سیاسی عدم استحکام آئینی بحران میں تبدیل ہو چکا ہے۔سیاستدانوں کا اختلاف کوئی نئی بات نہیں مگر اب سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان بھی تقسیم نظر آتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ سامنے آنے کے بعد کوئی ابہام نہیں رہ گیا ۔ معزز جج نے 25صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ انتخابات ازخودنوٹس کیس تین چار سے مسترد ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ازخودنوٹس کیس کو ایک جماعت کی سیاسی حکمت عملی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے ایوان میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعفے دیے اور جب استعفے منظور ہوئے تو منظوری کے خلاف پھر عدالتوں میں آ گئے۔کیا سیاسی طور پر صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا سیاسی حکمت عملی کے طور پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا بذاتِ خود آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ کیا سپریم کورٹ کو اجازت دینی چاہیے کہ اسے سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کیا جائے؟ کیا سپریم کورٹ کو غیر جمہوری طرزِ عمل کو فروغ دینے والا بننا چاہیے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسی کی سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے سپریم کورٹ کو خود کو پیش نہیں کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ سیاسی سٹیک ہولڈرز کو تنازعات کے حل کے لیے عدالتی فورم فراہم کر کے پارلیمنٹ کو کمزور کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں جن امور کی طرف اشارہ کیا ہے‘ حکومت میں شامل جماعتیں انہی باتوں کا برملا اظہار کر چکی ہیں۔اب جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کے بعد حکومتی اتحاد کا مؤقف درست ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے بعد حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے چیف جسٹس آف پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ حکمران جماعتوں نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ اس ضمن میں قومی اسمبلی سے قرار داد بھی آ چکی ہے۔ اتحادی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا تیرہ رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے مگر سپریم کورٹ کی جانب سے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دینے میں کیا امر مانع تھا؟اگر فل کورٹ سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو پھر تین رکنی بینچ نے فیصلہ کیوں دیا؟ حکومت سوال کرنے کے علاوہ قانون سازی بھی کر رہی ہے تاکہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کر دیا جائے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ تین ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جانا چاہئے۔ فی الحال ریفرنس دائر نہیں ہو ا البتہ قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کی گئی ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔حکومتی اتحادی بلوچستان عوام پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کی تفصیلات میڈیا پر آ چکی ہے اس لیے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں‘ تاہم قرار داد کی دو شقیں آنے والے دنوں زیر بحث رہیں گی‘ ایک یہ کہ نظرثانی کیلئے فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے۔ حکومت کے پاس نظر ثانی کی اپیل کا حق بھی ہے۔اگر فل کورٹ تشکیل نہ دیا گیا تو سوال اٹھیں گے۔دوسری شق توہینِ عدالت سے متعلق ہے جس کا حکومت نے پیشگی بندوبست کر لیا ہے کیونکہ اگر حکومت عدالتی حکم کو نہیں مانتی تو توہین عدالت کی مرتکب ہوگی۔قرار داد میں وزیر اعظم سے کہا گیا ہے کہ وہ الیکشن سے متعلق عدالتی حکم پر عمل نہ کریں۔ آسان لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے ہیں ‘یہ کسی کی جیت کسی کی ہار کا معاملہ نہیں ‘ ہر دو صورتوں میں نقصان ملک اور قوم کا ہو گا۔ اقتدار کے شراکت داروں کو اس کا پرامن حل نکالنے کی ضرورت ہے۔وسیع تر قومی مفاد میں مذاکرات وقت کا تقاضا ہیں‘ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا ۔ اہلِ سیاست مگر ایک ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ پریس کانفرنسوں کے ذریعے پیغام رسانی کی جا رہی ہے‘ خان صاحب کہتے ہیں کہ اگر انہیں گارنٹی دی جائے تو وہ اکتوبر تک انتظار کر سکتے ہیں‘ تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ اگر حکومت عوامی سطح پر مذاکرات کیلئے اپنی تیاری کا انتظار کرے تو پی ٹی آئی انتخابی شیڈول میں نوے روز کی مدت سے زیادہ کی ترمیم کیلئے آئینی ترامیم پر تیار ہے۔
دوسری طرف قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب ملک میں سیاسی‘ معاشی اور آئینی بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔ سکیورٹی مسائل اگرچہ اس کے متقاضی تھے کہ بہت پہلے جامع حکمت عملی کے تحت شدت پسندوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی مگر سیاسی عدم استحکام آڑے آتا رہا اور معاملہ تاخیر کا شکار ہوا‘ خیر دیر آید درست آید کے مصداق اس فیصلے کی تحسین کرنی چاہئے۔ قومی سلامتی کونسل نے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف نرم گوشہ پر مبنی پالیسی کو عوامی توقعات کے خلاف قرار دیتے ہوئے جامع آپریشن کی منظوری بھی دی ہے۔ قارئین یاد کر سکیں تو ہم نے انہی سطور میں متعدد بار تحریر کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندی کے دوبارہ پنپنیکے پیچھے تحریک انصاف کی نرم پالیسی تھی۔ پچھلے نو برس تک صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت رہی‘ اس دوران شدت پسندی نے سر اٹھانا شروع کیا تو تحریک انصاف نے اس پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ انتخابی مہم میں اسے سیاسی قیمت نہ چکانی پڑے جیسا کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی نے شدت پسندی کی قیمت چکائی ہے۔ تحریک انصاف کی اس پالیسی کا خمیازہ ریاست اور عوام کو بھگتنا پڑا ہے۔ اب قومی سطح پر اس کا ادراک کر لیا گیا ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ جب تک شدت پسندی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا ہے تب تک ریاست کی پالیسی میں کوئی نرمی نہیں آئے گی۔ شدت پسندی کے خلاف جب ہمارے سکیورٹی ادارے مصروف ہوں گے تو انہیں قوم اور اہلِ سیاست کی مکمل سپورٹ درکار ہو گی۔ بدقسمتی سے اہلِ سیاست کی ترجیح ریاست کے بجائے سیاست ہے‘ حکمران اتحاد میں شامل بعض جماعتیں مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘ قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرار داد کی منظوری کے بعد کی جانے والی بعض تقاریر کی حمایت نہیں کی جا سکتی‘ مسلم لیگ (ن) کو مشاہد حسین سید جیسے سنجیدہ افراد کے مشورے پر غور کرنا چاہئے‘ بچاؤ کا یہی واحد راستہ ہے‘ مذاکرات کبھی یکطرفہ نہیں ہوتے‘کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل کر کے مذاکرات کو کامیاب بنایا جا تاہے۔سوا ل مگر یہ ہے کہ مذاکرات کا آغاز کہاں سے ہو؟ ہر اعتبار سے حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ اگر پی ٹی آئی کی طرف سے لچک کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو حکومت کی طرف سے کیوں نہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved