بیٹھیں؟

اتنی عقل والی قوم ہماری کبھی نہ تھی لیکن اب کے جو پھنسے ہیں‘ بری طرح پھنسے ہیں۔یہ جو اوپر بیٹھے ہوئے ہیں‘ ہمارے کرتے دھرتے‘ انہوں نے ہرچیز کا بھرکس نکال دیا ہے۔اپریل رجیم چینج کا مہینہ ہے‘ اسی ماہ میں پچھلے سال وہ کرشمہ سازی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔تباہی تو چلیں ہوگئی لیکن سوال ہے یہاں سے نکلیں گے کیسے ؟جو بیٹھے ہوئے ہیں اُن کی دو نمایاں خاصیتیں ہیں‘ بے عقل ہیں اور اس کے ساتھ دل ان کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن ماتم کرنے کا یا کوسنے کا فائدہ کیا ؟بات تو ہے کچھ کرنے کی‘اور کیا کرنا ہے اُس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔
نااہلی اور نا سمجھی کی انتہا ہو چکی ہے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ الیکشن کے تصور سے ان کی جان جاتی ہے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ الیکشن ہوئے تو تاریخی چھترول ہوگی۔اس لیے ملک تباہ ہو جائے‘ معاشی صورتحال اور بگڑ جائے‘ انہوں نے الیکشن کی طرف نہیں جانا۔لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ آپ نہیں دیکھ رہے ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟آپ کے دلوں میں بھی بغض کوٹ کوٹ کر بھرا ہوگا لیکن سوال یہاں قوم کا ہے اور کیا حالت اس کی ہو گئی ہے۔اس ڈگر پر چلتے رہے تو کچھ نہیں بچے گا‘ پنشنوں میں کٹوتی کرنی پڑے گی‘ تنخواہوں کیلئے پیسے نہیں ہوں گے۔ ایسے میں کیا کریں گے‘ کس دروازے پر دستک دیں گے ؟ سوال لہٰذا روزمرہ کی سیاست کا نہیں ہے‘ قوم کی بقا کا ہے۔اب تو مستند بیوقوفوں کوبھی اتنی سمجھ آ چکی ہوگی کہ ملک تباہی کی نہج کو پہنچ چکا ہے۔عاطف میاں جو امریکہ کی پریسٹن یونیورسٹی میں معیشت پڑھاتے ہیں اور جن کا معاشی ماہرین میں بڑا نام ہے‘ نے پچھلے ایک دو روز میں پاکستان کی معاشی صورتحال کا بڑا بھیانک نقشہ کھینچا ہے۔کہتے ہیں کہ ہماری معیشت ٹیل سپن میں جا چکی ہے۔ٹیل سپن وہ کیفیت ہوتی ہے جب ہوائی جہازبے کنٹرول ہو جائے اور زمین کی طرف گر رہا ہو‘ تب جہاز کا پچھلا حصہ گھومنے لگتا ہے۔لیکن یہ نالائقوں کا ٹولہ بس لگا ہوا ہے۔ اس ٹولے کے کرتب دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ دانستہ طور پر ملک کی تباہی کا ایجنڈا سامنے رکھا ہوا ہے۔
جب انگریز برصغیر میں آئے تھے اور ہندوستان پر اپنا قبضہ جما رہے تھے تو اہلِ نظر پر کیا گزری ہوگی؟دیکھ رہے ہوں گے کہ کیا ہو رہا ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے کیونکہ ایک بے بسی کے عالم میں جی رہے تھے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک تباہ ہو رہا ہے لیکن ہم کچھ کرنہیں سکتے۔ہم پر بھی ایک بے بسی کا عالم طاری ہے۔عوام سمجھ رہے ہیں‘ عوام کے اپنے جذبات ہیں لیکن جن کے پاس طاقت ہے وہ بہت طاقتور ہیں اور عوام کو موقع ملے تو اپنے جذبات کااظہار تو کرسکتے ہیں لیکن حالات بدل نہیں سکتے۔یہ ہمارا موجودہ المیہ ہے کہ عوام جذبات رکھتے ہوئے بھی اُس طریقے سے منظم نہیں کہ اپنے زور کے بل پر کوئی تبدیلی لاسکیں۔انتخابات ہوں گے تو تبدیلی کی راہیں کھلیں گی‘ جبر کا زور کم ہوگا۔لیکن انتخابات نہیں ہونے دیے جا رہے۔ ہاں‘ سپریم کورٹ نے ایک دلیرانہ فیصلہ دے دیا ہے جس سے بٹھائے گئے اور اُن کے سرپرست سیخ پا ہیں اور راہیں ڈھونڈ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ناکارہ اور بے اثر کیسے کیا جائے۔ایسا کریں گے تو موجودہ بحران زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔یہ کشمکش تو ہے ہی لیکن ایک اعصابی جنگ بھی ہے‘ جسے انگریزی میں war of nerves کہتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام اور عوامی قیادت کے اعصاب قائم ہیں‘ مضمحل نہیں ہوئے۔البتہ موجودہ تباہی کے جو موجد ہیں اُ ن کے اعصاب ادھر اُدھر ہو رہے ہیں۔
مسئلہ بہرحال یہ بھی ہے کہ تباہی اتنی ہو چکی ہے کہ قوم کے پاس فالتو وقت کی عیاشی نہیں رہی۔یہی جمود اور اعصابی کشمکش رہی تو تباہی پتا نہیں کہاں پہنچ چکی ہوگی۔ہمارا ہوائی جہاز تب ٹیل سپن میں نہیں ہوگا بلکہ کریش کرچکا ہوگا۔جو بیٹھے ہیں یا بٹھائے گئے ہیں ان کا کیا جانا ہے‘ سب کی جائیدادیں باہر ہیں‘ دولت کے انبار باہر ہیں۔ رگڑی تو قوم جائے گی۔ اب بھی کوئی آپشن باقی نہیں رہے‘پھر تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ گداگرقوم تو ہمیں ویسے ہی بنا دیا گیا ہے۔اس رمضان میں مفت آٹے کی لائنوں کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں۔غربت تو یہاں ہے لیکن غربت کی اتنی تذلیل اور نمائش کبھی پہلے نہ ہوئی ہوگی۔پر موجودہ سیاسی تماشے کے بڑوں کی حالت تو دیکھی جائے‘ آرام سے لندن میں بیٹھے ہیں‘ طرح طرح کے فتوے جاری کیے جارہے ہیں۔قوم کو آئی سی یو میں تو آپ نے پہنچا دیا ہے‘ کم از کم قوم کی عقل کی اتنی بے عزتی تونہ کی جائے۔آپ نے جتنا مال اکٹھا کرنا تھا وہ کر لیا‘ آرام سے باہر بیٹھے ہیں‘قوم کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔قوم کو آپ کی نصیحتوں کی ضرورت نہیں۔
بڑے مگرمچھوں کی ایک بات ماننی پڑے گی کہ سب کے سب نے خوب مال بنایا ہے اور بیشتر حصہ اس مال کا باہر پڑا ہوا ہے۔نام کسی کا کیا لیں یا کھل کے بات کیا کریں کیونکہ ہمیں کوئی شوق نہیں کہ شہباز گل یا اعظم سواتی بنیں۔لیکن داد دیں انہیں‘ دنیاکا کوئی پُرکشش مقام نہیں جہاں پاکستانی مگرمچھوں کی جائیدادیں اور زمینیں نہ ہوں۔ایرانی انقلاب آیا تو ایرانی اَپر کلاس ملک سے رفوچکر ہو گئی اور یورپ اور امریکہ میں اُنہوں نے اپنے ٹھکانے اور مسکن بنائے۔افغانستان شورش کی زد میں آیا تو افغان اَپرکلاس ملک چھوڑ گئی اور مختلف مقامات پر آباد ہو گئی۔اب بھی ہم نے دیکھا کہ امریکی انخلا کے ساتھ جب طالبان دوبارہ افغانستان پر قابض ہوئے تو وہ سارا طبقہ جو امریکی تنخواہوں پر پلتا تھا‘ کابل سے غائب ہو گیا۔ایسے لوگوں نے اپنے رفوچکر ہونے کے منصوبے پہلے سے بنائے ہوتے ہیں۔یہاں بھی یہی ہو گا اگر حالات مزید خراب ہوئے۔چلیں وہ توآسودہ حال ہوں گے لیکن جن کے نصیب یہ ہیں کہ آٹے کی لائنوں میں ذلیل ہوں اُن کا کیا بنے گا؟ ایسی خبریں تو میڈیا میں آئی ہیں کہ اہلِ وطن دھڑادھڑ پاسپورٹ لے رہے ہیں اور جن کا بس چل رہا ہے وہ باہر کا رخ کر رہے ہیں۔یہاں آبادی کی کمی نہیں لیکن اَن پڑھوں کی بھی کمی نہیں۔ جن کی تھوڑی سی بھی تربیت ہے اورجنہیں موقع مل رہا ہے وہ باہر جا رہے ہیں۔
قومی دنوں پر جب کچھ اور کہنے کو نہ ملے تو ہم پوچھتے ہیں کہ تصورِ قائداعظم کیا تھا؟تصورِ اقبال کیا تھا ؟جو بھی ہو یہ تصور تو نہ ہو گا جو قوم کی حالت بنا دی گئی ہے۔داد البتہ اس بات کی دینی پڑتی ہے کہ حالات مملکت خداداد کے کب مثالی تھے لیکن موجودہ ناٹک والوں نے قوم کا حال جو ان بارہ مہینوں میں کردیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہر چیز کا ستیاناس کرنے میں انہوں نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔یہ بھی ان کا کمال ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہے۔اپنے تمام اُلو سیدھے کر لیے ہیں‘ مقدمات ان کے ختم نہیں تو کمزور ہو چکے ہیں کیونکہ گواہیاں ہی ختم کردی گئی ہیں۔پکے اور سکہ بند یہ مقدمات تھے لیکن رجیم چینج کے بعد جادو کی چھڑی ایسی گھومی کہ سب کچھ بے اثر ہو گیا۔اپنے لیے جو اتنا کچھ ہو گیا ہے تو قوم کی جان تو چھوڑیں‘ لیکن نہیں! چمٹے ہوئے ہیں۔ شاید آزما رہے ہیں کہ قوم کے صبر کا پیمانہ کتنا ہے۔اور قوم بھی ہے کہ صبر دکھائے جا رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved