نظمِ اجتماعی کو درپیش بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوریت اس سنگین بحران میں ہمارا ہاتھ تھامتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہی نہیں‘ دکھائی یہ دے رہا ہے کہ اس بحران کو پیدا کرنے میں بھی جمہوریت کا ہاتھ ہے۔ 'پاپولزم‘ اس بحران کی اساس ہے اور وہ جمہوریت کی دین ہے۔ تو کیا ہمیں جمہوریت سے ماورا اپنے سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا؟
مجھ جیسے جمہوریت کے وکیل کے لیے یہ سوال اٹھانا آسان نہیں۔ جمہوریت میرے سیاسی عقائد کا حصہ ہے۔ میں سیاسی ارتداد کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہوں‘ یہ جانتے ہوئے کہ فقۂ سیاست میں اس کی سزا موت ہے۔ اس کا مگر کیا علاج کہ جہاں سے امیدیں وابستہ تھیں وہیں سے ناامیدی کا پیغام آ رہا ہے۔ کریں تو کریں کیا؟
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
جمہوریت کہتی ہے کہ پارلیمان بالا دست ہے۔ ساتھ ہی اس کا فرمان ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا تصور محال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمان ہی عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دے تو قانون کی حکمرانی کی عمارت کیسے کھڑی رہ سکتی ہے؟ دوسری طرف پارلیمان کے استدلال کو کیسے مسترد کیا جائے کہ اس کی پشت پر بھی سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات ہی کا فیصلہ کھڑا ہے اور وہ اکثریت میں ہیں۔ اسے قانون شکنی کا مرتکب کیسے قرار دیا جائے جو خود قانون ساز ہو؟ فل کورٹ مسئلے کا حل ہو سکتا تھا کہ عمران خان صاحب سمیت سب اس پر متفق ہیں۔ کوئی قانون مگر ایسا موجود نہیں جو نظامِ عدل کے ذمہ داران کو اس حل پر مجبور کر سکے۔
ہم بند گلی میں ہیں اور اس سے نکلنے میں جمہوریت ہماری مدد نہیں کر رہی۔ ہم اس کی ذمہ داری مقامی حالات اور کرداروں پر ڈال کر جمہوریت کو سرخرو کرنے کی ایک کوشش کر سکتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہے‘ وہ جمہوریت کہاں ہے؟ جمہوریت پر الزام تو تب آئے جب وہ اپنی روح کے ساتھ نافذ ہو۔ جمہوریت کے ثمرات دیکھنے ہیں تو مغرب میں دیکھیں۔
اس دلیل سے بھی بات بنتی دکھائی نہیں دیتی کہ مغربی جمہوریت کے فردوس میں 'پاپولزم‘ کا شجر اُگ آیا ہے اور اس پر ٹرمپ نام کو جو پھل لگا ہے‘ اس کی کڑواہٹ پورے امریکہ میں پھیل چکی۔ اس معاشرے کے بارے میں تین عشرے پہلے اہلِ علم کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ ارتقا کے تمام مراحل طے ہو چکے اور تاریخ کے ظرف میں جو امکانات تھے‘ اس نے یہاں انڈیل دیے ہیں۔ ٹرمپ اسی معاشرے کی پیداوار ہے۔ 'پاپولزم‘ کی یہ لہر امریکہ تک محدود نہیں رہی‘ اس نے یورپ کے کئی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مضبوط جمہوریت اس وار کو سہہ گئی ہے مگر اس کی دیواروں میں دراڑیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔
جمہوریت کو ایک دوسرا چیلنج بھی درپیش ہے اور وہ چین کی طرف سے ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل چین کا ہے۔ چین کاسیاسی نظام لبرل ڈیموکریسی کی اساس پر قائم نہیں ہے بلکہ جمہوریت مخالف ہے۔ اس کے باو صف اس کی معاشی ترقی اور سیاسی پیش رفت حیران کن ہے۔ انسانی ترقی کے جو معیارات مغربی جمہوریت نے بنائے ہیں‘ چین ان پر پورا نہیں اترتا مگر کیا یہ معیارات حتمی ہیں؟ اگر مغربی جمہوریت کو اپنائے بغیر بھی ترقی کی جا سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر جمہوری نظام بھی ایک متبادل ہے۔ کیا دنیا کو اب متبادل کی طرف دیکھنا ہوگا؟
میرے پاس اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں‘ کچھ خام خیالات ہیں۔ ہم اس سوال کو مگر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جمہوریت کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی کے سیاسی استحکام کے لیے انسان اس سے بہتر حل تلاش نہیں کر سکا۔ مجھے اس سے پورا اتفاق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے آگے سوچنے کا امکان ختم ہو چکا؟ کیا جمہوریت کو درپیش مسائل اس کے متقاضی نہیں کہ آگے بڑھا جائے؟
جمہوریت ہم جانتے ہیں کہ ایک پیکیج کا حصہ ہے۔ اس کے دیگر اجزا میں سرمایہ داری اور سیکولرازم بھی شامل ہیں۔ ان دونوں تصورات کے معاشی اور سیاسی مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔ ان کی خامیاں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ سب جدیدیت (Modernity) کی عطا ہیں۔ خود جدیدیت کے بارے میں سوالات اُٹھ گئے ہیں اور انسان اب اس سے نکل کر مابعد جدیدیت (Post modernism) کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ آج جدیدیت کے بہت سے تصورات سے اعلانِ برات کیا جا چکا۔ معیشت میں 'نیو لبرلزم‘ کا تصور بھی اب پرانا ہو چکا۔ سیکولرازم کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس کی کمزوریاں سرِ عام زیرِ بحث ہیں اور 'پوسٹ سیکولرازم‘ علم کی دنیا کا ایک سنجیدہ موضوع ہے۔
انسان کا یہ عمومی فکری ارتقا میرا احساس ہے کہ 'مابعد جمہوریت‘ (Post Democracy) کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ عالمِ انسانیت کو اپنے سیاسی مسائل کے حل کے لیے 'پسِ جمہوریت‘ کے دور میں داخل ہو نا ہوگا۔ علم کی دنیا میں یہ اصطلاح نئی نہیں ہے۔ میری مراد مگر مختلف ہے۔ سیاسیات کے عالم کولن کراؤچ نے 2000ء میں پہلی بار یہ اصطلاح استعمال کی۔ وہ اس سے ایک ایسا معاشرہ مراد لیتے ہیں جو جمہوریت کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اس معاشرے میں جمہوری تصورات اور آلات ہی کار فرما ہیں لیکن ان کے ثمرات 'جمہور‘ تک کم اور خواص تک زیادہ پہنچتے ہیں۔ وہ اس کے اسباب بھی بیان کرتے ہیں۔
کچھ لوگ اسے ایک نظریے کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں جمہوریت کے مروجہ اداروں کے ساتھ ساتھ بعض دوسرے ادارے بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوں جو اب تک اس کا حصہ نہیں۔ اس بحث کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک جمہوریت کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے‘ اس میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جو جمہوریت کو ان عوارض سے محفوظ رکھیں جو اَب تک سامنے آئے ہیں۔ دو عوارض سب سے بڑے ہیں۔ ایک یہ کہ جمہوریت آہستہ آہستہ جمہور کے بجائے خواص کے مفادات کی محافظ بن جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی یہ کمزوری جب ظاہر ہوتی ہے تو 'پاپولزم‘ کے ردِ عمل میں ڈھل جاتی ہے۔ پہلے عارضے کا علاج خود ایک بڑا عارضہ ہے۔ سوال یہ ہے ہم جمہوریت کو ان عوارض سے کیسے بچائیں کہ وہ کسی نئی بیماری پر منتج نہ ہو؟
علامہ اقبال نے سو سال پہلے 'لبرل ڈیموکریسی‘ کے نقائص سے بچنے کے لیے 'روحانی جمہوریت‘ کی بات کی تھی۔ انہوں نے بطور تصور اس کے خدو خال تو بیان نہیں کیے لیکن اقبال شناسوں نے ان کے علمی کام سے اس کو اخذکر نے کی قابلِ قدرکوشش ضرور کی ہے۔ یہ کام آگے بڑھنا چاہیے۔ کیا یہ لازم ہے کہ ہم ہمیشہ مغرب کی طرف دیکھیں کہ وہاں سے کیا صادر ہوتا ہے؟ فکری دریوزہ گری معاشی انحصار کا لازمی نتیجہ تو نہیں۔
اس بحث کا سرِ دست کوئی فائدہ نہیں کہ یہ نظری بحثوں کا وقت نہیں۔ اب فیصلہ ہم نے نہیں‘ وقت نے کرنا ہے اور ہمیں طوعاً و کرہاً تسلیم کرنا ہے۔ اس کا فائدہ اس وقت ہونا ہے جب انتشار کا یہ عمل اپنے فطری انجام سے دوچار ہوگا اور ہم بکھرے تنکوں سے ایک نیا گھر بسانے کے مرحلے میں ہوں گے۔ یہ واضح ہو چکا کہ مروجہ جمہوریت کے پاس ہمارے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ مغرب اور ہم میں بڑا فرق یہ ہے کہ وہ طوفان کے آثار دیکھ کر اس سے بچنے کی تدبیر تلاش کرتے ہیں۔ ہم اس وقت سوچتے ہیں جب طوفان ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved